پانچ لاکھ برس قدیم ہاتھی کا ساڑھے آٹھ فٹ لمبا دانت دریافت، آخر اس جانور کا شکار کس نے کیا ہوگا؟

image
 
اسرائیل میں ایک مشترکہ کھدائی کے دوران طویل عرصہ قبل معدوم ہو جانے والے سیدھے دانت والے ہاتھیوں سے تعلق رکھنے والا ایک دانت دریافت ہوا ہے۔ اس سے بہت سے نئے اور دلچسپ سوالات بھی ابھرتے ہیں۔
 
اسرائیل کے ماہرین آثار قدیمہ نے ماقبل تاریخ کے دور کے ایک دیو ہیکل ہاتھی کا مکمل دانت دریافت کیا ہے، جو کبھی بحیرہ روم کے آس پاس زندگی گزرتا رہا ہوگا۔ یہ دانت تقریباﹰ ساڑھے آٹھ فٹ لمبا ہے اور اس کا وزن تقریباً 150 کلوگرام ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تقریباً پانچ لاکھ برس پرانا ہاتھی کا دانت ہے۔
 
اسرائیلی محکمہ آثار قدیمہ (آئی اے اے) میں ماقبل تاریخ عہد کے ماہر ایوی لیوی، جو اس کھدائی کی سربراہی کر رہے تھے، نے بدھ کے روز کہا، ’’یہ اسرائیل یا پھر مشرق قریب میں ماقبل تاریخ عہد کے مقام سے دریافت ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا مکمل فوسل ہاتھی دانت ہے۔‘‘
 
اس کا تعلق سیدھے دانتوں والے اس ہاتھی سے ہے، جس کی نسل کافی پہلے معدوم ہو چکی ہے، جو پانچ میٹر سے بھی لمبا رہا ہو گا، یعنی آج کے دور میں جو بڑے افریقی نسل کے ہاتھی پائے جاتے ہیں اس سے بھی کافی بڑا ہوتا تھا۔
 
image
 
ایوی لیوی نے کہا کہ دریافت ہونے والے ہاتھی کے اس دانت کو محفوظ کیا جائے گا اور مزید تجزیے کے لیے لیبارٹری میں منتقل کیا جائے گا تاکہ ’’اس کی عمر کیا تھی اور یہ کہاں رہتا تھا یا پھر کہاں چلتا پھرتا تھا، اس کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جا سکے۔‘‘
 
آخر اس جانور کا شکار کس نے کیا ہوگا؟
جو چیز اس دریافت کو مزید دلچسپ بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے میں پایا گیا، جہاں سے پتھر اور چقماق کے اوزار اور بعض جانوروں کی دیگر باقیات برآمد ہوئی ہیں۔
 
آئی اے اے سے وابستہ ماہر آثار قدیمہ اومری بارزیلائی نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کھدائی کرنے والی ٹیم کو یہ نہیں معلوم تھا کہ آیا قدیم لوگوں نے اس جانور کا موقع پر ہی شکار کیا تھا یا وہ کٹے ہوئے جانور کے دانت کو کہیں دوسری جگہ سے یہاں لائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں یہ ’’بہت ہی حیران کن اور بہت ہی پراسرار بات ہے۔‘‘
 
نوادرات سے متعلق اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں واقع یہ مقام تقریباً پانچ لاکھ برس پہلے کے دور کا ہے اور اس کے آس پاس کھدائی میں پتھر کے اوزار پر مبنی بہت سی دیگر اشیا پہلے دریافت کی جاچکی ہیں۔
 
image
 
تاہم پانچ لاکھ برس قبل جب قدیم ہاتھی کی موت ہوئی ہو گی، تب یہ بنجر خطہ ممکنہ طور پر ایک دلدل یا نچلی سطح کی جھیل ہوگی، جو اس قدیم نسل کے ہاتھی کے لیے ایک مثالی مسکن رہا ہو گا۔
 
لیوی نے کہا کہ ماقبل تاریخ دور کے، جو انسان اس خطے میں آباد تھے ان کی شناخت بھی اب تک ایک معمہ ہے، جو افریقہ سے ایشیا اور یورپ تک ایک زمینی پل کے راستے سے آئے تھے۔
 
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں یہاں لوگوں کی باقیات نہیں ملی ہیں، ہمیں صرف ان کی مادی ثقافت سے متعلق وہی اشیا ملی ہیں جنہیں وہ استعمال کرنے کے بعد ردی کے طور پر پھینک دیتے تھے۔ اس میں جانوروں کی ہڈیاں یا پھر چقماق کے اوزار شامل ہیں۔‘‘
 
Partner Content: DW Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: