اللہ تعالی نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ فطری طور پر
سوشل لائف گزارنے کا عادی ہے۔ وہ اپنی محدود صلاحیتوں اور قلیل وسائل کی
بنا پر دوسروں کے تعاون کا محتاج ہوتا ہے۔وہ انڈیپینڈنٹ نہیں ہوسکتا، اس کے
اٹانومس ہونے کے احساس کو قدرت ہی مختلف موقعوں پر غلط ثابت کردیتی ہے ۔
چنانچہ لوکل لیول سے لے کر انٹرنیشنل لیول تک انسان اپنی انفرادی، سماجی
،اقتصادی اورسیاسی وجود قائم رکھنے میں دوسروں کی امداد کا محتاج
رہتاہے۔صرف اقتصادی پہلو سے دیکھا جائے تو اسی سےعالمی مالیاتی اداروں، آئی
ایم ایف اورملکی معیشت کے تعلقات اور باہمی تعاون اور امداد کی بنیاد پڑتی
ہے۔
تاہم باہمی امداد کا یہ معاملہ صرف احتیاج کے اصول پر نہیں بلکہ بقائے
باہمی کے اصول پر استوار ہوتا ہے۔اس معاملہ کو اگر تکبر، نخوت، بڑائی
اوربرتری کا داغ لگ جائے۔ یا اس میں قومی، نسلی اور وطنی نسبتوں کی تنگ
نظری بھی مل جائے جودوسرے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور استحصال
واستبداد روارکھنے کو سند جواز فراہم کرے۔تو اس صورت میں باہمی تعاون کا یہ
رشتہ اپنی عزت اوروقار کی بحالی اور بقاء وسلامتی کی جنگ کی شکل اختیار کر
جاتا ہے۔
ریاست کی بنیادی ضروریات
اسلام کے نکتہء نظر سے ایک ریاست کی بنیادی ضروریات، اورحکومت کی اولین
ترجیحات میں سے سرفہرست آئین وقانون،امن وسلامتی، مستحکم معیشت، انصاف کی
فراہمی اور تعلیم وتربیت ہے۔ حکومت کے مقتدر مرکزی ادارے مقننہ، منتظمہ اور
عدلیہ انہی مفادات کی نگہبانی اپنے ذیلی محکمہ جات اور سیکرٹریٹس کے ذریعہ
سے بجا لاتے ہیں۔
آئین
آئین تو کسی بھی مملکت کی بنیادی اوراٹل ضرورت ہوتا ہے۔ اور اگر وہ ریاست
نظریاتی ہے تو آئین کی حیثیت فاونڈیشن اسٹون کی ہو جاتی ہے۔ کسی نظریہ
وعقیدہ کے بنا ریاست کی مثال ایک بےخانماں کشتی کی سی ہے جس کی کوئی منزل
نا ہو۔ یہاں مقننہ کے ادارہ کا فریضہ ہے کہ وہ جمھور کے منشا ونظریہ کے
مطابق انہیں آئین کی شکل میں ایک سپریم لاء فراہم کرے۔
استقرار
آئین اور نصب العین کے تعین کے بعد اور آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے
کے ساتھ اولین ترجیح امن وامان اور لاء اینڈ آرڈرکا نفاذ ہے، کیونکہ اصول
یہ ہے کہ جان کا بچانا (دفع مضرت)، نفع کے حصول (جلب منفعت) سے مقدم ہوتی
ہے۔اور استحکام سے زیادہ ضروری بقاء ہے۔اس لئے اس ضرورت کی تکمیل کے لئے
منتظمہ کا ادارہ اپنے ذیلی محکمہ جات جیسے فوج اور پولیس کو کام میں لاتا
ہے۔
اقتصاد
امن وامان کے ساتھ ہی جو چیز جڑی ہوئی ہے وہ اقتصاد اور معاشی استحکام
ہے۔جس پر ریاست کا دوام اور بقاءِ عوام موقوف ہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں کہ حالت امن ہو یا حالت جنگ دونوں صورتوں میں کسی ملک کا سروائول اس
کی ریڑھ کی ہڈی یعنی مضبوط اکانومی پر ہوتاہے۔
حکومت کی اولین ترجیحات
امن وامان اور معاشی استحکام کی انہی اہمیتوں کے پیش نظر قرآن کریم جب حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی دعاء کا تذکرہ کرتا ہے تو اس میں انہی دونکات کو
ہائی لائیٹ کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے پہلے امن وسلامتی
اور پھر معاشی مفلوک الحالی کی دوا چاہی۔
امن وامان
کیونکہ امن اور معیشت باہم ایک دوسرے سے منسلک ہیں دنیا میں جب بھی کسی ملک
میں لاء اینڈ آرڈر کی سچوئیشن دگرگوں ہوتی ہے تو اسٹاک مارکیٹ کریش کر جاتی
ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیش نظر بھی یہی تھا کہ جس نظریہ اور عقیدہ
کی بنیاد پر وہ اللہ تعالی سے ایک ریاست کے طلب گار تھے اس کا خواب اس کے
دفاع اور معیشت کی مضبوطی کے بغیر شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتا تھا۔
معاشی استحکام
کسی بھی ملک کا آئین ونظریہ اس کی معاشی حالت سے بری طرح متاثر ہوتا
ہے۔جہاں جان کے لاے پڑ جائیں وہاں نظریات ٹھنڈے پڑجاتے ہیں۔اسی بات کو
پیغمبر اسلام ﷺ نے ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا تھا کہ معاشی مفلوک
الحالی اور درماندگی انسان کے نظریہ کو تہ وبالا کر دیتی ہے،اس کے عقیدہ کی
بنیاد کو ہلا دیتی ہے۔
اوریہی وجہ ہےکہ جب کوئی ملک معاشی ڈیفالٹر کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو
دیوالیہ پن کے آثارمہنگائی اور گرانی قدر سے تنگ آکر عوام نا اپنے آئین
ونظریہ کا پاس کرتی ہے، نا قانون وامن امان کی صورتحال کا خیال کرتی ہے۔ان
کے پیش نظر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ سب سے بڑی ترجیح ہوتا ہے۔ایسے میں
ان سے کسی بھی نظریاتی ، اخلاقی یا قانونی خلاف ورزی کی توقع کی جا سکتی
ہے۔
اسلام کا اصول اخوت
اسلام تو ایسے مسائل کا واضح حل فراہم کرتا ہے۔وہ سب سے پہلے ان کا سلسلہء
نسب ایک ماں باپ سے جوڑتا ہے، اوربلاتفریق مذہب، نسل اور وطن تمام انسانوں
کو ایک اخوت اوربرادری کے رشتہ میں پرودیتا ہے۔ اور پھر اس رشتہ کی مضبوطی
اور پیوستگی کی خاطر وہ انہیں ایک دوسرے کا ضرورت مند بناتا ہے۔اور یہ باور
کراتا ہے کہ تنہائی ، خودغرضی اورخودمختاری کی اس کی زندگی میں کوئی جگہ
نہیں۔
اسلام کانظریہءبقائے باہمی
اللہ تعالی نے صرف انسانوں کو مخصوص اور محدود صلاحیتوں سے ہی نہیں نوازا
اس نے تمام کائنات میں مخصوص استعدادوں کو پیداکر کے تمام حیات اور کائنات
کو ایک دوسرے کی ضرورت اور احتیاج کے بندھن میں باندھ دیا ہے۔جیسے مخصوص
معدنیات کے ذخائر ہوں یا مخصوص زرعی پیداوار کے محصولات یہ مختلف ممالک اور
خطوں میں متنوع طورپر پائے جاتے ہیں۔کہیں کوئلے کے ذخائر ہیں، کہیں سونے
اور نمک کی کانیں ہیں ، اورکہیں سیب،انگور اور انار بے مثال ہیں۔
ٹھیک ایسے ہی جیسے انسانوں میں مختلف ہنر ، دستکاریاں اورپیشےپائے جاتے ہیں
ایسے ہی کائنات اور اس کی معدنیات کا تنوع اس احتیاج کی طرف اشارہ کناں ہیں
کہ ایک دوسرے سے استفادہ ضروری ہے۔اوریہ استفادہ بقائے باہمی اور اخوت کے
جذبہ کے تحت ہے۔ نا کہ خودانحصاری ، خودمختاری کے غیر فطری جذبات وخیالات
کے تحت۔
اسلامی معاشیات کی خصوصیات
دخل وخرچ
قاضی ابویوسف نے کتاب الخراج کی تمہید میں ایک حدیث کو اسلامی معاشیات کی
بنیادقرار دیا ہے جو بتاتی ہےکہ محشر کے دن انسان سے مالیات کے متعلق سوال
ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں لگایا۔دولت کی پیدائش اور دولت کا استعمال
یعنی دخل اور خرچ آڈٹ کا بہترین معیار ہیں۔
مطلب صرف اتنا کافی نہیں کہ دولت کو جائز طریقہ سے حاصل کیا جائے ، بلکہ یہ
بھی ہے کہ اس پیداوار کو جائز محل اورمصرف میں استعمال بھی کیاجائے۔اسلام
کے نکتہءنظر سے دولت کی زیادہ پیدائش سے بڑھ کر اہمیت انویسٹمنٹ اور دولت
کی تقسیم وتصریف کی ہے۔اسلام اسی لئے کنجوسی اور ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ
افزائی نہیں کرتا کہ اس میں دولت کا ارتکاز ہے۔
سرمایہ کی تخلیق
پھر اسلام سرمایہ کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔بجائے اس کے کہ انسان
کسی کی ملازمت کر کے دولت کے عوض اپنا ذہنی وجسمانی سرمایہ بیچ ڈالے- اگرچہ
یہ بھی جائز ہے- لیکن اسلام اور قرآن کی نظر میں افسران بالا کے رعب وعتاب
کا شکار بننے کی بجائے زور بازو سےزراعت، کھیتی باڑی، باغبانی،گلہ بانی
اورکاریگری وتعمیرات اختیار کرنے کی زیادہ حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے۔
توکل بر خدا
اللہ کے پیغمبر گلہ بانی کرتے تھے کہ اس میں معیشت کے معاملہ میں لوگوں پر
انحصار کم سے کم ہے اور رب پر بھروسہ زیادہ سے زیادہ ہے، اور یہ سب سے افضل
ہے۔پھر قرآن پیغمبروں کی مختلف صناعتوں ،کاریگریوں اور تجارت کا تذکرہ کرتا
ہےجس میں دوطرفہ لین دین ہوتا ہےاوربالعموم کوئی دوسرے کا ماتحت نہیں
ہوتا۔یہاں بھی خدا تعالی پر توکل اور انحصار زیادہ پایا جاتا ہے۔
یہاں ان لوگوں کے لئے لمحہءفکریہ ہے جو معاشی خوشحالی کی امید میں غیرملکی
گرانٹ اور عالمی مالیاتی اداروں اور آئی ایم ایف کے تعاون وامداد کے جویاں
رہتے ہیں اور ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔اور اس کے نتیجہ میں ان کی جائز
وناجائز شرائط کو قبول کرتے ہیں۔اور بعض أوقات ملکی نظریہ اور سلامتی کو
بھی گروی رکھوا دیتے ہیں۔
قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم میں مزید سودی قرض لیتے ہیں، حاصل شدہ بھاری
رقوم میں سود کی لعنت کے باعث اپنی نسلوں تک کو قرض کے بوجھ تلے ڈھو دیتے
ہیں۔ ایسے بدطینت لوگ جب قرض کی بھاری رقوم وصول کرتے ہیں تو اس کا ایک بڑا
حصہ ذاتی عیاشی ا ورخودغرضی کی نذر کر دیتے ہیں۔
آئی ایم ایف اور استحصال
مادیت، کفر اور الحاد پر مبنی بے خدا تہذیبوں کے یہ عالمی مالیاتی ادارے
کفر کی نحوست کے علاوہ بے حسی، مفادپرستی اور نسلی وقومی برتری کے متعصبانہ
غیرفطری جذبوں سے سرشار ہوتے ہیں۔خدا سے نظر ہٹانے کے بعد ان کو اپنی بقاء
دوسروں کے استحصال میں دکھائی دیتی ہے۔
ایثار یا استحصال؟
خدا کے انکار اور انسان کی الوہیت اور خودمختاری کے نشہ میں مبتلا لوگوں کے
بنائے یہ عالمی مالیاتی ادارے درحقیقت عالمی طاقتوں کےباطل نظریات کی
بالادستی منوانے کا ذریعہ ہیں۔سیکولر اورلبرل سوچ کو وہ تمام ممالک کے آئین
ومنشور کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اور اسی خاطر وہ سخت اورمن پسند شرائط
پر سودی قرضے کی امداد فراہم کرتے ہیں۔خدا سے نظر ہٹانے کے باعث سود اور
استحصال کو اپنی بقاء اور سروایول کا سبب مانتے ہیں۔
اسلام کا چونکہ اپنا منفردنظریہ اور عادلانہ جامع قانون ہے۔اس کے اپنے
مقاصد اور مناہج ہیں اس بناء پر وہ اپنے ماننے والوں کو رزق ومعاش کے
معاملہ میں اپنے پروردگار پر تکیہ کرنے کا حکم دیتاہے۔اور روزی کو خدا کی
طرف سے مقرر کردہ نصیب قرار دیتاہے۔اورقرار دیتا ہے کہ کوئی کسی کا رزق
چھین نہیں سکتا ، نا اپنے مقرر نصیب سے زیادہ پا سکتا ہے۔لہذا یہیں سےحرص
وحسد،مقابلہ بازی اور استحصال کے جذبات وخیالات کا انسداد ہوجاتا ہے۔
قناعت اور انفاق
اپنے نصیب پر قناعت پسندی کے جذبہ کے تحت اور عالمی اخوت اوربرادری کی نسبت
کے تحت اسلام اپنے ماننے والوں سے تقاضہ کرتا ہے کہ وہ صدقات اور خیرات کے
ذریعہ دولت کے ارتکاز کا خاتمہ کریں اور ا س کے پھیلاؤ کو یقینی بنائیں کہ
اسی میں برکت اورترقی ہے۔
اخوت اوررفاقت
اسلام دولت کے حصول کے ایسے کسی ذریعہ کو جائز نہیں مانتا جس میں دوسروں کا
نقصان ہو یا اس کی رضامندی شامل حال نا ہو۔اس کے برعکس وہ دوسروں کی
خیرخواہی ، ہمدردی اوربہتری کو تمام انسانیت کی بھلائی اوربہتری کا ضامن
مانتا ہے۔اس کی نظرمیں سمندروں کی سیمائیں اور قوموں اور ملکوں کی شناختیں
ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اس کی نظرمیں سرحدوں کے امتیازات کی بجائے انسانوں
کی اہمیت اولین ہے۔جو ایک دوسرے سے بھائی چارے اور بقائے باہمی کے أصول پر
جڑے ہوئے ہیں۔
خلاصہ
اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کے ورلڈ ویو کے مطابق ملک کی ایک
خاصخارجہ پالیسی مرتب ہوتی ہے۔جو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی
اداروں سےملکی معیشت کے تعامل اور لین دین کے اصول اور حدود متعین کرتی
ہے۔اس میں عزت نفس اوروقار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اخوت ،رفاقت اور آفاقیت
کی سنہری اور فطری اقدار کا پاس پایا جاتا ہے۔
آپ اس سے متعلقہ مصنف کے یہ مضمون پڑھنا بھی پسند کریں گے
اسلام اور لابنگ
یوم آزادی اور ملکی وملی تقاضے
|