ملزم اورمجرم کافرق
یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ جب کسی الزام، شبہ یاشکایت کے نتیجہ میں کسی شخص
کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہےتو ایسے شخص کو مجرم متصور نہیں کیا جاتا،
بلکہ اسے ملزم مانا جاتا ہے۔جس کامطلب ہے کہ ابھی اس شخص پر الزام لگا ہے
ثابت نہیں ہوا۔اور اسی وجہ سے وہ ابھی قرارواقعی سزا کا مستحق بھی نہیں
ہوا۔
حق دفاع
اس سلسلہ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملزم کی بےگناہی کے امکان کے پیش نظر
زیرحراست ملزم کو ٹرائل سے پہلے پوراپورا حقِ دفاع حاصل ہے کہ وہ اپنی
بےگناہی ثابت کرنے کے لئے وکیل سے رابطہ کرے اور اپنی ضمانت کا انتظام
کرلے۔
جسمانی ریمانڈکی استدعاء
پولیس پر لازم ہے کہ گرفتاری کے بعد جلد ازجلد ملزم کو عدالت میں پیش کرے،
اور اس کے جرم کے ثبوت اورشواہد فراہم کر کے اسے قانون کے مطابق سزا
دلائے۔تاہم اگر اس کے خلاف مضبوط شہادتیں نا ملیں یا جرم کے ثبوت ناکافی
ہوں اور وہ سمجھے کہ جرم کی تحقیق کے سلسلہ میں خود ملزم ہی واحد سورس ہے،
جس سے معلومات کی ریکوری ممکن ہے تو وہ مجسٹریٹ سے اس کا جسمانی ریمانڈ بھی
لے سکتی ہے۔
البتہ یہاں عدالت مختار ہوتی ہے کہ وہ پولیس کی ریمانڈ کی استدعاء منظور
کرے یا نا کرے۔اگر وہ سمجھے کہ واقعی پولیس کی بات میں وزن ہے، اور ملزم کے
حالات سے اندازہ ہوتا ہو کہ اس سے تفتیش کی ضرورت ہے تو وہ جسمانی ریمانڈ
کی اجازت دے سکتی ہے۔جس کی زیادہ سے زیادہ مدت 14 دن ہوسکتی ہے، عموما دو
یا تین دن کا ریمانڈ دیا جاتا ہے۔
جسمانی ریمانڈکا غیرقانونی تصور
جسمانی ریمانڈدیے جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس دوران اس کی ضمانت نہیں
کروائی جا سکتی اور پولیس اس سے پوچھ تاچھ کا سلسلہ شروع کر سکتی ہے۔لیکن
قانونی طور پر ریمانڈ کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو عرف عام میں لوگ سمجھتے ہیں
اورجس کی وجہ سے پولیس خوف اورنفرت کی علامت بن چکی ہے۔
لوگوں کے مطابق جسمانی ریمانڈ کا مطلب ہے زبان کھلوانے کے لئے زیرحراست شخص
کی مارکٹائی، چھترول اور ہر وہ ناروا اور ذہنی،نفسیاتی ا ورجسمانی اذیت ناک
سلوک جس سے مجبور ہو کر وہ خود ہی اقرار جرم کر لے۔اور یہ صرف خیال ہی نہیں
ایک کڑوی حقیقت بھی ہے جس کا مہذب دنیا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
جیل کوٹھریوں اور پولیس ٹارچر سیلز کے ریکارڈ زاوراس کے ساتھ سیکورٹی اور
انٹیلی جنس کے محکموں کی تفتیش سےزندہ بچ جانے والوں کی شہادتیں اور
داستانیں خوفناک حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ جن کو جاننے کے بعد گرفتار ہونے
والے کے لواحقین پولیس کو بھاری رشوت کی پیشکش کرتے ہیں تاکہ اول تو وہ
ریمانڈ نا لے،اور اگر لے تو ہاتھ ہولا رکھے۔
سیاسی وسلطانی محرکات
یہاں پس پردہ ان سلطانی اسباب، سیاسی محرکات اور شخصی مفادات کو نظرانداز
نہیں کیا جاسکتا جن کے تحت جابر اور فاشسٹ حکمران اپنی استبدادی رٹ قائم
کرنا چاہتے ہیں، اور سیاسی جماعتیں اپنے حریفوں کو سرنگوں اور دگرگوں کرنا
اپنا حق سمجھتی ہیں اور جاگیردار وسرمایہ دار اپنے مفادات کے گرد منڈلاتے
خدشات کا مٹانا چاہتے ہیں۔اور اس کے لئے ناصرف ایسے غیر قانونی ہتھکنڈوں کو
استعمال کرتے ہیں،بلکہ ان کی سرپرستی کا انتظام بھی کرتے ہیں۔
جسمانی ریمانڈ کا اخلاقی وانسانی تصور
جبکہ قانونی، اخلاقی اور مذہبی ہر اعتبار سے پولیس کو ایسی ظالمانہ
کارروائی کا جواز حاصل نہیں ہے۔بلکہ انسانی حقوق کے انٹرنیشنل بیانیہ کی رو
سے بھی کسی شخص کے ساتھ ایسی کسی غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں جس سے
احترام آدمیت میں فرق آتا ہو۔اور بالخصوص اس مرحلہ میں جبکہ اس پر جرم ثابت
نہیں ہے، اسے محض امکانی بنیاد پر کیسے جبر وتشدد یا توہین کا نشانہ بنایا
جا سکتا ہے۔
ان سب قانون سازیوں اورقراردادوں کے باوجود پولیس اورسیکورٹی ادارے پس پردہ
اندرون خانہ ملزم کو اذیت ناک سلوک کا نشانہ بناتے ہیں۔ الٹا لٹکانا، چمڑے
کے پٹوں سے چھترول کرنا، تلوے کوٹنا، نسوار ملا پانی ڈالنا، الٹے اور سیدھے
چیرے دینا وغیرہ وغیرہ اب کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں رہیں۔
جسمانی ریمانڈ کا شرعی حکم
مذہب تو بلاوجہ کسی سے بدگمانی کرنے کی اجازت نہیں دیتااور معمولی شک
وشائبہ کی بنیاد پر اپنی حدود اور کڑی سزاوں کومعاف کردیتا ہے۔اور متعدد
سزاؤں چوری، ریپ وغیرہ کے لئے ایساسٹرکٹ کرائٹیریا مقرر کرتا ہے کہ ان
سزاؤں کے لاگو ہونے کی نوبت بھی خال خال پیش آتی ہے۔ جس سے نکتہ دان یہ
پوائنٹ بھی اخذ کرتے ہیں کہ مذہب کے پیش نظر پہلے قدم پر یہ ہے کہ بدی،بے
حیائی اوربدکاری ڈھکی ہی رہےاور اس ناسور کا تعفن پبلک نا ہو۔
اس مذہب سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ جرم کے ثبوت سے قبل ہی سزا
وداروگیر کا جواز فراہم کرے گا۔تاہم وہ اس پر ضرور ایمفیسائز کرتا ہے کہ
جرائم کاقلع قمع ہو، اور قصور وار کو قرارواقعی سزا ملے۔اور ا س کے لئے وہ
ہرممکن تحقیق تفتیش اور شواہد اکٹھے کرنے کی تلقین کرتا ہےجس سے جرم کی
صحیح نوعیت پر روشنی پڑے اور اس کے مطابق مجرم کے مناسب حال سزا تجویز کی
جائے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاملات میں مذہب نے اپنی حکمت کے مطابق ازخود جرم کی
قرارواقعی شرعی سزا فکس کر دی ہے ۔اور بہت سے دیگر معاملات میں صرف مذمت
کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور مجسٹریٹ کی صوابدید پر سزا کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ
حالات اورواردات کی سنگینی کے مطابق تعزیر اتی سزا دے یا محض عتاب وجرمانہ
پر قضیہ کا فیصلہ کر دے۔
خلاصہ
جسمانی ریمانڈمیں تشدد کے واقعات کے پیش نظرہمیں چاہئے کہ شرعی واخلاقی حکم
کو مدنظر رکھتے ہوئےمحکمانہ اقدامات اور کارروائیوں میں اصلاحات لانے کی
کمپین کریں، تاکہ ان امور میں حقوق انسانی کی جو وائلیشن ہو رہی ہے اس کا
سدباب ہو سکے۔اس کے لئے قانونی انسدادی تدابیر کے علاوہ اخلاقی اصلاحی
تدابیر کو بھی اختیار کرنا چاہئے تاکہ متعلقہ آفیشلز اور کارپردازان
انسانیت کے شرف واکرام اور عزت واحترام کا ٹھیک ادراک رکھتے ہوئےاس کے
مناسب حال اقدامات کریں۔
|