سماجی علوم کی اہمیت


اسلام انسانی معاشرے کو ایسے کمال پر دیکھنے کا خواہشمند ہے جو اس دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی سعادت کیلئے بھی جدوجہد کرتا ہو۔ یہی دنیا آخرت کی کھیتی ہے لہذا اس دنیا کے تمام مسائل اخروی تاثیر کے حامل ہیں، خواہ نیک ہوں یا بد۔۔۔۔ بطور مسلمان ہمارے لئے فرض ہے کہ ہم سماجی شعور میں اضافہ کریں اور انسانی سماج کی فلاح و سعادت کیلئے انتھک جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں۔۔۔ اگر ہماری دنیا قرآن و سیرت معصومین ؑ کے مطابق نہیں تو ہمیں اپنے مستبقل سے خیر کی امید نہیں ہے۔

انسان بہت سی جہتوں میں اختلاف اور تنوع کے ساتھ بہت سے معاملات میں اشتراک کا حامل ہے، انسان چونکہ ایک معاشرتی وجود ہے اور دیگر انسانوں کے ساتھ میل و ربط و ہم آہنگی رکھنا اس کیلئے ضروری ہے لہذا یہ فطری امر ہے کہ انسان میں مشترکات پائے جاتے ہوں جس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے رابطے کیلئے بدیہی مفہوم سب سمجھتے ہوں۔ ثقافتی بنیادیں جیسے کہ آب و ہوا، طرز رہائش، طرز معاش، علم و عقیدہ وغیرہ سبب بنتی ہیں کہ انسان کے رویئے، خیالات اور اعمال کو ان بنیادوں کے مطابق ڈھال سکیں۔ مثلاً: کپڑے پہننا ہر انسان کیلئے ضروری ہے مگر ماحول اور ٹقافتی بنیادوں پر اس کے رنگ، طرز مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح معاش کیلئے سب ہی جدوجہد کرتےہیں مگر طرز و طریقہ اور کمی و زیادتی کا سامنا کرتے ہیں، پانی اور ہوا سب جگہ ایک جیسی ہوتی ہے مگر سرد و گرم، خشک و مرطوب آب و ہوا وغیرہ انسانی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کھانا سب کھاتے ہیں مگر کھانے پکانے کے طریقے ، کھانا کھانے کے طریقے اور کھانوں کی اقسام جدا ہوتی ہیں۔ مگر کلی اور مشترک یہ ہے کہ ہوا سب کو چاہیے، روشنی سب کوچاہیے، کپڑے سب پہنتے ہیں، کھانا سب کھاتے ہیں، رات کو استراحت سب کرتے ہیں۔ مگر اس کے طور طریقے، انداز، رنگ ڈھنگ وغیرہ مقامی ضرورت اور آب و ہوا وغیرہ کے ذریعے مختلف ہوتےہیں۔ لہذا اسلامی طرز زندگی اس مختلف رنگ ڈھنگ پر کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر یہ کہ تمام امور حلال، پاکیزہ اور طاہر بنیاد اور طرز و طریقے کے حامل ہوں۔ خصوصا معاشی مسئلہ بہت ہی بنیادی ہے جس کی بنیاد پر عام آدمی پر تمام مادی اور کافی حد تک معنوی اور وحانی امور پر بھی اثر انداز ہوتےہیں۔ اس میں حلال کسب اور حلال خرچ بہت ہی بنیادی مسئلہ ہے۔ اسی طرح سیاسی امور میں بھی حاکم اور سیاستدانوں کو دین سب سے زیادہ ذمہ دار اور حساس قرار دیتا ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس سے تمام معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ ابلاغیات کا شعبہ جس میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے تاکہ معاشرے میں مثبت اور تعمیری اور تخلیقی راہیں پیش کی جاتی رہیں اور نوجوانوں اور جوانوں میں مثبت و تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔ میڈیا تعلیم و تربیت کا ایک بہت عظیم رکن ہے، بعض مواقع پر میڈیا اسکول، مدرسوں اور یونیورسٹیز سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے لہذا اس کو بھی تعمیری انداز کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسے سماجی اورثقافتی ادارے ہونے چاہییں جو نئی نسل کو مثبت تعمیری اور تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں اور دوسری اقوام اور ملتوں یا ایک ہی گھر میں مختلف نظریات رکھنے والوں کے ساتھ رواداری کے فروغ کا باعث بنیں اور غیر مسلم یا غیر نظریات رکھنے والوں کے ساتھ ایسے انداز میں امر بالمعروف یا نہی عن المنکر انجام دیں کہ فرد یا دیگر انسان اچھے طریقے سے دعوت حق کی طرف راغب ہوسکیں۔ خلاصۃً یہ کہ فردی اور معاشرتی طور پر انسان اس قابل ہو کہ وہ کمالِ مادّی کے ساتھ کمال معنوی کی طرف بھی راغب رہے۔ کمال مادّی میں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں مگر معنوی کمال جس میں خصوصا اسلامی تعلیمات اور دینی رسوم کو بعض افراد عمداً ناکارہ باور کرانے کی کوشش کرتےہیں ایسے مخالفین کی روک اور ان کی تعلیمات کو باطل باور کرانے میں معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم و دانش رسمی کے ساتھ دینی علم و دانش و بصیرت کا حامل ہو۔ سیاسی امور سے غافل نہ ہو۔ نیز عائلی زندگی جو کہ معاشرے کا ایک بنیادی رکن ہے اس کو بھی فراموش نہ کرے۔اسلامی معاشرے کے فرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت جو خداوند متعال نے اسے عطا کی ہے اس سے انحراف نہ کرے اور اپنے وجود کو جو خدا کی طرف سے امانت ہے اس ذمہ داریوں سے آگاہ ہو۔ اپنی خلقت کے ہدف سے آگاہ ہو، انبیاء رسل اور ائمہ ؑ کی زندگیوں اور ان کے ارسال کا مقصد و ہدف سے بھی آگاہی رکھتا ہو۔ اور خود اپنے لئے بھی ان اہداف و مقاصد سے ہم آہنگی پیدا کرے تاکہ یہ دنیاوی معاشرہ جو آخرت کی کھیتی ہے کہ عنوان کے طور پر یہاں اعمال کی زراعت کرسکے۔ کیونکہ بہرحال ایک نہ ایک دن انسان کو اس دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کرناہے جس کا وسیلہ صرف یہ دنیا ہے اور اس میں اپنے شعبہ جات میں رہتے ہوئے ، توحید، عدالت، اخلاق، شجاعت، رواداری وغیرہ کے ذریعے اپنی اس آخرت کو آباد کرے۔

اگر علوم انسانی و سماجی منحرف ہوجائیں اور غلط و نادرست بنیادوں پر قائم ہوجائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام اعمال و تحرکات بھی غلط اور نادرست روشوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج مغرب میں جو علوم ہیں مذاق نہیں ہیں ، ہلکا نہ سمجھیں اسے، علوم غربی تاریخ کا ایک بے نظیر خزانہ ہے لیکن یہ علم و دانش مسلسل استعمار کی خدمت میں مصروف ہے، دھوکہ دینے، غلام بنانے ، ظلم و جبر کیلئے استعمال کیے گئے، اقوام عالم کی دولت لوٹنے کیلئے استعمال کیے گئے۔ ابھی بھی یہ اسی کام میں مشغول ہیں۔۔۔ یہ نتیجہ ہے اسی غلط فکر، غلط نظر اور غلط بنیادوں کا اور غلط اہداف کا۔ یہ علم ودانش کہ جو اتنی عظمت رکھتا ہے۔۔۔ خود علم جو رحمت ہے ، عزیز ہے کریم ہے اس غلط انداز سے استعمال کیا گیا۔ مغربی علم و تہذیب جس مغالطہ اور ڈھٹائی کے ساتھ عالم انسانیت کو جبر اور زبرستی کے ذریعے زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اس میں ان کے وسائل میں میڈیا ، تعلیم اور معاشیات بہت اہم جزو کے طور پر شامل ہیں۔ مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مادیات کے چکر میں معنوی اقداروں کو عبث اور بے کار باور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور معنوی اقداروں کو اپنے مقاصد میں رکاوٹ تصور کرتےہیں۔ اس کیلئے میڈیا کے ذریعے عالم انسانیت میں جھوٹ ، دھوکے، فریب کے ذریعے کم شعور افراد کو ان کی الہٰی شناخت سے دور کرکے یہ باور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ انسان کا مقصد صرف دنیا کی دولت اور چمک دمک کا حصول ہونا چاہے اور آخرتِ خدا، دین وغیرہ بے کار امور ہیں۔ اچھے اور جذاب قسم کے سلوگنز کے ذریعے انسان کے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں جبکہ ان سلوگنز کی مثال بالکل سانپ کے ظاہری خوش نمائی اور خوبصورتی کےذریعے ہوتی ہے جس کاظاہر بہت خوبصورت ہوتا ہے مگر اس کے اندر جان لیوا زہر بھرا ہوتا ہے۔ لہذا دنیاوی امور اس وقت تک انسان کیلئے فائدے مند ہیں جب تک وہ انسان کی روحانی اور اخلاقی بنیادوں سے اختلاف نہیں کرتے اور مادیات اور روحانیات میں ہم آہنگی اور اعتدال کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ علم و دانش، سیاست و معیشت، ثقافت و مذہب وغیرہ سب مادیات ہیں اور اس وقت تک یہ فائدے مند ہیں جب تک انسان کی پرہیز گاری اور تقوے کو متاثر نہیں کرتے، لہذا انسانوں کو ہر اس چھوٹی سے چھوٹی چیز سے انتہائی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو انسان کے معتدل مزاج کے خلاف ہو۔ آج کے دور میں چونکہ طاغوت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حملہ آور ہے تو اس موقع پر طاغوت کے ساتھ سخت رویہ رکھنے کی ضرورت ہے یہ آج کے دور کا اعتدال ہے اور ہر وہ چیز جس سے انسان متاثر ہونے لگے اس کو بہت چھان پھٹک کر اختیار کرنا چاہیے کہ دین کے نا م پر کہیں ابلیسیت نہ پیش کی جا رہی ہو۔ ہمیں اس امر کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ دعا ، درود، و توسل کے ساتھ دوا، دارو بھی اسی شدو مد کریں جس شدو مد سے ہم باقی امور انجام دیتے ہیں۔ یہ مادی دنیا عالم اسباب ہے یہاں ہر کام کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جس کی بنیاد پر کوئی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ لہذا ظاہری حرکت و انتظام و انصرام اتنا ہی ضروری ہے جتنا دعا، درود و توسل۔۔۔۔ یہی ثواب ہے جو دنیا میں بھی اپنے اثرات رکھتا ہے اور سماجی مسائل کے حل کرنے پر اخروی سعادت بھی ممکن بناتا ہے۔فلکیات اور ٹیکنالوجی اور مادے پر تحقیقات اور ٹیکنالوجی کی تیاری اور اس کی فروخت و کاروبار اسی وقت فائدے مند ہوگا جب ہم عالمی سماج کی بنیادیں ضرورتیں بھی فراہم کررہے ہوں۔ ہمارا سرمایہ ، تعلیم و دانش جب تک دنیا سے انسانی مسائل کو حل نہیں کرتیں تب تک ہم خود کو سپر پاور نہیں کہہ سکتے۔انسانی مسائل کے حل میں انسانی جانوں سے خلوص ہونا چاہیے نہ کہ انسانی حقوق کے نام پر سیاسی، معاشی کاروباروں اور مادّی منافع کو فوقیت دی جاتی رہے۔یاد رہے کہ انسانی معاشرے کی ضرورت مادی ضروریات کے ساتھ معنوی، نفسیاتی اور روحانی بھی ہیں۔ لہذا اس مورد میں صرف مذہب اور وہ بھی اسلام اس ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی تعلیمات میں انسانی سماج کی روحانی اور مادّی ضروریات کی تسکین کیلئے بھرپور نظام رکھتا ہے۔ ایسے منتظم کی بھی ضرورت ہے جو معارف مادّی و روحانی سے کماحقہ آگاہ ہو اور انتظامی امور کو ان اسلامی خطوط پر چلانے کیلئے مستقل ہمت و طاقت کا حامل ہو۔افراط و تفریط سے دور رہتا ہے اور یہ عہدہ ایک جامع الشرائط کا حامل ہے لہذا کوئی عام آدمی اس عہد ہ کا اہل نہیں ہوسکتا بلکہ جامع الشرائط علماء و دانشور اس کا انتخاب کریں اور اسی ولایت کے سایہ میں پھر سماج جانب کمال اپنا سفر جاری کرے۔ اس سفر کی منزل نہ مغربی ہے نہ مشرقی بلکہ وہ حوض ِ سعادت ہے جس کی راہ معتدل اور صراط مستقیم ہے جو معاشرے کو دونوں جہانوں کی سعادتوں سے ہمکنار کرتا ہے۔
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.