عالٙمِ جان و جہان کی طلاق کا اٙحوال ( 1 )

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالطلاق ، اٰیت 1 تا 3اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
النبی اذا طلقتم
النساء فطلقوھن لعدتھن
و احصوا العدة و اتقوا اللہ ربکم
لا تخرجوھن من بیوتھن ولا یخرجن
الا ان یاتین بفاحشة مبینہ و تلک حدود اللہ
و من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ لا تدری لعل اللہ
یحدث بعد ذٰلک امرا 1 فاذا بلغ اجلھن فامسکوھن بمعروف
او فارقوھن بمعروف و اشھدوا ذوی عدل منکم و اقیموا الشہادة
للہ ذٰلکم یوعظ بہ من کان یوؑمن باللہ و الیوم الاٰخر و من یتق اللہ
یجعل لہ مخرجا 2 ویرزقہ من حیث لا یحتسب و من یتوکل علی اللہ
فھو حسبہ ان اللہ بالغ امرہ قد جعل اللہ لکل شئی قدرا 3
اے ہمارے نبی ! جب آپ اور آپ کی اُمت کے دیگر شادی شدہ اٙفراد اپنے صنفی جوڑوں سے الگ ہونا چاہیں تو اپنی اُس علیحدگی سے پہلے عورتوں کو عدت گزاری کا وقت دیں اور اُن کے اُن اٙیامِ عدت کا حساب بھی رکھیں اور اپنی عورتوں کی عدت کی اُس مُدت کے درمیان زور زبر دستی کے ساتھ اُن کے گھروں سے بیدخل نہ کریں اور نہ اُن کو خود بھی بیدخل ہونے دیں سوائے اِس کے کہ وہ اللہ کے کسی حُکم کی خلاف ورزی کی ٹھان لیں ، یہ اللہ کی وہ مقررہ حدود ہیں جن کو کسی ظالمانہ طریقے کے ساتھ کسی بھی فریق کو توڑنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ تُم ہر گز نہیں جانتے ہو کہ عدت کی اِس مُدت کے دوران اللہ تُمہاری اِس عدمِ موافقت کو موافقت میں بھی بدل سکتا ہے لیکن جب تُمہاری عورتیں اپنی عدت کی مُدت پُوری کر لیں تو پھر تُمہاری مرضی ہے کہ تُم باہمی اتفاق کے ساتھ اُن کے ساتھ رہو یا باہمی مشاورت کے بعد اُن سے الگ ہو جاوؑ اور اگر تُم اتفاق رائے سے الگ ہونے کا حتمی فیصلہ کر لو تو اپنے اِس فیصلے پر اپنے معاشرے کے دو منصف مزاج اٙفراد کو گواہ بھی بنا لو تاکہ وہ دونوں منصف مزاج گواہ عند الضرورت کسی مجاز عدالت میں جا کر تُمہارے اِس اشتراکِ باہمی سے ہونے والے اِس فیصلے کی گواہی دے سکیں ، اِن قانونی اٙحکام پر ہر وہ انسان عمل کرنے کا پابند ہے جو انسان یومِ حساب کے وقت یومِ حساب کی جواب دہی پر ایمان لانے کا پابند ہے اور جو انسان عورت کی عدت کی اِس مُدت کے دوران اِن امور کی پاسداری کرے گا تو اللہ اُس کی راستی کے لئے ایسے کشادہ راستے پیدا کر دے گا جن کشادہ راستوں کا اُس نے کبھی کوئی گمان بھی نہیں کیا ہوگا اِس لئے کہ جو انسان اللہ پر ایمان و یقین رکھتا ہے اللہ اُس انسان کو اُس کے اُس ایمان و یقین پر قائم رکھنے کی قُوت بھی ضرور دیتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن طلاق ہے جو اِس سُورت کے نام سے ہی ظاہر ہے اور اِس سُورت میں طلاق کے اِس موضوعِ سُخن کے حوالے سے جو تین بڑے مضامین وارد ہوئے ہیں اُن میں پہلا بڑا مضمون طلاق وہی مضمون ہے جو اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات پر مُشتمل ہے لیکن اِن اٰیات کے اِس مضمون میں طلاق کے اُن مسائل کا اعادہ یا احاطہ کرنا مقصود نہیں ہے جن پر سُورٙةُالبقرة کی اٰیت 221 اور اٰیت 238 کے درمیان ایک ہمہ جہت و ہمہ گیر گفتگو ہو چکی ہے بلکہ اِس سُورت کے اِس مقام پر صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر طلاق دینے والا مرد طلاق دینے کا اور طلاق لینے والی عورت طلاق لینے کا ارادہ کر لے تو پھر پہلے قدم کے طور پر عورت کو عدت کی وہ قانونی مُدت دی جائے جس قانونی مُدت کے دوران مرد طلاق دینے اور عورت طلاق لینے کا ارادہ بدل سکے اور اُن کے درمیان مفاہمت کی کوئی اعلٰی سبیل پیدا ہو جائے لیکن اگر عدت کی اِس مُدت کے دوران مرد اُس عورت کو طلاق دینے کا اور عورت اُس مرد سے طلاق لینے کا حتمی فیصلہ کر لے تو اِس صورت میں اُس مرد کی طرف سے عورت کو جو طلاق دی جائے اور اُس عورت کی طرف سے اُس مرد سے جو طلاق لی جائے اُس مجوزہ عملِ طلاق پر اُن دو منصف مزاج اٙفراد کو اپنا گواہ بھی بنالیا جائے جو دو گواہ کسی مجاز عدالت کی طلبی پر اصالتا پیش ہو کر اُس طلاق کے بارے میں اپنی گواہی دے سکیں اور چونکہ اُس عورت کی عدت کی مُدت اِس قانونِ تنزیل کے مطابق اُس کی ماہواری کے اٙیام سے شمار کی جاتی ہے اِس لئے اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات کے بعد اٰیت چار اور اٰیت پانچ میں ماہواری کی وہ استثنائی صورت بیان کی گئ ہے کہ اگر کسی عورت کو کسی غیر معلوم سبب کے باعث ماہواری ہی نہ آئے تو اُس کے نکاح و طلاق کے بارے میں کون سا طریقہ اختیار کیا جائے اور اُس اختیار کیئے گئے طریقے پر کس طرح عمل کیا جائے ، عورت کی عدمِ ماہواری کی اِس شاذ اور نادرالوقوع صورتِ حال کے بعد اٰیت چھ اور سات میں انسانی معاشرے کو یہ حُکم دیا گیا ہے کہ جب عورتیں اپنی عدت کی مُدت کے آخری دنوں سے قریب تر ہو جائیں تو اُس وقت تُم یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگاوؑ کہ تُم نے باہمی رضا مندی سے ایک دُوسرے کے ساتھ رہنا ہے یا باہمی مفاہمت سے ایک دُوسرے سے جُدا ہونا ہے لیکن جس وقت تُم طلاق کا فیصلہ کر لو اور اُس وقت تُمہاری عورتیں تُمہارے بچوں کے حمل کی حاملہ بھی ہو چکی ہوں تو اُن کو محض اپنے خبثِ باطن کا مظاہرہ کرنے کے لئے کوئی ذہنی یا جسمانی اذیت ہر گز نہ پُہنچاوؑ اور وضعِ حمل تک اُن کو مناسب نان و نفقہ بھی دیتے رہو اور اگر وہ تُمہارے کہنے پر تُمہارے بچوں کے دُودھ پینے کی پُوری عُمر تک اُن کو دُودھ پلاتی رہیں تو تُم اُن کو اِس دُودھ پلائی کا بھی مناسب معاوضہ برابر دیتے رہو اور اللہ سے اپنے حُسنِ نیت کے مطابق وسعت رزق کی بھی اُمید رکھو اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی کسی بھی انسان کو اُس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا اِس لئے تُم بھی کوشش کرو کہ تُم بھی کسی انسان کو اُس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہ دو ، اِن اٰیات میں دی جانے والی اِن معاشرتی ہدایات کے بعد اٰیت آٹھ و نو اور اٰیت دس میں ماضی کی اُن اٙقوام کے احوال کا حوالہ بیان کیا گیا ہے جو اٙقوام اِن خُدائی اٙحکام سے رُو گردانی کر کے تباہ و برباد ہوئی ہیں اور اٰیت گیارہ میں ماضی کے اُن اٙنبیاء و رُسل کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ماضی کے مُختلف زمان و مکان میں انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتے رہے ہیں اور اِس سلسلہِ کلام کی آخری اٰیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے اُن ہادیانِ علم و ہدایت کی تعلیمِ ہدایت کا یہ سلسلہ کُچھ اسی جہان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ خالقِ عالٙم کے ہر عالٙم میں علم و تعلیم کا یہ سلسلہ اٙزل سے اٙبد تک اسی طرح جاری و ساری ہے ، اِس سُورت میں آنے والے مضامین کی کامل تفہیم کے لئے یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ طلاق اُن دو اٙفرادِ مرد و زن کے درمیان ہوتی ہے جن دو اٙفرادِ مرد و زن کے درمیان قُرآن کے اِس قانونِ ہدایت یا انسان کے کسی قانونِ معاشرت کے مطابق وہ معاہدہِ نکاح قائم ہوتا ہے جس معاہدہِ نکاح کے تحت اُن کی یٙک جائی ہوتی ہے اور طلاق اُس عمل کا نام ہے جس عمل سے اُن کا معاہدہ نکاح ختم کیا جاتا ہے جس سے اُن کے درمیان جُدائی ہو جاتی ہے ، اور جہاں تک عملِ طلاق کے مفہوم کا تعلق ہے تو ایک طلاق تو وہ انسانی طلاق ہوتی ہے جو ایک انسان دُوسرے انسان کو دے کر اُس سے جُدا ہوتا ہے اور اِس انسانی طلاق کا اِس سُورت کی ابتدائی اٰیات میں ذکر کیا گیا ہے اور ایک طلاق وہ جہانی طلاق ہوتی ہے جس جہانی طلاق کے ذریعے زمان و مکان کے کسی نامعلوم دورانیئے میں ہمارا یہ جہان کسی دیگر جہان سے جُدا ہوا ہے اور جہان سے جہان کی اُس طلاق کا ذکر اِس سُورت کی آخری اٰیت میں کیا گیا ہے اور اِن دونوں جانے و اٙنجانے اعمالِ طلاق کے درمیان میں قُرآن نے ایک مُشکل صورتِ حال کا ذکر بھی کیا ہے تاکہ مُشکل صورتِ حال کو انسان عقل سے سمجھنے اور دلیل سے سمجھانے کی سعی کرے اور واہیات فرضی کہانیوں کو بُنیاد بنا کر کبھی بھی اندھیرے میں اٙندھے تیر چلانے کی کوشش نہ کرے !!

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558235 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More