#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالطلاق ، اٰیت 4 تا
7اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولّٰئ لم یئسن
من المحیض من نساء کم
ان ارتبتم فعدتھن ثلٰثة اشھر و
الّٰئ لم یحضن و اولات الاحمال اجلھن
ان یضعن حملھن و من یتق اللہ یجعلہ من
امرہ یسرا 4 ذٰلک امر اللہ انزلہ الیکم و من یتق
اللہ یکفر عنہ سیاٰتہ و یعظم لہ اجرا 5 اسکنوھن من
حیث سکنتم من وجدکم ولا تضاروھن لتیضیقوا علیھن
و ان کن اولات حمل فانفقوا علیھن حتٰی یضعن حملھن فان
ارضعن لکم فاٰتوھن اجورھن واتمروا بینکم بمعروف و ان تعاسر
تم فسترضع لہ اخرٰی 6 لینفق ذوسعة من سعة و من قدر علیہ رزقہ
فلینفق ممااٰتٰہ اللہ لا یکلف اللہ نفسا الا ما اٰتٰہا سیجعل اللہ بعد عسر
یسرا 7
تُمہارے معاشرے کی جو عورتیں اپنے ما ہواری اٙیام گننے میں ناکام ہوچکی ہیں
اور بھی تُم اُن کے اٙیامِ عدت کے بارے میں مشکوک ہو چکے ہو تو تُمہارے لئے
آسان اصول یہ ہے کہ جن عورتوں کی طبعی عُمر نے اُن کی ماہواری کا عمل رُوک
دیا ہے تو اُن کی عدت کی مُدت تین ماہ ہے اور جن عورتوں کی تخلیقی ساخت
ایسی ہے کہ اُن میں ماہواری کا عمل کبھی ہوتا ہی نہیں ہے تو اُن عورتوں کی
عدت کی مُدت بھی تین ماہ ہے لیکن جن حاملہ عورتوں کو وضعِ حمل کا انتظار ہے
تو اُن کی عدت کی مُدت وضعِ حمل ہے لیکن اِن معاشرتی ضابطوں میں اصل ضابطہ
خُدا خوفی ہے اور خُدا خوفی رکھنے والوں کے لئے خُدا کی طرف سے آسانی ہی
آسانی ہے اِس لئے تُم اپنی جن عورتوں کو طلاق دے چکے ہو تو اُن کی عدت کے
دوران اُن کو اپنے گھروں سے خود بیدخل کرو اور نہ ہی تُم اپنی بد مزاجی سے
اُن کو اُن گھروں سے بیدخل ہونے پر مجبور کرو اور تُم اُن کو وضعِ حمل تک
اخراجات بھی برابر دیتے رہو کیونکہ تُم میں جو لوگ کشادہ دل و کشادہ دست
ہوتے ہیں تو اللہ بھی اُن کو اُن کی کشادہ دستی کے مطابق کشادہ روزی دیتا
رہتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے تو یہ بات ذہن میں
تازہ کر لیجے کہ اِس سُورت کا نام طلاق ہے اور اِس کی اِن اٰیات میں جو
معاملہ زیرِ بحث ہے وہ معاملہ بھی طلاق ہے لیکن اِس طلاق کے بارے میں اہلِ
روایت کہتے ہیں کہ اِس طلاق سے اُن کم سن بچیوں کی طلاق مُراد ہے جن کا اُس
کم سنی کی عُمر میں نکاح ہوتا ہے جس کمسنی کی عُمر میں اُن کی ماہواری کا
دور ابھی شروع نہیں ہوتا اور پھر اُسی عُمر میں اُن کو طلاق بھی مل جاتی ہے
جب اُن کی عُمر ماہواری کی عُمر تک نہیں پُہنچی ہوتی اور اہلِ روایت اپنے
اِس دعوے کی واقعاتی دلیل کے طور پر سیدنا محمد علیہ السلام کے ساتھ سیدہ
عائشہ صدیقہ کے نکاح کو اِس دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ جس وقت اُن کا وہ
عقدِ نکاح مُنعقد ہوا تھا اُس وقت سیدنا محمد علیہ السلام کی عمر 51 برس
اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی عُمر صرف چھ برس تھی ، اہلِ روایت کے اِس دعوے کی
صحت و عدمِ صحت کے بارے میں تو ہم کُچھ دیر بعد بات کریں گے لیکن اِس موقعے
پر ہم اُن کی جس پہلی جہالت کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اہلِ
روایت سیدنا محمد علیہ السلام کے ساتھ جس کم سن عائشہ صدیقہ کے نکاح کی
کہانی سنا رہے ہیں اُس عائشہ کو تو کبھی طلاق نہیں ہوئی تھی لیکن اِس کے
باوجُود بھی وہ اُن کے اُس نکاح کو اِس طلاق کے ساتھ جوڑ کر بیان کرتے ہیں
جس طلاق کا قُرآن نے اپنے ایک قانونِ عام کے طور پر ذکر کیا ہے ، اِس
جُملہِ معترضہ کے بعد سب سے پہلے ہم قُرآن کی اٰیاتِ بالا کی طرف رجوع کرتے
ہیں لیکن اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا سے پہلے یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ
مرد و زن کی عُمر کے جو تین اٙدوار ہوتے ہیں وہ اُن کے بچپن و جوانی اور
بڑھاپے پر مُشتمل ہوتے ہیں ، عورت کے بچپن سے جوانی میں داخل ہونے کی پہلی
قابلِ ذکر علامت اُس کی پہلی ماہواری ہوتی ہے اور جوانی سے نکل کر بڑھاپے
میں داخل ہونے کی پہلی علامت بھی اُس کی اُس ماہواری کا خاتمہ ہوتا ہے ،
انسانی حیات کے اِن فطری اٙدوار کو سامنے رکھ کر جب ہم اٰیاتِ بالا کی اُس
پہلی اٰیت پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اِس اٰیت کا حرفِ اٙوّل {
الّٰئ } ہے جو اسمِ ضمیر موؑنث ہے اور اِس اسمِ ضمیر موؑنث کا مرجع {
النساء } ہے جو اِن عورتوں کی جمعیت کے لئے آیا ہے اور اِس بات کی شہادت لے
کر آیا ہے اِس اٰیت میں اُن عورتوں کی طلاق کا ذکر ہو رہا ہے جن عورتوں نے
سنِ بلوغ کو پُہنچنے کے بعد نکاح کیا ہے اور اُس کے بعد اُن پر اُس طلاق کا
وہ وقت آیا ہے جس طلاق کا اِس اٰیت میں ذکر ہوا ہے ، اِس اٰیت میں آنے والا
ایک عامل حرفِ نفی { لم } ہے جو فعل مضارع { یئسن } سے پہلے آیا ہے اور یہ
حرفِ نفی { لم } جب بھی فعل مضارع سے پہلے آتا ہے تو یہ ماضی و حال اور
مُستقبل کے سارے زمانوں میں اُس چیز کے وقوع پزیر ہونے کی کامل نفی کے لئے
آتا ہے جس کا اُس فعل میں ذکر ہوتا ہے اِس لئے اِس اٰیت میں اُن عورتوں کے
عملِ ماہواری کی نفی کی گئی ہے جن کے جسم پر پہلے بھی ماہواری کا دور کبھی
نہیں آیا اور آئندہ بھی اُن کے جسم پر ماہواری کا دور کبھی نہیں آئے گا
کیونکہ اُن کی تخلیقی اساس ہی ایسی ہے کہ اُن پر ماہواری کا دور کبھی آتا
ہی نہیں ہے اور قُرآن نے عورت کے جسم کی اِس کمیاب صورتِ حال کا اٙحوال اُس
وقت بیان کیا تھا جب جب جدید میڈکل سائنس کی ابھی آنکھ بھی نہیں کُھلی تھی
تاہم عُلمائے روایت اِس اٰیت میں وارد ہونے والے فعل مضارع { یئسن } کا جو
ترجمہ مایوسی کیا ہے تو وہ درست ہی کیا ہے اور اِس فعل کے مُتعلقہ کلام {
من المحیض } کا جو ترجمہ اُن عورتوں کا ماہواری سے محروم ہو کر مایوس ہونا
کیا ہے تو وہ بھی درست ہی کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عورتوں کی ماہواری کا
کبھی جلدی ہونا کبھی دیر سے ہونا ، کبھی ترتیب کے ساتھ ہونا اور کبھی بے
ترتیبی ہونا ایک عام سی صورتِ حال ہے جو عورتوں کو عام طور پر پیش آتی رہتی
ہے لیکن اُن عورتوں کی یہ صورتِ حال اُن عورتوں کے لئے علم کی کسی اعلٰی
ڈگری سے محرومی تو بہر حال نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی اُن کی اِس کیفیت کو
محرومی قرار دے اور اگر اللہ تعالٰی نے اُس کو محرومی قرار دیا ہے تو اِس
سے بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ عورت کی اُس جنس عام کا ذکر نہیں ہے جس کے ساتھ
یہ صورتِ حال پیش آتی رہتی ہے اور وہ اِس صورتِ حال کی عادی ہو جاتی ہے
بلکہ یہ اُن عورتوں کی اُس جنسِ مُختلف کا ذکر ہے جو ایک مُختلف صورتِ حال
کا شکار ہو کر مایوس ہوتی ہے ، بہر حال اہلِ روایت پر چونکہ کمسن عائشہ کا
نکاح ثابت کرنے کا بُھوت سوار ہے اِس لئے وہ اِس حرفِ نفی { لم } کے اِس
احمقانہ مفہوم پر زور دیتے ہیں کہ اِس سے مراد یہ ہے کہ اُن کمسن عورتوں کی
ماہواری ابھی شروع نہیں ہوئی ہے جو بالغ ہونے کے بعد شروع ہو جائے گی لیکن
اگر اُن کے اِس احمقانہ استدلال کو قبول کر لیاجائے تو پھر اللہ تعالٰی کے
بارے میں قُرآن کے ارشاد { لم یلد و لم یولد } کا بھی یہہ ترجمہ کرنا پڑے
گا کہ اُس نے ابھی تک کسی کو نہیں جنا ہے اور اُس کو بھی ابھی تک کسی نے
نہیں جنا ہے ، یہ دونوں بعد میں کبھی ہوں گے { نعوذ با للہ ثم نعوذ باللہ }
جہاں تک نکاحِ رسول کا تعلق ہے یہ اہلِ روایت کی ایک سوچی سمجھی فتنہ
پردازی ہے جس کے تحت اُنہوں نے پہلے اللہ تعالٰی کے رسول کو اُس کے پہلے
نکاح کے وقت سیدہ خدیجہ سے 15برس کم عُمر دکھایا ہے اور سیدہ عائشہ کے ساتھ
نکاح کے وقت 41 برس عُمر رسیدہ ظاہر کیا ہے حالانکہ بہت سی تاریخی روایات
سے ثابت ہے جس وقت آپ کا سیدہ خدیجہ سے نکاح ہوا تھا اُس وقت آپ کی عُمر 25
برس تھی اور سیدہ خدیجہ کی عُمر بھی ٹھیک 25 برس تھی اور اسی طرح یہ بات
بھی بہت سی تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ دورِ رسالت سے پہلے سیدہ عائشہ
جوانی کی عُمر تک پُہنچ چکی تھیں اور عہدِ رسالت سے پہلے آپ کا نکاح مطعم
بن عدی کے بیٹے کے ساتھ ہو چکا تھا اور جب رسول اللہ نے اعلانِ نبوت فرمایا
تھا تو اُس وقت آپ ایک عاقلہ اور بالغہ خاتون کے طور پر آپ پر ایمان لائی
تھیں یہاں تک کہ آپ کی پہلی وحی پر جتنی بھی روایات مروی ہیں وہ ساری کی
ساری کسی دُوسرے حوالے کے بغیر براہِ راست سیدہ عائشہ صدیقہ ہی سے مروی ہیں
اور ہم تفصیلات میں جائے بغیر عرض کرتے ہیں کہ اگر سیدہ عائشہ کا مطعم بن
عدی کے بیٹے کے ساتھ نکاح سیدنا محمد علیہ السلام کے اعلانِ نبوت سے صرف
ایک سال پہلے ہونا ہی فرض کر لیا جائے تو اُس نکاح کے وقت سیدہ عائشہ کی
عمر کم از کم 19 برس تھی ، نبوت کے پہلے برس اُن کی عمر 21 برس ، سن 5 نبوی
میں 26 برس ، 10 نبوی میں 31 برس اور ہجرت نبوی کے وقت اُن کی عمر 34 یا 35
برس ہو چکی تھی ، عہدِ حاضر کے جن اہلِ علم نے سیدہ عائشہ صدیقہ کے کم عمری
کے نکاح کے خلاف یہ دلیل دی ہے کہ اِس حدیث کے راوی ہشام بن عروہ سے یہ خطا
ہوئی ہے کہ وہ عمرِ عائشہ کے اٙسمائے اعداد لکھتے ہوئے اُن اعداد کی اکائی
تو لکھ گیا ہے مگر اُن کی دھائی لکھنا بُھول گیا ہے جس سے سیدہ عائشہ کی
عمر 16 سال کے بجائے 6 سال ظاہر ہوگئ ورنہ جہاں تک راوی و روایت اور راوی و
روایت کو نقل کرنے والے امام بخاری کا تعلق ہے تو وہ سارے معصوم عن الخطا
لوگ ہیں ، ہر چند کہ اِس حدیث کا دفاع کرنے اور عمر عائشہ میں 10 برس کا
تکنیکی اضافہ کرنے والے اِن عُلمائے کرام کی نیت نیک ہی ہو گی لیکن حقیقت
یہ ہے کہ خود امام بخاری نے اپنی کتابِ امام بخاری میں { والٰتی لم یحضن }
اور { فجعل عدتھا ثلٰثة اشھر قبل البلوغ } کی دو سرخیاں لگا کر اپنا یہ
فتوٰی صادر کیا ہوا ہے کہ عمرِ عائشہ میں 6 کی ایک ہی اکائی موجُود تھی اِس
کے ساتھ 10 کی کوئی دھائی موجُود نہیں تھی ، ویسے خُدا لگتی کہیئے کہ جن
لوگوں کو رسول اللہ کی حقیقی عمر اور خلفائے اربعہ کی حقیقی عمر آج تک
معلوم نہیں ہوسکی ہے تو اُن بد نیت لوگوں کو سیدہ عائشہ صدیقہ کی نکاح کے
وقت کی وہ حقیقی عمر 6 برس کب اور کس طرح معلوم ہوگئی ہے کہ جس عمر پر وہ
آج تک اتنی شدت کے ساتھ اصرار پر اصرار کرتے چلے آرہے ہیں !!
|