وہ اسٹیج پر تنہا کھڑے تھے اور ان کا دشمن چنے چبا رہا تھا، لیاقت علی خان پر حملے کے وقت کیا ہوا تھا عینی شاہد کے انکشافات

image
 
قیام پاکستان کو لوگ ایک معجزے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور یہ معجزہ صرف اور صرف اس وقت کے سیاسی قائدین کی بصیرت اور ان تھک محنت ہی سے ممکن ہو سکا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کے دشمنوں کو اس بات کا اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر یہی قیادت ملک کی باگ ڈور سنھبال کر ملک کو چلاتی رہی تو جس طرح ان لوگوں کی قیادت میں پاکستان بن گیا اسی طرح یہ ملک ترقی کے عروج پر پہنچ جائے گا- یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قیادت نے جب بھی ملک دشمنوں کے خلاف اٹھ کر ملک کی ترقی کے لیے اٹھے اسی وقت ان دشمن طاقتوں نے ان کے خلاف اٹھ کر ان کو نقصان پہنچایا-
 
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا قتل
16 اکتوبر 1951 پاکستان کی تاریخ کا وہ بدترین دن ہے جب کہ پاکستان کے پہلے وزير اعظم اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریب ترین ساتھی لیاقت علی خان کو ایک عوامی جلسے کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا-
 
قتل کا عینی شاہد
اگرچہ یہ ایک عوامی جلسہ تھا اور اس قتل کو ہوتے ہوئے بہت سارے لوگوں نے دیکھا مگر آج تک اس قتل کا مقصد اور اس سازش کے پیچھے موجود قوتیں سامنے نہ آسکیں- گزشتہ دنوں معروف نیوز کاسٹر اظہر لودھی نے اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا انکشاف کیا کہ وہ لیاقت علی خان کے قتل کے عینی گواہ ہیں اور قتل کے وقت وہ اسی جگہ موجود تھے۔
 
انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے صرف قتل ہوتے ہی نہیں دیکھا بلکہ لیاقت علی خان کا قاتل بھی ان کے قریب ہی کھڑا تھا- اس واقعہ کے حوالے سے انہوں نے جو باتیں بتائيں آج ہم آپ کو بتائيں گے-
 
image
 
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ اسلامیہ ہائی اسکول کے طالب علم تھے جب ان کو پتہ چلا کہ کمپنی باغ میں جلسہ ہے جہاں پر وزير اعظم لیاقت علی خان خطاب کریں گے تو اس شوق میں وہ وہاں چلے گئے-
 
لیاقت علی خان جلسے میں آئے وہ ایک پرانی سی سادی شیروانی میں ملبوس تھے اور اظہر لودھی اسٹیج کے قریب ہی کھڑے تھے ان سے صرف تین گز کے فاصلے پر ایک شخص موجود تھا جس کی بعد میں سعید اکبر کے نام سے شناخت ہوئی وہ اس وقت ان کے قریب ہی کھڑا تھا اور کچھ کھا رہا تھا چھوٹی سی اس کی داڑھی تھی اور جوان آدمی تھا-
 
جب کہ اسٹیج پر صرف ایک کرسی ایک میز ایک روسٹرم اور ایک مائک تھا اور اسٹیج پر تنہا لیاقت علی خان موجود تھے اس موقع پر اظہر لودھی نے حیرت کا بھی اظہار کیا کہ ایک عوامی جلسے میں ملک کے وزیر اعظم کا اس طرح تنہا کھڑا ہونا شکوک بھی پیدا کر سکتا ہے کہ کسی منصوبہ بندی کے تحت ایسا کیا گیا-
 
خطبہ استقبالیہ کے بعد جب اسٹیج پر لیاقت علی خان روسٹرم پر تشریف لائے اور انہوں نے پہلا جملہ برادران ملت کہا تو گولی کی آواز آئی تو لوگ سمجھے کہ وزیر اعظم کو خوش آمدید کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جا رہی ہے-
 
مگر اس کے بعد تڑ تڑ مستقل گولیاں چلنے لگیں تو انہوں نے دیکھا کہ لیاقت علی خان کی شیروانی میں سے ایک دھواں سا اٹھا اور وہ گر پڑے اس وقت میں اچانک ہی بھگڈر مچ گئی- انہوں نے اس کے بعد دیکھا کہ ایک سفید کپڑوں میں نوجوان نے ان کے قریب کھڑے سعید اکبر کو گولی مار دی-
 
image
 
جب کہ دوسری طرف آدھے گھنٹے تک لیاقت علی خان کے پاس اسٹیج پر نواب صدیق اکبر پہنچے اور اپنے زانو پر لیاقت علی خان کا سر رکھے بیٹھے تھے۔ آدھے گھنٹے تک کسی قسم کی سیکیورٹی اور طبی امداد لیاقت علی خان کو فراہم نہیں کی گئی اور اسی دوران لیاقت علی خان نے پاکستان کا خیال رکھنا کے آخری جملوں کے ساتھ دم توڑ دیا-
 
ان کا اس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ بغیر کسی تحقیق کے لیاقت علی خان کے قاتل کو اس طرح گولی مار دینے سے اس سازش کے کرداروں کو بے نقاب کرنے کا امکان بھی دم توڑ گیا اور پاکستان کے پہلے وزير اعظم جن کی ایک تصویر بہت مشہور تھی جس میں انہوں نے مکہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے چار صوبے اور ایک کشمیر مل کر ایک مکا بناتے ہیں جو کہ دشمنوں کو پیغام دینے کے لیے کافی ہے-
 
اس کے بعد ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیاقت علی خان کے کیس کی انکوائری کرنے والے جرنل کے جہاز کو بعد میں حادثہ پیش آیا اور اس کا بھی سارا ریکارڈ جل گیا جس کے بعد لیاقت علی خان کا قتل آج تک صیغہ راز میں ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: