اٙعمالِ خیر و عیالِ خیر اور مآلِ خیر !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالتحریم ، اٰیت 6 تا 8 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰاھاالذین
اٰمنوا قوا انفسکم و
اھلیکم نارا وقودھا الناس
والحجارة علیھا ملٰئکة غلاظ
شداد لا یعصون اللہ ما امرھم و
یفعلون ما یوؑمرون 6 یٰایھاالذین کفروا
لا تعتذروا الیوم انما تجزون ما کنتم تعملون
7 یٰایھاالذین اٰمنوا توبوا الی اللہ توبة نصوحا عسٰی
ربکم ان یکفر عنکم سیاٰتکم و یدخلکم جنٰت تجری من
تحتہا الانھٰر یوم لا یخزی اللہ النبی والذین اٰمنوا معہ نور
ھم یسعٰی بین ایدیھم و بایمانھم یقولون ربنا اتمم لنا نورنا
و اغفرلنا انک علٰی کل شئی قدیر 8
اے ایمان دار انسانو ! ایمان قبول کرنے کے بعد اٙب تُم خیر کے اُن اعمال کی طرف بڑھو اور اپنے اہل و عیال کو بھی خیر کے اُن اعمال کی طرف بڑھنے کی ترغیب دو جو اعمال انسان کو اُس آگ سے بچاتے ہیں جس آگ میں اعمالِ خیر سے محروم ہونے والے سنگ دل انسان ہی جاتے ہیں اور اُس آگ کے اُس مٙدخل پر ہمہ وقت وہ سخت گیر نگران کھڑے ہوتے ہیں جو سنگ دل انسانوں کو اللہ کے فیصلے کے بعد ہر وقت اُس آگ میں ڈالتے رہتے ہیں اور اُس سخت گیر جہنم کے وہ سخت گیر نگران کبھی بھی اپنے اِس کام میں کوئی بھی کوتاہی نہیں کرتے اِس لئے اُس روز نتائجِ اعمال کے منکروں کا کوئی بھی عذر قابلِ سماعت نہیں ہو گا لیکن جو ایمان دار انسان قُرآن کی نصیحت سن کارِ خیر کی طرف آتے ہیں تو اُن کو جہنم کی اِس آتش بار زمین سے بچا کر جنت کی اُس گُل و گُلزار زمین میں پُہنچا دیا جاتا ہے جس کے نیچے وہ آبی سوتے بہتے رہتے ہیں جو اُس جنت کی اُس زمین کو سدا بہار بنائے رکھتے ہیں اور اللہ نے اُن اعمالِ خیر کے عامل و حامل لوگوں سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اُن کے رسول و مُتبعینِ رسول کو وہاں پر اُس عزت و اکرام سے نوازا جائے گا کہ اُن کے آگے آگے اُن کے اپنے ایمان کا اور اُن کے میمنے میں اُن کے اٙصحابِ یمین کے ایمان کا نور جگمگا رہا ہو گا اور اُس وقت اُن اہلِ سعادت کے دل اپنے خالق کے خیال میں ڈوبے ہوئے ہوں گے اور اُن کی زبان پر یہ دُعا و التجا ہو گی کہ ہمارے پالنہار تو ہم خطا کوشوں کی خطا پوشی فرما اور ہم پر ہمارا یہ نُور مُکمل کردے کیونکہ تو ہی ہماری اِن خواہشات کی تکمیل کی قُوت و قُدرت رکھتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کی تفہیم کے جو تین فکری و فطری پہلو انسان کے سامنے آتے ہیں اُن میں سے پہلا فکری و فطری پہلو ایک خالص نظری پہلو ہے ، دُوسرا فکری و فطری پہلو ایک خالص عقلی پہلو ہے اور تیسرا فکری و فطری پہلو ایک خالص عملی پہلو ہے اور اِن تین الگ الگ پہلووؑں کے عقلی و فکری تقاضے بھی الگ الگ اور اِن کے علمی و عملی نتائج بھی الگ لگ ہیں ، اگر ہم اِس مضمون کے پہلے نظری پہلو پر غورکرتے ہیں تو ہمیں اِس اٙمر کا ادراک ہوتا ہے کہ اِن اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اہلِ ایمان کو امر حاضر کے جس صیغے { قوا } کے ذریعے جو حُکم دیا ہے اُس کا پہلا ترجیحی معنٰی اپنے اہل و عیال پر ایک اصلاحی نگاہ رکھنا اور دُوسرا معنٰی اُن کو خالص ہدایات اور خالص مشورے دینا ہے اور اِس اٙمر کا مُتہائے مقصود یہ ہے کہ اہلِ ایمان اپنے اپنے جس اہل و عیال کو آتشِ جہنم سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنے اپنے اُس اہل و عیال کے اٙنجام دیئے جانے والے اعمال کی درستی و عدمِ درستی پر ایک طائرانہ نگاہ رکھا کریں اور اُن کے مُثبت اعمال میں جب اور جہاں کوئی مٙنفی صورتِ حال پیدا ہونے لگے تو اُس منفی صورتِ حال کو اپنی علمی و فکری بصیرت سے ایک مُثبت صورت حال میں بدل کر اُن کو حسبِ ضرورت و حسبِ حال ایک علمی و عقلی دلیل کے ساتھ اُن کے مُثبت عمل کے مُثبت نتائج اور مٙنفی عمل کے منفی نتائج کو بھی واضح کریں تاکہ اِس کے بعد اُس کے وہ اہل و عیال مُثبت عمل کو اِس طرح اختیار اور منفی عمل کو اِس طرح ترک کرنے لگیں کہ مُثبت عمل ایک عبادت کی طرح اُن کی عادت بن جائے اور منفی عمل اُن کی چھوڑی ہوئی عادتِ بد کی طرح ایک چُھوڑی ہوئی ایک عادت بن جائے ، ہر چند کہ یہ ایک محنت طلب اور حکمت طلب عمل ہے لیکن اگر اولاد کے والدین اپنی تسبیحات کے بجائے اِس اصلاحی عمل کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیں تو اِس کے جلد ہی مُثبت نتائج پیدا ہونے لگیں گے ، انسان جب فہم کے اِس نظری پہلو پر مزید غور کرتا ہے تو یہ عقلی سوال بھی اُس کے سامنے آجاتا ہے کہ جس جہنم کا ایندھن انسان اور پٙتھر دونوں ہیں تو اُس جہنم سے بچنے اور بچانے کے اِس حُکم میں وہ انسان اور پتھر دونوں ہی شامل ہیں جب کہ ایک اٙمرِ واقعہ کے طور پر انسان اپنے عیال میں شامل عیال کو تو ایک حد تک شاید اپنے ایک ممکنہ وعظ کے ذریعے آتشِ جہنم سے بچانے کی اپنی سی کوشش کر سکتا ہے لیکن پتھروں کو تو وہ آتشِ جہنم سے بچانے کے لئے کُچھ بھی نہیں کر سکتا اِس لئے انسانی عقل یہ سوال بھی کرتی ہے کہ انسان تو خیر اپنے اعمالِ خیر و شر کی بنا پر جنت یا جہنم میں جائے گا لیکن پٙتھر تو وہ مجبورِ محض چیز ہیں جو اپنی مرضی سے ایک حرکت بھی نہیں کر سکتے تو آخر اِس ایک مجبورِ محض مخلوق کو جہنم میں ڈال کر اُس کے کون سے جرمِ بے گناہی کی سزا دی جائے گی اور پھر انسانی عقل انہی سوالات پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ وہ اِن پہلے سوالات کے بعد یہ دُوسرا سوال بھی کرتی ہے کہ پٙتھر جو اپنی ذات میں ایک بے حس چیز ہوتے ہیں تو اُن کو اُس جہنم کی آگ میں ڈالنے کا فائدہ بھی کیا ہے ، عُلمائے تفسیر نے اِس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ جب پٙتھر آگ میں ڈالے جاتے ہیں تو اُن کی تمازت سے آگ کی تمازت اور بھی تیز ہو جاتی ہے اِس لئے جہنم میں ڈالے جانے والے اِن پٙتھروں کے ذکر سے انسان کو جہنم کے اُس دو آتشہ عذاب کی شدت سے ڈرانا ہے لیکن رحمان کا انسان کے ساتھ اصلاح و درستی کا رشتہ ہے دُشمنی کا رشتہ نہیں ہے اِس لئے اُن کا یہ عالمانہ جواب کُچھ زیادہ دل کو نہیں لگتا کیونکہ آتشِ جہنم میں ڈالے جانے والے اِن پٙتھروں سے مُراد وہ بے جان پٙتھر نہیں ہیں جو اپنے لٙمحہِ قیام سے لے کر ساعتِ انہدام تک اپنے خاموش مقصدِ حیات کی خاموش تعمیل و تکمیل میں لگے رہتے ہیں بلکہ جہنم کے اِن پتھروں سے مراد وہ سنگ دل انسان ہیں جو اللہ کی نازل کردہ وحی کو بار بار سننے کے باوجُود بھی اُس وحی پر ایمان نہیں لاتے بلکہ اُس وحی کو ہر بار سننے کے بعد بھی پٙتھر کے پٙتھر ہی رہتے ہیں اور اِس معاملے کے ان دونوں نظری و عقلی پہلووؑں سے وہ تیسرا عملی پہلو خود بخود ہی سامنے آجاتا ہے کہ کہ ایک اٙندھا انسان دُوسرے اندھے انسان کو کبھی نہیں چلا سکتا بلکہ ایک بینا انسان ہی کسی نابینا انسان کو چلا سکتا ہے اِس لئے جن اہلِ ایمان کو یہ حُکم دیا گیا ہے اُن اہلِ ایمان کے لئے اُن کا قانونی مومن و مُسلم ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُن کا عملی مومن و مسلم ہونا بھی لازم ہے اور اِس اٙمرِ لازم کا تقاضا ہے کہ ایک مومن و مسلم عملی طور پر مقصدِ نبوت اور دعوتِ نبوت کا داعی و مناد بن کر قُرآن کے اِن اٙحکامِ نازلہ کو ایک ایک مُلک کی ایک ایک بستی اور پھر ایک ایک بستی کے ایک ایک باشندے تک پُہنچائے اور اگر اُس کے لئے دعوت کا یہ کام بوجوہِ ممکن نہ ہو تو پھر وہ کم از کم اتنا تو خود کو ضرور بدل دے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو بدل سکے اور اِس مقصد کے حصول کے لئے ہم نے جن اعمالِ خیر کا ذکر کیا ہے اُن اعمالِ خیر سے مُراد ایک تاریک حُجرے کے تاریک ماحول میں بیٹھ کر ایک ہزار یا ایک لاکھ دانوں کی تسیح چلانا اور دل پر حق ہُو کی اندھی ضربیں لگانا نہیں ہے بلکہ انسانوں کے درمیان رہ کر اور انسانوں کے ساتھ چل پھر کر ایک جگہ سے دُوسری جگہ تک آنا جانا اور اقامتِ دین کی وہ عملی جد و جہد کرنا ہے جو اللہ کے ہر نبی اور ہر رسول نے کی ہے اور جو انسان قُرآن کا داعی بن کر دعوتِ حق کا یہ کام کرنا چاہتا ہے تو قُرآن کے اُس داعی و مناد کی دعوت کا مرجع و مخرج صرف اور صرف قُرآن ہو نا چاہیئے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 463988 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More