حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ آخرت میں سب سے پہلے نماز کا حساب
لیا جائے گا ۔ اگر نماز کا معاملہ درست ثابت ہوا تو باقی سارے اعمال قبول
کرلیے جائیں گے ۔ اگرنماز میں غفلت، کوتاہی یا دکھاوا ہوا تو باقی سارے
اعمال اکارت ہو جائیں گے ۔ نماز کیونکہ حقوق اللہ، اللہ کا حق ہے اس لئے
پہلا سوال، دوسرا سوال اور حساب کتاب حقوق العباد کا ہو گا کہ میرے بندوں
کے حقوق کا خیال رکھا، ان کے ساتھ حسن برتاؤ کیا، مساوات رکھی، ان کے ساتھ
تیرا لین دین اور معاملات کیسے تھے؟ اگران پہلے دو سوالوں سے کسی کی جان کی
چھوٹ گئی توپھر باقی اعمال اس کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں اور اس کے درجات
میں مزید اضافہ کریں گے ۔ لیکن اگر ان پہلے دو سوالوں نے ہی کسی کو پھنسا
لیا تو باقی اعمال ایک گندی گٹھری میں لپیٹ کر اس کے منہ پر مار دئیے جائیں
گے اور کہا جائے گایہ گٹھری اٹھاؤ اور وہ راستہ لو، ذرا جہنم کی سیر کر کے
آؤ نا، اور وہاں رہ کر انتظار کرو اس فضل اورشفاعت کا جس کی آس پر تم نے
عمل چھوڑ رکھا تھا کہ وہ کب وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ پھر جہنم برد کرکے انہیں
بالکل بُھلا دیا جائے گا جس طرح یہ اللہ کو بھولے ہوئے تھے ، جتنا چلائیں
گے ستر سال تک تو انہیں کوئی جواب بھی نہیں ملے گا نہ کوئی داروغہ خبر لے
گا ۔ ستر سال بعد جہنم کے داروغہ کھڑکی سے جھانک کر پوچھیں گے کیا ماجرا ہے
کیوں شور مچا رکھا ہے؟ کہیں گے پانی چاہیے تو ایسا کھولتا خار دار پانی ملے
گا کہ ان کی اندر کی انتڑیاں پگھل کر باہر آ جائیں گی ۔
بیچارے مولویوں کی مجبوری ہے وہ ایسی حقیقی، سیدھی اور کھری باتیں نہیں بتا
سکتے لوگوں کو اس لئے کہ ان کی روزی کا مسئلہ ہے اگروہ ایسی کھری باتیں
لوگوں کو بتانے لگ جائیں تو انہوں نے کمانا کہاں سے ہے ۔ ایسی باتیں سن کر
لوگ واہ واہ اور سبحان اللہ کہتے ہوئے پےسے تونچھاور نہیں کریں گے بلکہ وہ
تو روئیں گے اور پیٹیں گے اپنی غفلت اور کوتاہیوں پر ۔
اے لوگو! خدا کےلئے ہوش کے ناخن لو اور ان مولویوں کی باتوں پر نہ رہو،
مولویوں کی باتوں پر رہے تو بہت بڑا دھوکا کھاؤ گے ۔ رحمت، مغفرت اور فضل
کی آس پر عمل کو نہ چھوڑو ۔ اعمال پر توجہ دو، اپنے اعمال درست کرو، اپنے
اخلاق درست کرو، اپنے اطوار و کردار درست کرو ۔ معاشرہ کے دوسرے افراد کے
ساتھ اپنا برتاؤ اچھا کرو، ان کے ساتھ مساوات، ہمدردی، رواداری، میانہ روی
اور حسن سلوک سے پیش آؤ، ان کے ساتھ تمہارے معاملات میں حسن ہو، تمہارے
برتاؤ میں حسن ہو، اعمال کی اصل یہ ہیں ۔ صرف پانچ وقت باقاعدگی سے نماز
پڑھ لینا، رمضان کے روزوں کی گنتی پوری کر دینا ہی دین اور عمل نہیں ہے ۔
احادیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔
’’ اعمال میں سب سے بہتر عمل یہ ہے اپنے کسی مسلمان بھائی کو خوش کرنا،
ننگا ہے تو کپڑے پہناؤ، بھوکا ہے تو کھانا کھلاؤ، پیاسا ہے تو پانی پلاؤ،
حاجت مند ہے تو اس کی حاجت پوری کرو ۔ ‘‘
محفلیں کروانے والو! سنو، محفل کروانا اچھا عمل ہے میں اس کی مخالفت نہیں
کر رہا، لیکن اگر تم دین کے فرائض و واجبات پورے نہیں کرتے، پانچ وقت کی
نمازوں کا باقاعدگی سے اہتمام نہیں کرتے اور حقوق العباد کا لحاظ نہیں
رکھتے ہیں ، حسن اخلاق، حسن برتاؤ اور لوگوں سے اپنے معاملات درست نہیں
رکھتے تو تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گی تمہاری یہ محفلیں اور نہ ان کا
لوگوں پر کوئی اثر ہو گا ۔ جیسے ایک بات مشہور ہے کہ بدعمل کی بات میں کوئی
اثر نہیں ہوتا ، اےسے ہی بدعمل کی محفل بھی لوگوں پر کوئی اثر نہیں کرتی،
پہلے خود عمل پہ آؤ، پہلے خود میدان عمل میں اترو پھر لوگوں کو اس کی دعوت
دو، لوگوں کو میدان عمل میں اتارنے کےلئے محافل کا اہتمام کرو ۔ اگر تم دین
کے فرائض و واجبات کی احسن ادائیگی کے بعد اگر یہ عمل کرتے ہو اور تمہاری
نیت ثواب کمانا نہ ہو بلکہ لوگوں کو دعوت فکر دینا ہو، لوگوں کو اصلاح و
ہدایت کا موقع فراہم کرنا، ان میں شعور و بیداری کے جذبات پیدا کر کے انہیں
میدان عمل میں اتارنا ہو تو پھر تمہارا یہ عمل سونے پہ سہاگہ ہو گا اور
تمہارےلیے حتمی نجات کا باعث بنے گا اور شفاعت بھی تمہارا مقدر ٹھہرے گی ۔
ذرا سوچیں کہ آپ میلاد مصطفی ﷺ پر سجاوٹ بھی کر لیں گے، جھنڈیاں بھی لگا
لیں گے، کرایہ کے خطیب و نعت خواں بلا کران کا ذکر بھی کر لیں گے ، رات بھر
جاگ بھی لیں گے لیکن اگر رات بھر جاگنے کے باوجود فجر کی نماز ترک کر دیں
گے، دیگر نمازوں کی پراہ نہیں کریں گے تو کیا فائدہ رات بھر جاگنے اور محفل
میں بیٹھنے کا؟ حضور ﷺ کی سنت و سیرت، حضور ﷺ کا اخلاق، حضو ر ﷺ کا عمل و
کردار چھوڑ دیں گے تو کیا ہ میں حضور ﷺ کی رضا اور خدا کی خوشنودی حاصل ہو
جائے گی؟ کیا احکامات سے روگردانی کر کے اپنی طرف سے کھوکھلے اظہار محبت
کرنے سے حضور ﷺ ہم سے خوش ہو جائیں گے؟ اصل میں ہمارا المیہ یہ بن گیا ہے
کہ ہم فرائض و واجبات کو ترک کر کے مستحبات و مباہات کے پیچھے پڑ گئے ہیں
اور اسی کو دین سمجھ بیٹھے ہیں حالانکہ مستحبات و مباہات صرف مباہ کی حد تک
ہیں کر لو تو بھی ٹھیک نہ کرو تو بھی ٹھیک ۔ شریعت اسلامیہ میں احکامات و
اطاعت کو ترجیح حاصل ہے اظہار محبت کو نہیں ۔ میلاد اظہار محبت ہے اور نماز
شریعت کا حکم ۔ اب لوگ اگر احکامات کی تو پرواہ نہ کریں ، اطاعت سے تو
روگردانی کریں ، حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے تو عاری ہوں اور پھر محبت
کے نام پر جھومتے پھیریں ، ایسا عشق کوئی معانی نہیں رکھتا ہے ۔ یہ معانی
خیز تب ہو گا، اس کی قدر اس وقت ہو گی جب عقیدت و محبت کے ساتھ کامل اطاعت
بھی ہو گی ۔
معروف ثناء گو صحابی حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ
حضور ﷺ نے آپ کو حکم دیا کہ اے عبد اللہ بن رواحہ !تم صبح ہوتے ہی فلاں
جنگ کے لئے سپاہ کو لے کر نکل جانا ۔ ثناء گو صحابی یعنی حضور ﷺ کا ثناء
خواں اور جنگ کا حکم؟ معلوم ہوا ، اس وقت کے نعت خواں دین کے مجاہد بھی تھے
وہ دین کےلئے لڑتے بھی تھے اور آج؟ آج کا نعت خواں بس نعت خواں اور کچھ
نہیں ، دین کےلئے لڑنا اس کا کام نہیں ، اس کا کام صرف نعت کہنا ہے اور کچھ
نہیں ۔ آج کا نعت خواں صرف نعت خواں ہے، آج کا خطیب صرف خطیب ہے ، اس کا
کام صرف لوگوں کو اپنی گفتار میں مست کرنا ہے ان پر دین کا نفاذ نہیں ۔ آج
کے پیروں کی تو بات ہی نہ کریں یہ صرف اپنے احوال میں مست ہیں اقامت ِ دین
و ملت کی فکر و سوچ سے بے نیاز ۔
حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو جنگ کےلئے جانے کا حکم ملا تو اگلی
صبح جمعتہ المبارک کا دن تھا اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے
پاس تیز رفتار گھوڑا تھا ۔ آپ نے صبح ہوتے ہی سپاہ کو رخصت کر دیا اور خود
اس غرض سے رک گئے کہ میں حضور ﷺ کے پیچھے نماز جمعہ ادا کر کے تیز رفتار
گھوڑا کے ذریعہ آپ میں شامل ہو جاؤں گا ۔ اب جمعہ کے وقت جب حضور ﷺ نے
حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو دیکھا تو فرمایا ’’ اے عبد اللہ بن رواحہ ! تم
ابھی تک یہاں ہو؟ میں نے تو تمہیں حکم دیا تھا کہ صبح ہوتے ہی جنگ کے لیے
نکل جانا ۔ ‘‘حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے جواب دیا ۔ یارسول اللہ ﷺ! میں نے
سوچا کہ جمعہ کا دن ہے اور جنگ کے لیے جا رہا ہوں ، پتہ نہیں حالات کیسے
ہوں ، پھر زندہ واپسی ہو نہ ہو، آپ کے پیچھے نماز جمعہ کی سعادت کی حاصل
کرتا جاؤں ، اور میں ان کے ساتھ اپنے تیز رفتار گھوڑا سے جا ملوں گا ۔ تو
سنیئے! حضور ﷺ نے کیا ارشاد فرمایا اور اس چھوٹی سی بات سے بہت کچھ سمجھئے
۔ آپ ﷺ نے فرمایا
’’ اے عبد اللہ بن رواحہ ! تم زمین میں جو کچھ بھی ہے راہ خدا میں خرچ کر
دومگر ان کے اجر کو نہیں پا سکتے جو حکم کی اطاعت میں صبح ہوتے ہی جنگ کے
لئے نکل گئے ۔ ‘‘
صبح ہوتے ہی نکل جانا حضور ﷺ کا حکم تھا اور حضور ﷺ کے پیچھے نماز جمعہ کے
لئے رک جانا حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی اپنی خواہش تھی ، اپنی طرف سے حضور
ﷺ سے اظہار محبت تھا ۔ اب حضور ﷺ کے پیچھے نماز جمعہ کی سعادت حاصل کر نا
کوئی معمولی بات تو نہیں تھی ۔ لیکن حضور ﷺ نے اس کے اظہار محبت کی نفی
نہیں کی مگر یہ فرمایا کہ تم ان کے اجر کو نہیں پہنچ سکتے جنہوں نے حکم کی
تعمیل کی اور صبح ہوتے ہی جنگ کےلئے چلے گئے ۔ اب حضور ﷺ کا میلاد ہمارا
اپنی طرف سے اظہار محبت ہے شریعت کا ظاہری حکم نہیں ہے اور نمازظاہری حکم
ہے وہ بھی ایک نہیں سات سو مرتبہ ہے، زکوٰۃ و عشر شریعت کا حکم ہے اور ایک
نہیں کئی مرتبہ ہے مگر اس سے لوگ کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔ حسن خلق، حسن
سلوک ، اچھا عمل و کردار اللہ و رسول ﷺ کا حکم ہے ۔ اگر ہم اپنی طرف سے
حضور ﷺ سے اظہار محبت تو کریں اور حکم کو چھوڑ دیں ، حضور ﷺ کی سنت، سیرت و
کردار ترک کر دیں تو کیا ان کی بھی حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی طرح اظہار محبت قابل قبول ہو گی؟
اطاعت محبت و الفت کا عملی ثبوت ہے جبکہ حکم عدولی اور اطاعت گریزی کے ساتھ
دکھاوا کی محبت منافقانہ طرز عمل ہے ۔ مسجد ضرار بھی تو دین اور حضور ﷺ سے
ظاہری دکھاوا کی محبت میں بنی تھی کہ حضور ﷺ اور صحابہ ہمارے اس عمل سے خوش
ہوں گے ہم نے اللہ کے لئے مسجد بنا کر دین کے لیے وقف کر دی، مگر وہ لوگ
باطنی طور پر اطاعت گریز تھے، نافرمان تھے تو خداوند کریم کا کیا حکم نازل
ہوا؟حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو خبردار کر دیا گیا کہ ’’
نہ تم وہاں جانا ، نہ وہاں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ۔ ‘‘تو کیا حضور ﷺ ایسے
لوگوں کی محفل میں جلوہ گر ہوں جن کے پیچھے اطاعت و عمل کا زور ہی نہ ہو؟جو
کھلے نافرمان اور گستاخ ہوں ، جو اطاعت و عمل سے تو عاری ہوں اور ظاہری
کہیں کہ ہم تو بڑے عاشق ہیں ، ہم تو حضو ر ﷺ کے غلام ہیں ؟ کیا کبھی ایک
غلام بھی نافرمان ہو سکتا ہے؟ غلام کا تو کام ہے اپنے مالک، اپنے آقا کے
ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دینا خواہ وہ جس نوعیت کا بھی ہو؟مالک حکم
دے کہ یہ کرو اور آگے سے غلام کا انداز یہ ہوکہ سن لے اور نہ مانے، اس پر
عمل سے گریز کرے تو ایسا غلام کیا تصور کیا جائے گا؟ نافرمان، باغی، بے
ادب، گستاخ؟ گستاخی صرف وہ نہیں جو ان کی شان و مرتبت میں کی جائے، حقیقت
میں نافرمانی، حکم عدولی اور عدم اطاعت سب سے بڑی گستاخی ہے جو ہمارے
معاشرہ میں ہر سو نظر آتی ہے ۔ یہ مفافقانہ طرز عمل ہے کہ ان کی عملی
زندگی حضور ﷺ کی عملی زندگی کے برعکس ہو اور پھر نعرہ ہو، بلند بانگ دعویٰ
ہو عاشق اور غلام ہونے کا ۔
کیا یہ گستاخی نہیں کہ ایک طرف اللہ و رسول ﷺ حکم دے رہے ہوں کہ ایسے کرو،
ایسے چلو، ایسے عملی زندگی بسر کرو، ایسے اخلاق و کردار ، ایسے طرز ، ایسے
طور طرےقے اپناؤاور دوسری طرف لوگ سب احکام سن کر پیٹھ پھیر کر چل دیں کہ
ہم تو ایسے نہیں کر سکتے، ایسے عمل نہیں کر سکتے، ہم تو اپنی مرضی کی زندگی
بسر کریں گے، اپنی مرضی پر چلیں گے جب کبھی وقت ملا ، فرصت ملی کچھ عمل
ایسے بھی کر لیا کریں گے جن کا حکم ہے مگر کامل اطاعت، حکم کے آگے سر
تسلیم خم کرنے سے عاری ہوں کیا یہ گستاخی نہیں ؟ کیا یہ غداری نہیں ؟استاد
کی نافرمانی کرنا گستاخی ہے؟ والدین کی نافرمانی کرنا گستاخی ہے؟ تو اللہ و
رسول ﷺ کی نافرمانی کرنا گستاخی کیوں نہیں ؟اگر یہ گستاخی ہے تو ہمارا تو
پورا کا پورا معاشرہ ہی گستاخ ہے، نافرمان ہے، عمل گریز ہے، نماز گریز ہے،
روزہ گریز ہے، زکوٰۃ پرہیز ہے،دین سے بیزار،اخلاق و کردار، سنت و سیرت سے
تو عاری ہیں اور نام پر مر مٹنے کو تیار ہیں ۔ اس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ
نکلتا ہے کہ ’’ یارسول اللہ ﷺ! ہم تیرے ہیں عمل کےلئے اور بتھیرے ہیں ‘‘ ۔
یعنی ویسے تو ہم آپ ﷺ کے غلام ہیں مگر عمل کےلئے کوئی اورقوم ڈھونڈھیں ،
اور لوگ تلاش کریں ہم آپ ﷺ کی پوری اطاعت نہیں کر سکتے، ہم آپ ﷺ کی بعثت
کے مقصد کو پورا نہیں کر سکتے، ہم آپ ﷺ کے بتائے گئے راستے پر نہیں چلنا
چاہتے، ہاں مگر آپ ﷺ سے محبت ضرور ہے ۔ کیاہمارا مجموعی معاشرہ اپنے عمل
گریزی سے یہ پیغام دیتا نظر نہیں آتاہے؟
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین محبت رسول ﷺ میں آپ ﷺ کے وضو کا پانی بھی
زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے اور اپنے چہروں پر مل لیا کرتے تھے تو حضور ﷺ
نے صحابہ سے اس کا سبب دریافت فرمایا کہ ’’ اے صحابہ ! تمہیں کس چیز نے اس
بات پر ابھارا ہے کہ تم میرے وضو کا پانی بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے؟تو
صحابہ نے جواب دیا ۔ ’’ حب باللہ و رسولہ‘‘ اللہ و رسول ﷺ سے والہانہ محبت
نے ہ میں اس عمل پر ابھارا ہے ۔ ‘‘ تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا
جو چاہتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے پیار کرے اور اللہ اور اس کا
رسول ﷺ اس سے پیار کرے تو اسے تین چیزوں کاخاص خیال رکھنا چاہیے ۔
1 ۔ جب بھی بولے ہمیشہ سچ بولے ۔
2 ۔ لوگوں کی امانتیں دیانتداری سے ادا کرے ۔ اب امانت صرف یہ نہیں کہ کوئی
شخص اس کے پاس کوئی چیز رکھے اور پھر وہ اس کو واپس کر دے ۔ قرآن بھی ایک
امانت ہے، اس کی تعلیمات ایک امانت ہیں ، ان پر خود عمل کرتے ہوئے دوسروں
کو اس کی ترغیب دی جائے، دین بھی ایک امانت ہے، اچھی بات، اچھی نصیحت، اچھے
عمل کی دعوت بھی لوگوں کی امانت ہے جو لوگوں کو احسن طریق سے ادا کرنا
چاہیں ، لوگوں کو نیک اعمال کی دعوت دیتے رہنا چاہیے ۔
3 ۔ اپنے ہمسایہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہو، اچھا برتاؤ کرنے والا ہو،
اچھا روایہ رکھنے والا ہو، ان کے حقوق کا محافظ ہو ۔
اب دیکھیں کہ یہاں حضور ﷺ نے صحابہ کے والہانہ اظہار محبت کی نفی نہیں کی
مگر ساتھ میں تین شرائط رکھ دیں ۔ یعنی فرمایا کہ جو اللہ و رسول ﷺ سے اتنی
محبت کرتا ہے تو اس کی محبت اس وقت قابل قبول ہے اور اللہ و رسول ﷺ کی
خوشنودی کا سبب ہے جب اس میں تین چیزیں نمایاں طور پر نظر آئیں ۔ صادق ہو،
امین ہو، حسن خلق یعنی اچھے اخلاق والا ہو ۔ یہ نہیں کہ کھوکھلا اظہار محبت
ہواور پیچھے کوئی کردار نہ ہو، کوئی عمل نہ ہو، کوئی اچھا اخلاق نہ ہو، آپ
ﷺ کے طریق حیات جیسا طریق نہ ہو ۔ اصل میں ہمارا رویہ یہ بن گیا ہے کہ ہم
صرف آپ ﷺ کے نقش نعلین سجا کر عاشق بننے کی کوشش کرتے ہیں مگر آپ ﷺ کے
نقش قدم پر چلنے سے گریزاں ہیں ۔ ہم نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے نقش
نعلین سجا کر عاشق کہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ لوگ کہیں یہ تو بڑا عاشق ہے
ہروقت نقش نعلین سجا کر رکھتا ہے ۔ یہ عمل دکھاوے اور ریا کاری کے بھی قریب
ہے ۔ حقیقی عاشق وہ ہے جس کا ہر عمل حضور ﷺ کے نقش پا جیسا ہو،جس کا ہر
انداز، جس کا کردار، جس کا خلق، جس کا طرز ِ عمل، جس کا برتاؤ، جس کا رہن
سہن حضور ﷺ کے نقش قدم جیسا ہو خواہ اس کے ظاہری نقش نعلین سجا نظر نہ ہی
پڑتا ہو ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عزت ووقار، عظمت و
سربلندی، ہر میدان میں کامیابیاں و کامرانیاں کس لئے ملی؟ اس لئے کہ وہ آپ
ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے نقش نعلین سجا کر عاشق کہلانے والے نہیں تھے
۔
اگر کوئی شخص حضور ﷺ سے والہانہ مظاہرہ محبت میں شامل ہو گیا ہے تو اس یہ
مطلب نہیں ہے باقی اعمال سے اس کو چھٹی مل گئی ہے ۔ نماز نہ پڑھے کوئی
پرواہ نہیں ، زکوٰۃ و عشر نہ دے کوئی پرواہ نہیں ،روزے نہ رکھے کوئی پرواہ
نہیں ۔ اخلاقیات کی پرکھیاں بکھیرتا پھیرے کوئی پرواہ نہیں ۔ والہانہ اظہار
محبت کی قبولیت کےلئے تین چیزوں کا ہونا شرط ہے ۔ صادق، امین اور حسن اخلاق
۔ جس شخص میں یہ تین چیزیں نہیں پائی جاتیں یہ حدیث اس کی محبت کی نفی کر
رہی ہے ۔
میلادالنبی ﷺ کی محافل کا مقصد یہ نہیں کہ سال بھر میلاد اور شانیں ہی
سناتے رہوقوم کو اور آپ ﷺ کے احکامات اور اخلاق و کردار پر بات نہ کرو اور
نہ لوگوں کو ان پر سختی سے پابند رہنے کی ہدایت کرو، کتنی صدیاں بیت گئیں ہ
میں میلاد کی محفلیں کرتے اور میلاد سناتے عملی طور پر کیا تبدیلی آئی
معاشرہ میں ؟ کیا قوم کے کر دار بدلے؟کیا قوم کے اخلاق بہتر ہوئے؟ قوم کے
اطوار سنوارے؟ قوم میں شعور و بیداری آئی؟ کیا ہم ساری زندگی ، تا قیامت
میلاد ہی سناتے رہیں گے کہ آپ ﷺ کیسے آئے اور آپ ﷺ کی شان و مرتبت کیا
ہے اور آپ ﷺ کے بعث کے مقصد پر بات نہیں کریں گے کہ آپ ﷺ کو کن مقاصد کے
حصول کےلئے مبعوث فرمایا گیا؟ آپ ﷺ کا مقصد نبوت و رسالت کیا ہے؟کیا ہم ان
مقاصد پر عمل پیرا ہیں ؟کیا ہم میں وہ کردار ہیں ، ہم میں وہ اخلاق ہیں ،
ہم میں وہ طور طریقے ہیں جن کی تکمیل کےلئے آپﷺ ہم میں مبعوث فرمائے گئے؟
میں سمجھتا ہوں میلاد النبی ﷺ کی محافل کا مقصد تجدید عہد وفا ہونا چاہیے،
تجدید عہد غلامی ہونا چاہیے ۔ میلاد النبی ﷺ کی محافل میں قوم سے آپ ﷺ کی
عملی اتباع اور غلامی کے حلف لےنے چاہیں ۔ آپ ﷺ کی غلامی کا پٹا لوگوں کے
گلے میں ڈال کے آپ ﷺ کی سیرت و کردار کے طواف کروانا چاہیں ، پرزور طرےقہ
سے لوگوں کو میدان عمل میں اتارنا چاہیے اس سے میلاد النبی ﷺ کی محافل کے
اغراض و مقاصد حاصل ہوں گے ۔ صرف میلاد سنانے، شانیں بلند کرنے اور شفاعت،
فضل و رحمت کے واعظ کرنے سے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہو گا ۔
بدقسمتی سے ہمارے علماء پیرو مشائخ یہ کردار ادا نہیں کر رہے ، یہ لوگوں کو
دعوت فکر نہیں دے رہے، یہ لوگوں کے دل و دماغ کو غفلت سے بیدار کرنے کےلئے
نہیں جھنجھوڑتے، یہ ان کی اساس، جوش و جذبوں کو نہیں جگاتے ۔ یہ صرف دوران
واعظ داد وصول کرنے کےلئے لوگوں کو ہلاتے ہیں عمل کی طرف راغب کرنے کےلئے
نہیں ۔ یہ جس میلہ ، عرس وغیرہ کی محفل میں واعظ کر رہے ہوتے ہیں ، وہاں
بیک وقت سائیکل گراؤنڈ بھی چل رہے ہوتے ہیں ، خواجہ سرا بھی ڈانس کر رہے
ہوتے ہیں ، ریچھ کتا کی لڑائی بھی ہو رہی ہوتی ہے، شراب اورجوئے اور بد
فعلی کے اڈے بھی چل رہے ہوتے ہیں ، مجرے اور دھمال بھی، بھنگڑے اور ڈانس
بھی ہو رہے ہوتے ہیں ، لکی ایرانی سرکس بھی موجود ہوتی ہیں اور کئی طرح کی
خرافات و بدفعلیاں بھی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہیں اور یہ بس اس میلہ و
مجلس میں آکر واعظ میں میلہ والے کی کرامتیں بیان کر کے اور شان ہی بڑھا
کر چلے جاتے ہیں ان خرافات پہ بات نہیں کرتے کہ یہ کیا تماشا رچا رکھا ہے ۔
کیا مزار والا یہ وصیت کر کے گیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میری قبر پر
خواجہ سراؤں کے ڈانس کروانا،ناچ راگ کرنا، بھنگڑے اور دھمالیں ڈالنا، مجرے،
ڈرامے اور ٹھیٹھر لگانا اور ہر طرح کی خرافات کرنا؟علماء و پیر و مشائخ
بتائیں کہ ان خرافات کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ان کے سامنے بند کس نے
باندھنا ہے؟ ان کی روک تھام کے لئے آواز کس نے اٹھانی ہے؟ کیا یہ علماء
پیرو مشائخ کی ذمہ داری نہیں ؟ کیا کسی اور مخلوق نے آکر یہ آواز بلند
کرنا ہے کہ ملت کو خرافات سے پاک کرو؟
بنے غرض کے بندے ، کریں دین میں خرافات
حضور! یہ ہیں آج کے تیرے رہبرِ مسلم کی کرامات
تیرے عالم سے بھی چھلکیں غیر کی علامات
پڑے تقلید غرب میں کریں رب سے مناجات
سیکھایا آپ نے قوم کو عدل ، انصاف و مساوات
اپنائی تیری قوم نے حق تلفی و کینہ، نفرت و عداوات
تمہارے معاشرہ میں شادی بیاہوں پہ کیا ہو رہا ہے؟کتنی غلط رسومات ہیں ؟
کتنی گندی خلاف دین روایات ہیں ؟ کتنے برے اطوار ہیں ؟ کتنی بد اخلاقیاں
ہیں ؟ ہندؤوانہ رسم حنا، ڈولی کی رسم ، شادی سے دس دن پہلے آس پاس لوگوں
کی نیندیں حرام کر دی جاتی ہیں رات گئے تک ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے، ڈیک اور
موسیقی کی آواز پر مرد وزن کے مشترکہ ڈانس ، جہیز کی لعنت، دکھاوا،
ریاکاری کہ ہم نے اپنی بچی کو یہ یہ سامان دیا ہے سارا محلہ آ کر دیکھ لے،
کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ تمہاری ریاکاری دیکھنے محلہ کی یتیم اور غریب
بچیاں بھی آ سکتی ہیں ۔ کیا اس ےتیم بچی کی آہ نہیں نکلے گی کہ کاش میرا
باپ بھی زندہ ہوتا تو میرےلیے بھی ایسا کرتا ۔ غریب بچیاں اپنی غربت پر
نہیں کوستی ہوں گی کہ کاش ہمارا باپ بھی اس کی طاقت رکھتا ہوتا تو ہ میں
بھی ملتا ۔ معاشرہ کی ہر ادا ، ہر روایت اسلامی تعلیمات کی منافی ہے ۔ عرس
و میلہ ، مزاروں اور خانقاہوں پے کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہے شریعت میں یہ سب ؟
ان کے خلاف جہاد کس آ کر کرناہے کیا کوئی بتا سکتا ہے؟ ان کے خلاف آواز
کس نے اٹھانی ہے؟ میں برملا کہوں گا تم ملے ہوئے ہوغلط معاشرتی اطوار کے
ساتھ ، خلاف دین روایات کے ساتھ، شادی بیاہ، عرس و میلہ اور خانقاہی خرافات
اور غلط رسومات کے ساتھ ۔ تم نے مصلحت کر لی ہوئی ہے، تم نے سمجھوتہ کر
رکھا ہے ورنہ کیا وجہ ہے تمہاری زبانیں بند کیوں ہیں ؟ تم لوگ کھل ان
معاشرتی برائیوں کے خلاف میدان میں کیوں نہیں اتر رہے؟
آج کل دین کے وارث ، دین ، سماج اور معاشرت کی حفاظت و نگرانی (جو ان کی
حقیقی ذمہ داری ہے، جس کے لئے انہیں دین کاوارث بنایا گیا) کو چھوڑ کراس کے
محافظ بنناچاہتے ہیں جس کی حفاظت خدائے ذوالجلال نے خود اپنے ذمہ کرم پر لی
ہے اور انسانیت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑی یعنی ختم رسالت و نبوت اور
قرآن کریم کی حفاظت ۔ فرمایا
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الْذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَo
’’ہم نے یہ آخری رسول اور آخری کتاب اتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے
والے ہیں ۔ ‘‘
ختم نبوت کا محافظ خود خدا ہے ۔ ختم نبوت اور ختم کتاب یعنی قرآن کریم کی
حفاظت کے معاملہ میں اس نے کسی پر بھروسہ نہیں کیا اور ان کی حفاظت کا
معاملہ خود اپنے دست قدرت میں رکھا ۔ جب خدا نے حضور ﷺ پر نبوت و رسالت کا
دروازہ ہی بند کر دیا ہے ، اب جب خدا کی طرف سے کوئی نیا دعویدار آ ہی
نہیں سکتا ہے، اور جو ایسا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، کذاب اور واجب القتل ہے ۔
کھلا اور واضح قانون ہے اور اس میں دوسری کوئی رائے نہیں ہے تو الٹی سمت
بہنے والے پہرہ داروں کی سمجھ نہیں آتی ہے ۔ آج کل کے علماء کو یہ جنون
چڑھا ہے شائد کہ یہ خدا کی حفاظت کو کمزور سمجھتے ہیں ۔ محافظ ختم نبوت،
دین کے پہرہ دار پتہ نہیں کیا کیا القابات ہیں ۔ کھلے عام معاشرہ میں تو
دین کی پہرہ داری ہوتی کہیں نظر نہیں آتی ہے اور شیطان معاشرہ میں کھلے
عام پھیر رہا ہے، اسے کوئی روکنے والے نہیں ، اس کے سامنے کوئی بند باندھنے
والا نہیں ۔ جس کی پہرہ داری ان کو سونپی گئی، جس کا ان کو وارث بنایا گیا
اس طرف سے ان کی آنکھیں بند اور تسلی بخش ہیں کہ سب ٹھیک ہے کچھ کرنے
کرانے کی ضرورت نہیں ۔ کچھ نظر ہی نہیں آتا کہ معاشرہ کیا ہو رہا ہے ۔
معاشرہ کس قدر شیطان کے تسلط میں ہے ۔ ضلالت و گمراہی ، بے راہ راوی ، بے
پردگی، فحاشی و عریانی کس قدر فروغ پا رہی ہے ۔ کیا کسی نے اس کے سامنے بند
باندھا؟ کیا کسی نے اعلیٰ اسلامی اقتدار، اسلامی اصول و روایات، اخلاق و
اطوار، سیرت و کردار ، اسلامی معاشرتی پاکیزگی کے پہرہ دار ہونے کا دعویٰ
کیا؟ کیا کسی نے اسلامی معاشرہ کو برائیوں سے پاک کرنے کے ٹھیکیداری اپنے
سر لی یا اس کا دعویٰ کیا؟ یہ خدا کی ڈیوٹی کو اپنے سر لینا چاہتے ہیں ،
کمزور سمجھا ہے ختم نبوت کی حفاظت میں یا یقین نہیں رہا، اور اپنی ڈیوٹی،
اپنی ذمہ داری کس کے سر ڈالی ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے، انہوں نے بس صرف
اپنے سر سے اتار پھینکی ہے ۔
پنجابی کا ایک مشہور مقولہ ہے آگے دوڑ پیچھے چوڑ ۔ ان کی اپنی ذمہ داری
مجموعی معاشرہ میں چوڑ ہو چکی ہے، اسلامی معاشرہ تباہی و بربادی کے دہانے
پر آن پہنچا ہے اور ان کی دوڑ آگے کی طرف ہے ۔ کا ش یہ لوگ حضور نبی کریم
ﷺ کے دادا حضور حضرت سیدنا عبد المطلب کے عمل سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے،
اپنی ذمہ داری نبھاتے اور خدا کی ذمہ داری اپنے سر نہ لیتے ۔ ابرعہ کا لشکر
جب بیت اللہ شریف پر حملہ کےلئے مکہ پہنچا تو آپ کے اونٹ اپنے قبضہ میں لے
لئے ۔ آپ کعبہ کے بچانے کیلئے ان کے مقابل کھڑے نہیں ہوئے بلکہ اپنے
اونٹوں کی بازیابی کےلئے ابرعہ تک پہنچے اور اپنے اونٹوں کی واپسی کا
مطالبہ کیا ۔ ابرعہ نے حیرت سے پوچھا ہم کعبہ گرانے آئے ہیں آپ اس کی فکر
چھوڑ کر اپنے اونٹوں کی فکر میں ہیں ، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا
اونٹوں کا میں وارث ہوں اس لیے مطالبہ کر رہا ہوں اور کعبہ جس کی وراثت ہے،
جو کعبے کا مالک ہے وہ اس کی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے ۔ پھر تاریخ نے دیکھا
اور یاد رکھا ابرعہ کے لشکر کا حال ۔ وہ آج بھی حفاظت کر سکتا ہے ۔
ان کی اپنی ڈیوٹی ، ان کی اپنی ذمہ داری اسلامی حسن معاشرت، اسلامی اخوت و
مساوات کو برقرار رکھنے میں زیرو ہے اور خدا کی ذمہ داری کو اپنے سر لینے
میں فخر کرتے ہیں ۔ خدا کا دین کیا ہے؟ دین حسن معاشرت اور سماجی پاکیزگی
کا نام ہے، دین حسن خلق کا نام ہے،دین حسن سلوک ، حسن برتاؤ، اخوت و بھائی
چارہ ، مساوات و برابری کا نام ہے ۔ کیا یہ سب کچھ ہمارے مجموعی معاشرہ میں
نظر آتا ہے؟اس میدان عمل میں کہاں کھڑے ہیں دین کے محافظ؟ کہاں کر رہے ہیں
دین کی پہرہ داری؟ کہاں نبھا رہے ہیں اپنی وراثت میں ملی ذمہ داری؟
جس طرح کسی ملک کے سپاہیوں کا کام لوگوں پر نظر رکھنا ہے ، چوری، ڈاکہ،
فتنہ و فساد پر قابو پانا ہے ۔ اگر سپاہی یہ کام نہ کریں تو ہم کیا کہیں گے
کہ یہ چور، ڈاکو، لیٹروں اور فسادیوں سے ملے ہوئے ہیں ، جیسا کہ آج ہم سب
کہتے ہیں اور پنجابی کا ایک مقولہ سناتے کہ کتی چوراں نال ملی ہوئی اے ۔ تم
( علماء پیرو مشائخ ) کون ہو؟ کیا تم رسول اللہ ﷺ کے دین کے سپاہی نہیں ہو؟
کیا تمہارا کام ، تمہاری ذمہ داری لوگوں کے اخلاق و اطوار و کردار پر نظر
رکھنا نہیں ہے؟ کیا لوگوں کے معاملات دےکھ کر درست کرنا تمہاری ڈیوٹی نہیں
ہیں ؟ لوگ جو جی میں آئے کرتے پھریں ، ان کے دلوں میں تمہارا کوئی خوف نہ
ہو کہ انہوں نے کیا کہنا ہے ، اور تمہاری بھی زبانیں نہ کھلیں کچھ غلط دیکھ
کر یا سن کر تو کیایہ نہیں سمجھا جائے گا کہ تم ملے ہوئے ہو، تم نہیں چاہتے
کہ معاشرہ کی اصلاح ہو ۔
اگر معاشرہ کی اصلاح کرنی ہے تو تمہیں معاشرہ کا حریف و مخالف بن کے رہنا
پڑے گا، گھل مل کر نہیں ۔ لوگوں کے معاملات و کردار پر نظررکھنا ہو گی،
جہاں کہیں کچھ غلط دےکھا یا سنا اس پر زور دار ڈانٹ پالنا ہوگی اور اسے اس
کی سزا بھی دلوانا ہو گی، فاسق، فاجر و بدکار کا منہ پکڑ کر اسے حق کی طرف
موڑنا ہو گا ۔ لوگوں کے دلوں میں تمہارا خوف ہونا چاہیے کہ اگر ہماری کوئی
بدی ان کی نظر میں آگئی تو یہ چھوڑیں گے نہیں ۔ سب کچھ دےکھ کر آنکھیں
بند کر لےنے اور چپ سادھ لےنے سے معاشرہ درست نہیں ہو جائے گا ۔ ملک کےلئے
جو کردار، جو ذمہ داری کسی سپاہی یا فوجی کی ہے بالکل وہی کردار اور ذمہ
داری ان علماء پیر و مشائخ کی دین کےلئے ہے ۔ سپاہی اور فوجی کا کام دشمن
سے لڑنا اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ۔ اگر کوئی فوجی دشمن سے مل
جائے اور اسے آزادانہ ملک میں آنے جانے اور تخریب کاری کی آزادی دے دیں
تو ہم کیا کہیں گے ملک کے غدار؟ اسی طرح غلط معاشرتی رسوم و خرافات دین کی
دشمن ہیں اور اگر علماء پیرو مشائخ انہیں معاشرہ میں آزادنہ چھٹی دے دیں
تو انہیں کیا کہا جائے گا؟ کیا یہ دین کے غدار نہیں ہوں گے؟ کیا یہ اللہ کے
رسول ﷺ کے ساتھ غداری نہیں ہے جس نے ان کو اپنا وارث بنا کر ذمہ داری سونپی
ہے؟
فوجی و سپاہی کا کام ملکی قوانین کا نفاذ اور ان کے دائرہ کار میں عوام کو
نتھ ڈال کے رکھنا ہے ۔ تم کسی ملکی قانون کو اعلانیہ توڑ کر تو دےکھو تم تک
ملک کی سپاہ پہنچتی ہے یا نہیں ۔ مگر ہمارے معاشرہ میں اعلانیہ قرآن اور
رسول اللہ ﷺ کے قانون کو توڑا اور مذاق بنایا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ کی سپاہی
کہاں ہیں ؟ کن کھڈوں میں اپنے منہ چھپائے بیٹھے ہیں وہ ان تک پہنچتے کیوں
نہیں ؟سپاہی کا کام افراد معاشرہ کے اکٹھ اور ہجوم کو چاروں طرف سے گھیر کر
رکھنا ہے کہ ان پر کوئی باہر سے کوئی دہشتگرد حملہ آور نہ ہو، اور نہ یہ
ہجوم کسی ممنوعہ علاقے کی طرف بڑھے ۔ جب تم کوئی احتجاج کرتے ہوتو دےکھتے
نہیں اپنے چاروں طرف پولیس کا گھیراؤکہ تمہارے ہجوم میں کوئی دہشتگرد نہ
گھسے اور نہ تم کسی ممنوعہ علاقے کی طرف بڑھو ۔ مگر افراد معاشرہ کے ہجوم
میں باہر سے کتنی غلط روایات اور خرافات داخل ہو رہی ہیں اور افراد معاشرہ
ان میں پڑ کر دین کی ممنوعہ حدود سے باہر نکل رہے ہیں تو دین کے سپاہی کہاں
سوئے ہیں ؟رسول اللہ ﷺ کے سپاہی کہاں مدہوش ہیں ؟
محب وطن سپاہی دشمن کو اپنے ملک دےکھ کر ہتھیار اٹھائے سر پر کفن باندھے اس
پر ٹوٹ پڑتے ہیں ، میدان میں لڑتے ہیں ، مرتے ہیں اور مارتے ہیں ، موت کے
ڈر سے غاروں میں چھپ نہیں جاتے ۔ جبکہ یہ دین کے اور رسول اللہ ﷺ کے سپاہی
دین دشمن روایات اور کلچر کو اپنے معاشرہ میں دےکھ کر چپ سادھے اپنے اپنے
سرد خانوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے تو ان کے لئے اپنے اپنے
مزاروں ،مقبروں اور خانقاہوں کے دروازے میں بھی کھول دئیے ہیں کہ اور آگے
آؤ، اور آگے بڑھو ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ۔ ہمارے عرسوں ، میلوں ڈھیلوں
میں آ کر تمہیں ہر طرح سے چرنے کی چھوٹ ہے، کسی طرح کی کوئی ممانعت نہیں
ہے ۔ یہ غداری کس کے ساتھ ہے؟ کیا یہ رسول اللہ ﷺ کے سپاہی ہو کر ان کے
ساتھ غداری نہیں ہے؟
|