#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالمُلک ، اٰیت 23 تا 30
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل ھو
الذی انشاکم و
جعل لکم السمع و
الابصار والافئدة قلیلا
ما تشکرون 23 قل ھو الذی
ذراکم و الیہ تحشرون 24 و
یقولون متٰی ھٰذالوعد ان کنتم
صٰدقین 25 قل انماالعلم عنداللہ
و انما انا نذیر مبین 26 فلما راوہ
زلفة سیئت وجوہ الذین کفروا و قیل
ھٰذا الذی کنتم بہ تدعون 27 قل ارءیتم
ان اھلکنی اللہ و معی او رحمنا فمن یجیر
الکٰفرین من عذاب الیم 28 قل ھو الرحمٰن اٰمنا
بہ و علیہ توکلنا فستعلمون من ھو فی ضلٰل مبین
29 قل ارءیتم ان اصبح ماوءکم غورا فمن یاتیکم
بماء معین 30
اے ہمارے رسُول ! اہلِ زمین سے کہدیجئے کہ یہ اُسی مالکُ المُلک کا ذکرِ
جلیل و جمیل ہے جس نے تُم کو تخلیق کے دُوسرے مرحلے میں داخل کر کے پہلے
تُم کو جوہرِ سماعت دیا ہے ، پھر تُمہارے دیکھنے کا احساس بیدار کیا ہے ،
پھر تُمہارے دل کو فیصلوں کا اختیار دیا ہے اور پھر تُمہارے دماغ کو
تُمہارے دل کا نگران بنا کر اُس کو تُمہارے دل کے فیصلوں پر اعتبار و عدمِ
اعتبار کا موقع دیا ہے لیکن ہم نے اپنی اِس محبت کے باوجُود بھی انسان کو
کم کم ہی شکر گزار پایا ہے ، آپ اہلِ زمین پر یہ اٙمر بھی واضح کر دیجئے کہ
یہ تُمہارے اُسی مالکُ المُلک کا ذکرِ جلیل و جمیل ہے جو پہلے تُم کو زمین
کے بکھرے ہوئے ذروں میں ملا دیتا ہے اور پھر اُن بکھرے ہوئے ذروں سے تُم کو
ایک نئی زندگی کا حامل بنا کر سینہِ زمین پر چلا دیتا ہے اور اِس کے
باوجُود بھی اُس کے مُنکر آپ سے پُوچھتے ہیں کہ سٙچے ہو تو یہ بتاوؑ کہ آخر
ہم پر تُمہارا جو مُبینہ یومِ حساب آئے گا وہ کب آئے گا ، آپ اِن کو جواب
دیجئے کہ میرے پاس تو اُس یومِ حسان کے آنے کی ایک مُجرد اطلاع ہے لیکن اُس
کے آنے کا ٹھیک ٹھیک وقت صرف اللہ کے علم میں ہے اور آپ اُن کو یہ بھی
بتادیجئے کہ جب اُس یومِ حساب کا وقت قریب آجائے گا تو اُس سے پہلے ہی اُس
کے منکروں کے چہرے اُس کے خوف سے بگڑ جائیں گے اور اُس وقت اُن کو ہانک
پُکار کر بتا دیا جائے گا کہ تُمہارے مطالبہِ حساب کا وقت ختم اور ہمارے
مطالعہِ حساب کا وقت شروع ہو چکا ہے ، مُجھے اِس بات کی کوئی بھی فکر نہیں
ہے کہ مُجھے اور میرے ساتھیوں کو اللہ اپنی گرفت میں لائے گا یا ہم پر رحم
کھائے گا لیکن تُمہارا کیا بنے گا جو اٙب تک اُس کی ذات اور اُس کے احتسابِ
ذات کا انکار کرتے آئے ہو اور آپ اِن لوگوں کو یہ بھی بتا دیجئے کہ ہم تو
اُس رحمٰن پر ایمان لاچکے ہیں اِس لئے ہمارا تو اُسی کی ذات پر ایمان و
یقین ہے لیکن جو لوگ اُس کے کُھلے مُنکر ہیں وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ
اگر اللہ اِس دُنیا میں اپنی زمین کے زیرِ زمین پانیوں کو روک دے تو اُن
میں کون ہوگا جو اُن کی تشنگی مٹانے کے لئے صاف پانی کی ایک بُوند بھی زمین
سے لا سکے گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن آخری آٹھ اٰیات میں سیدنا محمد علیہ السلام کو دی گئی
پانچ ہدایات کے درمیان انسانی تخلیق کے اُن دو تخلیقی اٙدوار کا مُجمل ذکر
کیا گیا ہے جن دو تخلیقی اٙدوار کا مُفصل ذکر سُورٙةُالاِنسان کی پہلی اور
دُوسری اٰیت میں کیا جائے گا ، قُرآنِ کریم کے اِن دو مقامات کے دو بیانات
سے اِس تخلیق کا جو ایک امکانی سا اندازہ ہوتا ہے اُس امکانی اندازے کے
مطابق انسانی تخلیق کا پہلا دور ایک مُجرد انسانی جسم و جان کا وہ دور ہوتا
ہے جس دور میں انسان کے آلاتِ سماعت و بصارت کا تخلیقی عمل مُکمل ہوتا ہے
اور اُس کی تخلیق کا دُوسرا دور وہ ہوتا ہے جس دور میں اُس کو اُن آلاتِ
سماعت و بصارت کے عملی استعمال کا موقع دیا جاتا ہے جس کے بعد انسان کی اُس
تخلیق کی وہ تکمیل ہوتی ہے جس تکمیل کے بعد وہ اپنے اٙعمالِ جسم اور اعمالِ
جان کا جوابِ دہ ہوتا ہے ، اِس سُورت کی اِن اٰیات کا یہ مضمون چونکہ
سُورٙةُالاِنسان کا ایک کلمہِ تمہید ہے اِس لئے اِس مضمون میں انسانی سماعت
و بصارت کے بعد انسان کے عملِ دل کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اِس بنا پر اِس
مضمون میں اُس انسانی دماغ کا ذکر بھی خود بخود ہی شاملِ ذکر ہو گیا ہے جو
انسانی کانوں کی سماعت ، انسانی آنکھوں کی بصارت اور انسانی دل کے فیصلوں
کا نگرانِ اعلٰی ہے ، اختصارِ کلام کے پیشِ نظر ہم اِس مضمون کے اٙطراف و
جوانب کی جانب رُخ کیِے بغیر اِس وقت اِس کے جس ایک پہلو پر توجہ دیں گے وہ
اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں آنے والے وہ دو فیصلہ کُن الفاظ { انشاء کم }
اور { جعلکم } ہیں جن سے یہ مضمون اِس طرح مُفسر ہوتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ
{ خلقکم } کے بعد کی اُس صورتِ حال کو سامنے لاتے ہیں جو صورتِ حال انسان
کی پہلی عملی تخلیق کے بعد اُس کی اُس دُوسری ارتقائی تخلیق کی جو خبر دیتی
ہے اُس خبر کی مثال ہمیں رحمِ مادر میں پنپنے والے جنین کے اُس ارتقائی عمل
سے ملتی ہے جس ارتقائی عمل کی عقلی و عملی ترتیبِ پرورش یہ ہے کہ انسانی
تکلّم کی بُنیاد سماعت ہے اِس لئے رحمِ مادر میں جنین کا جو پہلا لوتھڑا
نما ڈھانچا بنتا ہے تو اُس ڈھانچے کے اندرونی سانچے میں دل کی وہ موہُوم سی
علامت موجُود ہوتی جو اُس موہُوم جسم کی موہُوم علامتی زندگی کو اپنی
موہُوم علامتی حرکت سے حرکت کے قابل بناتی ہے لیکن اُس ڈھانچے کی بیرونی
سطح پر پہلے کانوں کے وہ دو آلات ظاہر ہوتے ہیں جو سماعت کے پہلے دو آلات
ہوتے ہیں جو رحمِ مادر کے سمندر کی ڈُوبتی اور اُبھرتی موجوں کا وہ ارتعاش
محسوس کرتے ہیں جو ارتعاش اُن کے حاسہِ برداشت کے مطابق ہوتا ہے اور جب اُس
کی ہستی میں میں اُس کی ہستی کے مطابق تجسس کا احساس پیدا ہوتا ہے اُس کی
وہ آنکھیں پیدا ہوتی ہیں جو رحمِ مادر کے اُس سمندر کے مد و جزر کو دیکھنے
کے لئے بیتاب ہوتی ہیں اور دل جو پہلے ظاہر ہوتا ہے وہ ایک تجربہ کار
نگرانِ اعلٰی کے طور پر اِن کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے یہاں کہ تک انسانی
جسم و جان کے یہ تین اجزائے جسم و جان جو اِس وقت تک اپنے نفس ذاتِ اور
اپنی ماں کے نفسِ ذات کے درمیان پروان چڑھ رہے ہوتے ہیں اِن میں رحمِ مادر
کی اِس جنت سے نکلنے کا رُجحان پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اُس جسم و جان
کے اُس نگران دل کو ایک نئے جسم کے نئے نگران کی صورت میں بدل دیتا ہے ،
اُس جسم و جان کے اُن سماعت کار کانوں کو بھی ایک نئے جسم کے نئے اور دُور
تک کی آواز سننے کے قابل بنا دیتا ہے اور اُس جسم و جان کی اُن آنکھوں کو
بھی دُور تک دیکھنے کی روشنی عطا فرما دیتا ہے ، یہ نیا جسم جو اُس جنت سے
نکل کر اِس دُنیا میں آتا ہے وہ اِن آٹھ اٰیات کے درمیان آنے والے اُن پانچ
سوالات کے پانچ کے پانچ جوابات کا ذمہ دار قرار پاتا ہے ، اِس سُورت کے اِس
مضمون کا جو نتیجہِ کلام اِس سُورت کی آخری تین اٰیات میں سیدنا محمد علیہ
السلام کی لسانِ نبوت سے بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو انسان اللہ تعالٰی
کی گرفت اور اللہ کی رحمت کا فیصلہ اللہ تعالٰی کی ذات پر چھوڑ دیتے ہیں
وہی اللہ تعالٰی کے سامنے سرخ رُو ہونے کے حق دار ہوتے ہیں بخلاف اِس کے کہ
جو لوگ اپنی نجات کے لئے اپنے پیروں اور پروہتوں ، اپنی دیویوں اور
دیوتاوؑں یا اپنے دُوسرے معبودانِ وہم و گمان پر انحصار کرتے ہیں وہ موت کے
بعد ملنے والی زندگی میں داخل ہوتے ہی فنا فی النار ہوجاتے ہیں !!
|