جمعہ،جمعہ مسجد اور جمّن میاں

جمعہ کادن ،جمعہ کی نماز اور جمعہ کا خطبہ ،اس کا اصل مقصد کیا ہے یہ وہی سمجھ سکتا ہے جس میں سماج کوسنجیدہ نگاہ سے دیکھنے کی سمجھ ہو ۔اس دن عید کی طرح تیاری کیا جانا ،مسجدوں کی طرف جھنڈ کا جھنڈ جانا ،واپسی میں گھر پر پلاؤ یا بریانی کے انتظام کارہنا یہ تو اسلامی ممالک خاص کر بھارت میں ایک رسم کی طرح دیکھا جاتا ہے ۔مسلمانو ں کی بڑی آبادی (جسے اکبر آلہ آبادی نے جمن میاں کا خطاب دیا )تو یہی سمجھتی ہے کہ ہفتہ میں یہی تو ایک دن ہے جسے اﷲ کی عبادت میں دے دیا جائے تو ہفتہ بھر کا گناہ معاف ہوجائے ۔(جبکہ ایسا نہیں ہے )اس سے بڑی بات یہ بھی سننے کو ملتی ہے کہ اگر کوئی تین جمعہ لگاتار اس نماز سے غیر حاضر رہا تو پھروہ منکروں کے گروہ میں شامل مانا جائے گا ۔کل ملاکر یہ اخذ نکلتا ہے کہ جمعہ کے دن کا احترام اور اہتما م دونوں ضروری ہے ۔

ذاتی طور پر غورکرنے سے لگتا ہے کہ اسلامی ورلڈ میں جمعہ کا احترام واہتمام کے پیچھے ایک بڑا پلان ہے جس پر دانشور حضرات کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے اوراس مہم کو مثبت ومضبوط طریقے سے جاری رکھنے میں ہی اﷲ ہی خوشنودی ہے ۔اندینہ کے چار رکعت فرض نماز کی جگہ پر دورکعت فرض کا ادا کیا جانا اور ساتھ میں خطبہ کا واجب ہونا یہ خطبہ کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ایسا اسلئے کیونکہ اس دن اچھا ہو یا برا ،ظالم ہو یا کمزور،شرابی ہو یاکبابی،جواڑی ہو یا زناکار،چور ہو یا ڈکیت،سبھی جمعہ کے دن مسجد میں حاضری ضرور دیتے ہیں ۔غورکریں تو مسلمان محنت کش طبقہ (جمن میاں)اسے ایک رسم (ہفتہ واری)کی طرف لیتا چلا آرہاہے اور بخوبی نبھاتا چلا آرہاہے بھلے ہی اسے امام کے خطبہ سے کچھ سببق ملے یا نہیں ملے ۔اس موقع پر اصل باری تو امام حضرات اور خطیبوں کی آتی ہے جنہیں اپنے رو ل کے مقصد کو سنجیدگی سے سمجھنا ہوگا ۔اپنی سماجی تحریک کے دوران ہمیں کئی مساجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کا موقع ملا ۔ہم نے پایا کہ زیادہ تر اماموں کے خطبات تو سر کے اوپر سے ہی گذر جاتے ہیں ۔زور دار آواز میں چلاّ چلاّ کر خطاب کرنا اور ناموں کے ساتھ لمبے لمبے القاب کے علاوہ تو کچھ سنائی ہی نہیں دیتا ہے ۔ذہن میں فورا یہ بات آنے لگتی ہے کہ ہمارے جیسا’’سمجھی مسلمان‘‘ہی جب امام کے خطبہ کا مطلب نہیں سمجھ سکا تو پھر ’’جمن میاں‘‘کو کیا سمجھ میں آتی ہوگی ۔وہ تو ہماری ہی طرح خالی ہاتھ گھر واپس چلا جاتا ہوگا۔

ہماری سمجھ سے ہر جمعہ کی نماز میں دراصل ’’کردارسازی‘‘کو مرکزی نقطہ بناکر خطبہ ہو نی چاہئے اور وہ بھی حالات حاضرہ کو سامنے رکھ کر ۔آج انسانی سماج جتنی گمراہی کا شکار ہو چکا ہے ،اسے صرف ’’حکم الہی ‘‘کے نظریے سے ہی راہ راست پر لایا جاسکتا ہے ۔اور اس کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ و خلفاء راشدین سے متعلق سبق آموز واقعات اس جم غفیر کے سامنے پیش کرکے اسے قاعدے سے سمجھایا جائے تاکہ جمنوں کے ذہن میں بیٹھ جائے اور اس پر عمل کرنا اس کی ذہنی مجبوری بن جائے ۔سماج کو اگر یہ بتایا جائے کہ ماں باپ کی اطاعت کرو ،رشتہ داروں سے لگاؤ رکھو،پڑوسیوں و مہاجروں کی مدد و دلجوئی کرو،ناپ وتول ٹھیک رکھو،کسی کا مال نہ ہڑپو ،وعدہ خلافی نہ کرو ،نشہ ،زنا،فحش و عریانیت گناہ ہے ۔جان ومال ،اعمال تینوں اﷲ کی امانت ہے ۔خیانت نہ ہو ،جھوٹ موٹ اور پھوٹ سے بچو ،فضول خرچی اور حد سے ذیادہ کنجوسی دونوں شیطانیت ہے ،ختم یتیمی تک یتیموں کی مدد کرو ،غرور گھمنڈ سے دور رہو وغیرہ ۔اس طرح کی چھوٹی لیکن بنیادی ہدایتوں کو یکے بعد دیگر بار بار پیش کرنے اور خاص کر اسلام کے پیامبروں کے حوالے سے رکھنے پر کافی اثر ہوگا بشر طیکہ اسے عام وآسان الفاظ میں ایسا رکھا جائے کہ جم غفیر کے ذہن میں داخل ہو جائے ۔ان باتوں کو پیش کرنے میں ہمارے ذہن میں آس پروس کے لوگوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ مسجدوں سے نکلی ہوئی آواز کا اثرصرف ایک مخصوص سماج پر پڑ تا ہے اگر خطبات کو ٹھیک سے پیش کیا جائے اور ہندوستانی زبان میں پیش کیا جائے تو آس پاس کی آبادی پربھی اس کے اثر کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔کون اچھی باتیں سننا ،سیکھنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چاہتا ہے ۔جمعہ اور جمعہ کے خطبے کا استعمال دراصل اسی مقصد سے ہونا چاہئے ۔پھر اگر مسجدوں کے دروازے سے بلا تفریق پیاسوں کو سارا دن پانی ملے ۔فقیروں اور بھیک مانگنے والوں کو مالی مدد ملے،لنگروں سے بھوکوں کو کھانا ملے ،کمزوروں کو تعلیم ملے ،تو پانچ وقت نماز کے ساتھ اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے ۔ان بدلاؤ کے لانے سے ہر خاص وعام میں مساجد کی امیج مثبت ہوگی ۔ورنہ مٹھی بھر چالاک اور مفاد پرست ملّی لوگوں کے ذریعہ جس طرح جمعہ ،جمعہ مسجد اور جمن میاں کا استعمال ٹکراؤ کی سیاست کے لئے ہوتا چلا آرہاہے ،یہ کسی بھی حساب سے اب درست نہیں ہے ۔مسلمانوں کی روایتی لیڈر شپ جانتی ہے کہ جمعہ کے علاوہ دوسرے دن مسلمانوں کا جم غفیر آسانی سے تو ملنے والا نہیں ہے اور موقع بموقع جمعہ کے خطبہ کو بھی یہ کردار سازی کے بجائے سیاسی استعمال کے مقصد استعمال کرانا خوب جانتے ہیں ۔انہیں جانکاری ہے کہ جمعہ میں بھیڑ (جمن میاوٗں) کی ہی لگتی ہے جنہیں مذہب کے نام پر بآسانی گمراہ کرکے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔انہیں معلوم ہے کہ پڑھا لکھا اور صاحب حیثیت طبقہ ان کے جھانسے میں نہیں آنے والا ہے اور ان سے بھیڑ لگنے والی بھی نہیں ہے ۔اس مضمون کے ذریعہ ہم تو دانشور حضرات سے یہی التجا کریں گے کہ ا ب وہ جمعہ ،جمعہ مسجد اور جمن میاں کو بچائیں اور انہیں سیاسی ٹکراؤ میں ،سیاسی مقاصد کے لئے مسجدوں ،مذہبی خطبوں کو چھوڑ کر اور بھی بہت سے دن اور پلیٹ فام ہیں اس کااستعما ل کریں ۔ورنہ آج مسجدوں ،اذانوں اور نماز ادا کرنے کی جگہ کو لے کر جس طرح آواز اٹھنے لگی ہے یہ مزید طویل نہ ہو جائے ۔ہر بات کے لئے ہم دوسروں پر ٹھیکرا کیوں پھوڑیں ۔برے وقت آنے سے قبل ہی ہم ان ساری نکات پر حد ممکن بدلاؤ لے آئیں تاکہ گمراہی کے شکار گروہ کو مخالفت میں مہم چلانے کا موقع ہی نہ ملے ۔وقت کی ضرورت تو یہ ہے کہ ہر سطح پر ٹکراؤ کے بجائے برادروطن کے دلوں کو جیتنے کی ہم چلائی جائے ۔
 
Dr Ejaz Ali
About the Author: Dr Ejaz Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.