سیلاب سب لوٹ لیتا ہے

سیلاب سے متاثرہ لوگوں پر کیا قیامت گزرتی ہے۔ ہم شہری سہولتوں کے عادی لوگ اس کا ہلکا سا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جب تک یہ عذاب جاری ہے ہمدردیاں بھی جاری رہیں گی مگر اس کے بعد وہ بیچارے مظلوم سیلاب زدہ لوگ ہوں گے ان کی بے بسی ہو گی ان کابرسوں تک روزکا جینا مرنا ہو گا۔آرمی اورالخدمت جیسی چند گنی چنی تنظیموں کے علاوہ بہت کم ہمدرد اور مدد گار نظر آئیں گے۔ابتلا شاید اسی چیز کا نام ہے کہ بہت سے لوگوں کے دن بدل جاتے ہیں۔ وہ جو لٹ جاتے ہیں ان میں بہت کم امدادوں سے فلاح پاتے ہیں، انہیں ایک نئے سرے سے مشقت کرنا اور اپنی اور اپنے خاندان کی تعمیر نو کرنا ہوتی ہے۔سرکاری اہلکار اور سیلابی مینڈکوں کی طرح وجود میں آنے والے اداروں کے منتظمین اس امداد سے خوب پیٹ بھر کر اپنی کایا پلٹ پائیں گے۔ وقتی طور پر یہ بڑی متحرک قوم بے حسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ سب جوش ہمیشہ وقتی رہا ہے۔

میں 1973 میں اسلام آبادیونیورسٹی ،جو اب قائد اعظم یونیورسٹی ہے، کا طالب علم تھا۔سیلاب آیا تو یونیورسٹی بند کر دی گئی۔ طالب علم گھروں کو چلے گئے۔ مجھے کچھ کام تھا میں دو تین دن ٹھہر گیا۔ اس دوران سیلاب کی صورت حال زیادہ بگڑ گئی۔تین دن بعد میں لاہور جانے کے لئے لیاقت باغ بس اڈے پر پہنچا تو مکمل سکوت تھا۔کہیں کوئی گاڑی جا نہیں رہی تھی۔گھر کی طرف قدم اٹھ جائیں تو واپس جانا اور وہیں رکنا محال ہوتا ہے۔میں وہیں کھڑا سوچ میں مگن تھاکہ ایک ویگن لاہور ،لاہور کے نعرے لگاتی وہاں آ گئی۔ میرے جیسے سارے بھاگتے ہوئے اس پر سوار ہو گئے۔پوچھا بھائی راستہ ٹھیک ہے۔ جواب ملا، بالکل ٹھیک ہے اﷲبہتر کرے گا آپ فکر نہ کریں۔ویگن چل پڑی مگر جب ہم نے گجرات کا شہر عبور کیا تو پولیس نے پل سے پہلے اسے روک لیا کہ پل کے پار سڑک پر پانی ہے آگے نہیں جا سکتے۔ ویگن ایک طرف کھڑی ہو گئی اور ڈرائیور اور کلینر غائب ہو گئے۔میں نے اپنا اٹیچی کیس پکڑا اور لوگوں کے مشورے پر کہ پانی والا سڑک کا حصہ پیدل کراس کرکے اس پار کوئی دوسری ویگن لے کر لاہور چلے جاؤ، میں چل پڑا۔ پل سے کچھ آگے جا کر پتہ چلا کہ قریب ہی کوئی پلکھو نالہ ہے جس کا پل سیلاب میں بہہ چکا ہے اس لئے سڑک پار نہیں ہو سکتی۔میں اور بہت سارے لوگ پانی کے کنارے بیٹھ کر اچھلتی بھاگتی اور مچلتی لہروں کو دیکھنے لگے۔ ایک فوجی آیا، اس نے کپڑے اتارے، ان کی گٹھڑی بنائی اور سب کے منع کرنے کے باوجود کہ اسے ڈیوٹی پر پہنچنا ضروری ہے ، پانی میں کود گیا۔ اسے دعویٰ تھا کہ وہ ایک اچھا پیراک ہے مگر گاڑی جیسی پانی کی تیز رفتاری نے اسے ایک منٹ میں الٹ پلٹ دیا۔بڑی مشکل سے جان بچا کر وہ کنارے پہنچا تو گٹھری غائب تھی اور وہ صرف لنگوٹ پہنے رو رہا تھا کہ پیسے ،کپڑے اور اس کی دستاویزات سبھی اس مرحومہ گٹھری میں تھے۔لوگوں نے اسے ایک چادر دھوتی کی طرغ باندھنے کو دی اور اب اس کے لئے کپڑوں کا انتظام کر رہے تھے۔اس دوران ایک اہلکار آیا اور کہنے لگا کہ مہربانی کرکے پل پر چلے جائیں۔ یہ منظر جتنا دلکش نظر آتا ہے اسی قدر خطرناک ہے۔ ابھی کوئی اچھلتی لہر آ گئی تو آپ بھی بہہ جائیں گے۔بات سب کو سمجھ آ گئی اور لوگ واپس پل پر آ گئے۔

پل پر لوگوں کا بے پناہ رش ہو چکا تھا۔ بڑا سوگوار ماحول تھا۔پانی کی زد میں آ جانے والے دیہات کے لوگ اپنا سامان لئے جو وہ اس جلدی میں اٹھا سکے تھے لئے وہاں بیٹھے تھے۔کسی کے بچے غائب تھے، کسی گھر کی عورت لا پتہ تھی اور بہت سے گھروں کے مرد کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو بچانے کے چکر میں پیچھے رہ گئے تھے اور ابھی تک یہاں نہیں پہنچے تھے۔عورتوں اور بچوں کے بارے سبھی لوگ مایوس تھے اور ان کے بارے آ ہ وزاری جاری تھی مگر مردوں کے آنے کی امید تھی۔اس لئے کہ مرد اپنی بھینسوں کو لے کر کسی بھینس پر بیٹھ کر اسے ہانکتے پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ سب کو کسی کنارے پر لے جاتے ہیں۔ بھینس کسی دلدل میں نہ پھنسے تو آپ کو بچا لیتی ہے۔ وہیں مجھے پتہ چلا کہ بھینس انسان کو بچاتی مگر گائے ڈبو دیتی ہے۔ بھینس اور گائے دونوں کی فطرت میں فرق ہے۔ اچانک دریا میں سے چیخوں کی آواز آئی۔ دریا میں جھانکا تو ایک کھرلی جس میں بھینسوں کو دانہ ڈالا جاتا ہے بڑی تیزی سے دریا میں بہتی جا رہی تھی۔ اس میں دو خواتین اور چار پانچ بچے مدد کو پکار رہے تھے، کوئی مدد ممکن نہ تھی۔ چشم زدن میں وہ لوگ کہیں آگے نکل گئے، ان پر کیا بیتی کوئی نہیں جانتا۔

میرے نزدیک ایک پورا خاندان بیٹھا تھا۔ ان میں سے ایک مرد تھوڑی دیر بعد اٹھتا اور کسی کا نام لے کر اوئے کہتے پکارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ ایسا کیوں کر رہا ہے تو پتہ چلا کہ وہ سامنے والے گاؤں کے سب سے امیر لوگ تھے جن کا بہترین اور مضبوط پختہ تین منزلہ گھر بنا ہوا ہے ۔ جب پانی کا ریلہ آیا تو سارے گھر والے پل پر آ گئے مگر ایک بھائی اس لالچ میں کہ اگرکچھ قیمتی سامان سب سے اوپر والی منزل پر لے جاؤں تو وہ بچ جائے گا۔ مگر پانی اس قدر زیادہ ہے کہ سارا گاؤں پانی میں غائب ہو چکا۔ اس مکان کی تیسری منزل کے اوپر منٹی بچی ہے جس پر وہ زندگی کی آس پر بیٹھا ہے، سامان بچاتے اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگا لی تھی۔گھر والے ڈر رہے ہیں کہ کہیں مکان گر نہ جائے اس لئے نعرے لگا کر اس کی خیریت دریافت کر رہے ہیں اور وہ جواب دے رہا تھا۔ اس جگہ سینکڑوں خاندان بیٹھے تھے اور ہر ایک داستان ایک عجیب المیہ تھی، سیلاب میں وہ فقط جان بچا پائے باقی ان کی ہر چیز بہہ چکی تھی ،وہاں مجھے احساس ہوا کہ سیلاب سب لوٹ لیتا ہے۔ اس قدر بے سروسامانی کہ الاماں۔ آدمی ان کے بارے سوچ تو سکتا ہے مگر ان پر جو بیت رہی ہوتی ہے وہ بیان نہیں ہو سکتا۔

میں اپنے اٹیچی کیس پر سر رکھ کر لیٹ گیااور گہری نیند سو گیا۔ صبح سردی محسوس ہوئی تو آنکھ کھل گئی۔ دیہاتیوں کا ایک گروہ ساری رات جاگ کر پانی سے خشکی پر چڑھتے سانپوں کو مارتا رہا۔ میں اپنا بیگ اٹھائے پیدل گجرات آیا۔ ٹرین کے لئے میں نے گجرات کے ریلوے روڈ کو اس پر موجود تین سے چار فٹ پانی میں بیگ سر پر رکھے عبور کیا۔ دو گھنٹے انتظار کے بعد ایک ٹرین آئی وہ بھی فیصل آباد جا رہی تھی۔ مجبوری میں فیصل آباد چل پڑا ۔ تیرہ گھنٹے بعد ٹرین فیصل آباد پہنچی۔ وہاں سے بس پر لاہور چلا۔شاہدرہ پہنچے تو وہاں پانی داخل ہو چکا تھامگر ابھی ابتدا تھی۔ کچھ لوگوں نے روکا مگر ڈرائیور نے بس بھگا دی۔ آگے جو نظر آیا اس نے کہاں کہ جلدی نکلو پانی آ رہا تھا۔وہ پانچ منٹ بڑے کرب میں گزرے ۔پل نظر آیا اور پانی سے ہم نکل آئے۔گھر آنا اور وہ بھی ان حالات میں خوشی کا باعث ہے مگر چناب کے پل پر جو کچھ دیکھا اسے سوچ کر آج بھی میں اداس ہو جاتا ہوں۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501335 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More