مطلب براری کا تعلق اور انسان کی اکڑ


ہماری ملاقات شعبہ صحافت میں ہوئی تھی وہ بنیادی طور پر اس وقت شعبہ صحافت کے تکنیکی شعبے میں تھاجس طرح کچھ لوگوں میں پیسے کمانے، کچھ شہرت پانے اور کچھ آگے آنے کے چکر میں ہوتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر ایک کیساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں ، کچھ لوگ اس معاملے میں اچھے ہوتے ہیں وہ تعلق بناتے ہیں پھر نبھانا بھی جانتے ہیں لیکن آج کے دور میں تعلق بھی دس سال پرانے والا تعلق ہوتا ہے یعنی تعلق اس وقت تک ہوتا ہے جب تعلق بنانے والے لوگ سامنے ہوں یا پھر ان سے کوئی مطلب ہو ں ، یعنی مطلب براری کے تعلقات زیادہ بہتر چلتے ہیں ، جب تک مطلب تب تک تعلق ، مطلب ختم تو تعلق بھی ختم ، پھر ضرورت پڑی تو پھر سے فون کرکے رابطہ بحال اور یہ رابطے اس وقت تک بحال ہوتے ہیں جب تک مطلب پورا نہیںہو.

بات بہت دور تک نکل گئی ، اس نوجوان سے میری ہیلو ہائے ٹی وی سکرین یعنی براڈکاسٹ جرنلزم کی وجہ سے بن گئی تھی ایک حد تک تعلق رہا ، بہت جونیئر تھا اس لئے تعلق بھی جونیئر والا ہی رکھا ، کبھی اس کے سامنے ایسی بات نہیں کی . پھر اس کی دوستی اسے شعبے کی ایک خاتون سے ہوگئی اور پھر دونوں ، درپردہ صحافت کے ساتھ ساتھ اپنے لئے کاروبار بنانے میں چکر میں لگ گئے ، تبدیلی والی سرکار کی حکومت آئی تو نوجوانوں کو روزگار کیلئے رقم دینے کا سلسلہ شروع ہوا دونوں نے اپنے اپنے کاروبار کیلئے سرکار سے رقم لی.ایک نے بہت میٹھی چیز کا کاروبار شروع کیا ، اور دوسرے نے اپنے ہی شعبہ میں کام کرنا شروع کیا. پھر کچھ عرصہ بعد میٹھا کاروبار متاثر ہوا ، ایک کو شہرچھوڑنا پڑا اور دوسرے شہر جا کر اس نے پراپرٹی کا کام شروع کیا جبکہ دوسرے نے شہر میں ہی اپنے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرنے شروع کردئیے. کک بیکس سے لیکر پرسنٹ کے حساب سے کمیشن کے باعث اس نے مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بنا لی.زبان کا میٹھا ہونے کی وجہ سے اسی شہر میں بیشتر کام اس کے ادارے کو ملنے لگا.اور یوں اس نے اپنی ایک ساکھ بنالی.

پھر کچھ عرصہ بعد اس نے خود ایک سرکاری ملازمت حاصل کی یہ ملازمت بھی اسے اپنی چرب زبانی کی وجہ سے ملی ، کیونکہ وہ اپنے شعبے کیساتھ چرب زبانی کی مہارت بھی رکھتا ہے یوں اس نے سرکاری اداروں میں بھی قدم رنجہ فرمائی کی ، اور وہ خود پس پردہ رہ کر کنٹریکٹ حاصل کرنے لگا .اس کیساتھ اسکے نیچر کے سرکاری افسران نے رابطے شروع کردئیے اور پھر ترقی کی منازل پر آگے چڑھتا رہا ، یوںصحافت میں ماہانہ پچیس ہزار روپے لینے والے ایک تکینک کار اس وقت لاکھوں روپے کے کنٹریکٹ حاصل کررہا ہے اور اس کے شعبے کے بیشتر ساتھی " میرٹ " میرٹ کی گردان کرتے رہتے ہیں لیکن یہ صاحب "میرٹ" کو جوتے کی نوک پر رکھ کر آگے بڑھ رہا ہے. اس کیلئے سرکاری ادارے میں راستے نکالے جاتے ہیں اسے ہر جگہ پر ویلکم کیا جاتا ہے.کیونکہ یہ صاحب خوش کرنے اور رکھنے کا فن جانتے ہیں..

چرب زبانی ، خوشامد اور اپنی مقصد براری کیلئے انتہائی حد تک جانے والے ان صاحب نے ہمارے اس معاشرے میں پائی جانیوالے کمزوریوں کو جان لیا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے ، اگر کام پیسے سے نہ ہوں تو پھر زن تو کہیں گئی نہیں اور اگر اس سے بھی کام نہیں چلا تو پھر دھونس اور اوپر سے دبائو کے سامنے تو بڑے بڑے خاموش ہو جاتے ہیں اسی باعث ان تینوں سے وہ اپنے ناکام نکالنے میں ماہر ہیں.
کامیابی اور ناکامی محنت کیساتھ ساتھ اللہ تعالی کی مہربانی سے بھی مشروط ہے ہمارے پختون معاشر ے میں یہ بات زیادہ بولی جاتی ہے کہ " چی اوگے موڑ شی نو خپل وخت ہیروی " یعنی کم حیثیت والے بندے کا پیٹ بھر جائے تو پھر اس کی اوقات سامنے آنے لگتی ہیں. اسی محاورے کے انداز میں اب وہ تکنیک کار آہستہ آہستہ جو قبل ازیں پس پردہ رہ کر کام چلاتا تھا اب پردہ سکرین پر آنا شروع ہوگیا ہے .

کچھ عرصہ قبل ایک سرکاری ادارے کی کوریج کے دوران ان صاحب سے ملاقات ہوئی ، چونکہ بیشتر سرکاری اداروں میں میڈیا کمپیئن کیلئے الگ رقم دی جاتی ہیں جس میں حصہ بقدر جثہ اور حصہ بقدر خوشامد سب کو ملتا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کیونکہ سرکار اپنے کاموں کی تشہیر کبھی ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعے کرتی ہیں اور کبھی تحریر کے ذریعے ، تاکہ اس سے سرکار کا کام بھی چلے اور ہم جیسے " دو ٹکے" کے قلم کے مزدوروں کی مزدوری بھی چلتی رہے.کیونکہ قلم کا مزدور تو بیلچہ اٹھا نہیں سکتا .زن پیش کرکے کام نکالنے کا فن بھی قلم کا مزدور کبھی نہیں کرسکتا ، ہاں سوائے چند "ناسوروں" کے ، جنہیں نہ اپنی عزت کی پروا ہے اور نہ دوسروں کی عزت کی پروا کرتے ہیں ، اور انہی لوگوں کی منافقت زدہ چہرے ہر جگہ پر نمایاں ہیں.

سرکاری ادارے کی کوریج کے دوران یہی صاحب ملے ، مجھ سے حال پوچھا اور پھر بات ہوئی تو پتہ چلا کہ اس نے ا س پروگرام کا کنٹریکٹ کئی لاکھ میں حاصل کیا ہے ، کیسے حاصل کیا یہ ایک الگ داستان ہے کیونکہ 99 ہزار سے آگے کے کسی بھی چیز کا ٹھیکہ سرکار" اوپن ٹینڈر" کرکے دینے کی پابندہے لیکن لاکھوں کے ٹھیکے لینے والے شخص نے مجھ سے پوچھا کہ کس ادارے کیساتھ ہو جب میں نے ادارے کا نام بتایا تو اس نے بڑے ہی "اکڑ " میں جواب دیا کہ ہمارے پاس آجائو ، ہم تمھیں اور تمھارے ادارے کو آسمان تک پہنچا دینگے.اور ساتھ میں ان صاحب نے ہاتھ سے زمین سے آسمان تک جانے کا اشارہ بھی کردیا.مجھے لگا کہ شائد یہ میرا مذاق اڑا رہا ہے لیکن وہ سیریس تھا ، اس وقت دوبندے اسی کے اس کے ساتھ تھے ، میں نے اس سے سوال کیا کہ تمھاری عمر کتنی ہے تو اس نے ڈھائی دہائی قبل کا ایک سال بتا دیا . میں نے جوابا کہہ دیا کہ " بیٹے" جب تم پیدا ہورہے تھے اس وقت میں نے چھ سال شعبہ صحافت میں گزار دئیے تھے. رہی بات اوپر لے جانے کی تو جس نے اوپر لے جانا ہے وہ "اوپر بیٹھا "ہے میرے اور تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا ،یہ اس کی مرضی ہے کبھی نیچے کبھی اوپر ، یہی زندگی ہے .اورہاں انسان اپنی مرضی سے باتھ روم میں جا کر اپنے جسم کا" گند " بھی نہیں نکال سکتا. جس پر وہ تکینک کار جو اب بہت چیز بن گیا ہے ، کہنے لگا کہ مسرت بھائی ، میرا یہ مطلب نہیں تھا میں نے جواب دیا کہ تمھارا مطلب جو بھی تھا لیکن میرا جومطلب ہے وہ میں نے بتا دیاآئندہ یہ اکڑ والی بات مت کرنا کہ " ہم تمھیں اوپر لے جائیں گے" کیونکہ انسان بہت عاجز ہے اور مٹی کے بنے پتلے کو عاجزی ہی سجتی ہے.میں تو یہ بات کرکے واپس نکل گیا وہ شخص آج بھی بڑے عہدوں والے لوگوں کیساتھ بیٹھتا ہے اور اس پر اکڑتا بھی ہے. لیکن یہ اکڑ آخر کب تک ہوگی. اللہ جانے ..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 422472 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More