سو بار جنم لیں گے

صبح اٹھ کر فیس بک پر انگلیاں چلانا شروع کی تو یکدم تنویر احمد کی وال پر رکنا پڑا جہاں دو نوجوانوں خاور بیگ اور شہزاد فراموش اپنی خوبصورت اور سریلی آواز میں گانا گا رہے تھے مجھے یاد نہیں کتنی بار سنا یہ گانے کا کمال تھا یا آواز کاجادو جو بار بار سننے پر مجبور ہوتا رہا پریس کلب کی لائبریری میں میز پر ہاتھوں کی انگلیوں سے گایا جانے والا یہ خوبصورت اور لازوال گیت سو بار جنم لیں گے جتنی بار بھی سنا پہلے سے بڑھ کر مزہ آیا 1963میں بننے والی فلم استادوں کے استاد کے لیے محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت نہ صرف فلم کو سپر ہٹ بنا گیا بلکہ میوزک کو بھی لاجواب کرگیا پریس کلب میں ہمارے بہت سے صحافی دوست کمال کی آواز رکھتے ہیں اکثر شام کو جب کبھی محفل سجتی ہے تو رات کا حسن نکھر کر گانوں میں شامل ہوجاتا ہے شہزاد فراموش کی آواز تو ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے مگر خاور بیگ کو پہلی بار سنا واقعی اس کی آواز میں بھی جادو ہے انگلیوں کی تھاپ سے گانے کے بول کیاہی خوبصورت انداز پیش کررہے تھے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فنکار قسم کے صحافیوں کو اپنی آواز کا جادو جگانا چاہیے لاہور پریس کلب کو اس حوالہ سے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جو صرف صحافیوں کے اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو سامنے لائے اور پھر انہیں پرموٹ کرنے کا زریعہ بنے یہ صرف لاہور پریس کلب میں ہی نہ ہو بلکہ ملک کے ہر کلب کے اندر ایسی گائیکی کی محفلیں سجنی چاہیے ان خوبصورت آوازوں کو دبنا نہیں چاہیے بلکہ کھل کر اپنے جذبات کا ظہار کرنا چاہیے لاہور پریس کلب تو ویسے بھی فنکاروں کی دل وجان سے عزت واحترام کرتا ہے انہیں پرموٹ کرنے کا کام سر انجام دیتا رہتا ہے مگر ہمارے اندر جو فنکار بیٹھے ہوئے ہیں انکے نام بھی ایک شام ہونی چاہیے انہیں عزت دینی چاہیے یہ ہمارا فخر ہیں خاور بیگ اور شہزاد فراموش جو گانا گا رہے تھے جسے بے اختیار سننے کو دل کیے جارہا تھا اس گانے کے شاعر اسد بھوپالی تھے جو 10 جولائی 1921 پیدا ہوئے اور 9 جون 1990 فوت ہوگئے 69سال کی کی عمر پانے والے اس ہندوستانی شاعرنے فلموں کے لیے ایسے ایسے گیت لکھے جو امر ہوگئے فلم ''استادوں کے استاد'' کے لیے لکھا ہوا یہ گانا تب سے لیکر آج تک سدا بہار ہے جس کی وجہ سے یہ فلم آج بھی یاد ہے اس گانے کے میوزک ڈائریکٹر روی ہیں اسد بھوپالی بھوپال میں بطور اسد اﷲ خان پیدا ہوئے وہ عربی اور فارسی زبانوں کے استاد منشی احمد خان کے بڑے فرزند تھے1949 میں اسد بھوپالی کو بمبئی (اب ممبئی) کی فلم پروڈیوسر جوڑی فضلی برادرز نے تلاش کیا کیونکہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان کی فلم دنیا کے گیت نگار آرزو لکھنوی پاکستان ہجرت کرگئے اور اس وقت تک فلم کے صرف دو گانے لکھے جا چکے تھے فضلی برادران نے اپنی فلم کی تکمیل کے لیے نئے گیت نگاروں کی تلاش شروع کردی تب بھوپال میں چند سنیما تھیٹروں کے مالک تاجر سوگم کپاڈیہ نے انہیں بتایا کہ بھوپال میں بہت اچھے شاعر ہیں اور انہوں نے مشورہ دیا کہ ہم ایک مشاعرہ رکھتے ہیں جس میں یہاں کے تمام شاعروں کو دعوت دینگے اور پھر اسی مشاعرہ کے بعد سبھی شاعروں سے ملاقات بھی ہو جائیگی فضلی برادران نے اس تجویز سے اتفاق کیا جسکے بعد کپاڈیہ نے 5 مئی 1949 کو اپنے بھوپال ٹاکیز میں ایک مشاعرہ کا انعقاد کیا اسد بھوپالی کی کارکردگی سے متاثر ہو کر پروڈیوسروں نے انہیں بمبئی مدعو کیا 28 سال کی عمر میں اسد بھوپالی نے 18 مئی 1949 کو ہندی فلم انڈسٹری میں گیت نگار بننے کے لیے بمبئی کا سفر کیااسد بھوپالی نے فضلی برادران کی فلم دنیا (1949) کے لیے دو گانے لکھے رونا ہے تو چپکے چپکے (محمد رفیع نے گایا) اور ارمان لوٹے، دل ٹوٹ گیا (سرایا نے گایا) اگلے سال اس نے چند فلموں کے لیے مزید گانے لکھے یہ گانے لتا منگیشکر اور شمشاد بیگم نے گائے تھے اسد بھوپالی نے بی آر چوپڑا کی افسانہ (1951) کے لیے 5 گانے لکھے۔بھوپالی نے کئی نامور میوزک ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا انہوں نے لکشمی کانت پیارے لال کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم پارسمنی کے لیے مقبول گانا وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے لکھا جسکے بعد انہوں نے بڑی تعداد میں فلمی گیت لکھے جنہیں اوشا کھنہ نے کمپوز کیا۔ 1949 سے 1990 تک انہوں نے سو فلموں کے لیے تقریباً 400 گانے لکھے تاہم وہ مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، جان نثار اختر اور راجندر کرشن جیسے اعلیٰ گیت نگاروں کی طرح کامیاب نہیں ہوئے مگر ان سے بہت زیادہ پیچھے بھی نہیں رہے اسد بھوپالی ان گیت نگاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے 1989 کے میوزیکل ہٹ میں نے پیار کیا کے لیے گیت لکھے جسکے تھوڑے عرصہ بعد ہی وہ فالج کا شکار ہو گئے جسکے بعد انہیں انکے گھر والے بھوپال لے گئے 1990 میں انہیں دل دیوانہ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ ملا لیکن ایوارڈ کی تقریب میں شرکت نہ کر سکے اسد بھوپالی کا انتقال 9 جون 1990 کو بھوپال میں ہوا انہوں نے رنگ زمین کے لیے گیت لکھے جو کہ ان کی موت کے بعد 1992 میں ریلیز ہوئی تھی ان کی شاعری کا مجموعہ روشن، دھوپ، چاندنی، 1995 میں بھوپال کی اردو اکادمی نے شائع کیا تھااسد بھوپالی نے دو شادیاں کیں عائشہ کے ساتھ ان کی پہلی شادی ہوئی جن سے دو بیٹے (تاج اور تابش) اور چھ بیٹیاں ہیں غالب اسد بھوپالی ان کی دوسری بیوی سے ہیں جو فلمی مصنف اور گیت نگار ہیں جنہوں نے بھنڈی بازار انکارپوریٹڈ اور ممبئی مرر جیسی فلمیں لکھیں اسد بھوپالی کے چھوٹے بھائی قمر جمالی بھی اردو کے نامورشاعرہیں ۔لاہور پریس کلب کی لائبریری میں گایا جانے والا گانا اگر میں نہ سنتا تو مجھے کیسے معلومہوتا کہ خاور بیگ بھی اچھا گلوکار ہے میں سمجھتا ہو کہ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی چوہدری پرویز الہی فن اور فنکار کو پرموٹ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے خصوصی فنڈز بھی رکھے ہوئے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ وہ ہر پریس کلب کو صرف صحافیوں کے اندر چھپے ہوئے فنکار کو باہر نکالنے کے لیے یہ فنڈز پریس کلب کو دیں ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے بھی کوئی آنے والے وقتوں میں محمد رفیع سے بڑھ کر فنکار نکل آئے ۔
 
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 509576 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.