نَحْمَدُہٗ ونُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
۔
میرے مُحسِنین ۔
1 - خالِقِ ارض و سَما،مُحسِنِ اَعظَم ؛
اَللّٰہ جَلَّ جَلَالُہٗ عَمَّ نَوَالُہٗ کا کرم و احسان ہے کہ اُس نے مجھے
بے شمار نعمتوں سے نوازا ۔ بَطنِ مادر سے تا حال اس کی اتنی کرم نوازیاں
ہیں کہ اس کا شکر ادا کرنے کے لیۓ الفاظ تو کیا ، سانسیں بھی کم ہیں ۔ اس
عارضی دنیا میں جب سے اۤنکھ کُھلی،اُس کی مُحبّت اور کرم نوازی پال رہی ہے
۔اندہیروں میں خوراک وسانس مُہَیّا کرنا میرے رب کے سوا کس کے بَس میں ہے ؟
اس عارضی و فانی دنیا میں آتے ہی پہلی آواز میرے منہ سے رونے کی نکلی ۔ یہ
اس لیۓ کہ اَللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ یہ جگہ جی لگانے کی
نہیں ،بلکہ غم واندوہ کا مرکز ہے ۔ یہاں سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے ۔ میرے
غم کا پہلا مداویٰ میرے ربّ نے میرے کانوں میں اپنے ذکرِ عالی کے بلند
کروانے سے کیا اور یہ بتا دیا کہ تمام غموں کا علاج یہی ایک نُسخہ ہے ۔
غیرشعوری ،نادانی اور ناسمجھی کی اس عمرمیں شرعی حکم کے تحت میرے کانوں میں
اَللّٰہُ اَکۤبَرُ کے ساتھ اَشۤھَدُ اَنَّ مُحَمَّداًرَّسُوۤلُ اللّٰہِ کی
صدا بھی بلند کی گئی۔اس کا مقصود یہ ہیکہ کامیابی کے لیۓ ایمان بِاللّٰہ کے
ساتھ ایمان بِالرّسول بھی لازمی ہے ۔ اور یہ سمجھانے کے لیۓ کہ یقین کی
سلامتی کے ساتھ عمل کی درستگی لازم ہے ، اور عمل کی اصلاح اعمالِ رسول سے
ہی ممکن ہے ۔ یوں میرے خالق و مربی نے میرے اوپر احسانات میں انگنت اضافہ
کر دیا ۔
2- رَحمَۃٌ لِّلۤعٰلَمِین حضور نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ
مجھے اپنے اس محسن کا علم غیرشعوری زمانے میں نہیں تھا ، لیکن اپنے ماں باپ
اور اساتذہ سے ان کے بارے میں سنتے سنتے یہ یقین سا ہو جاتا تھا کہ یہی
ایسی ہستی ہیں جو رب تعالیٰ کے بعد احسانات کا بحر بیکراں ہیں ۔ جب شعور
بیدار ہوا، تو یہ جانچنا مشکل نہیں رہا کہ :اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید
میں اپنے لیۓ رَبُّ الۤعالَمین اور حضور سرورِ کائنات کے لیۓ رَحمَۃ
لِّلعالمین کی صفات ذکر کی ہیں : میرے اس جسد خاکی کے اس عارضی دنیا میں
ظہورپر جہاں رب تعالیٰ کی کرم نوازیاں کرم فرما ہیں ، وہاں حضورﷺ کی رحمت
بھی کار فرما ہے۔ کیوں کہ اس عالَمِ فانی میں اگر آپ ﷺ کے وجودِ با سعود کا
ظہور نہ ہوتا ، تو اس کائنات کا نقشہ بھی نہ ہوتا اور ہم نے بھی پیدا نہیں
ہونا تھا ۔
جہاں جہاں ربّ تعالیٰ کی ربوبیَّت کارفرما ہوتی ہے ، وہاں ہی آقا حضور
پُرنور ﷺ کی رحمت بھی ساۓ کی طرح ساتھ ہوتی ہے ۔ نماز کی ابتداء ثناء سے ہے
تو اختتام درود و دعا پر، عام فہم بات ہیکہ رَبُّ العالَمین اور رَحمَۃ
لِّلعالَمین میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیں ، دوسرا خود ہی ہاتھ سے نکل جاتا
ہے ۔ حقیقی بات یہ ہیکہ خالِقِ ارض وسماء رَبُّ العالمین کے احسانِ عظیم کے
بعد اگرمخلوق میں کسی کا احسان عظیم ہے تو وہ خاتَمُ الاَنبِیاء حضرت
محمَّد مُصطَفیٰ ﷺ کا ہے ، جِن پر درود بہیجنے سے رب تعالیٰ 10 رحمتیں نازل
فرماتے ہیں ۔ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ ﷺ 3 - میری ماں
جب تک شعور نہیں تھا تو رب تعالیٰ نے ماں باپ اور اقرباء کے دل میں محبت
ڈال دی ۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ گرنے نہیں دیا،بلکہ گرنے کاموقع ہی نہیں
آنے دیا۔
میری ماں کا صرف یہ کردار نہیں کہ اس نے مجھے دودھ پلایا، بلکہ یہ بھی ہیکہ
اس نے میرے رگ و ریشے میں انسانیت کی محبـّت،عزّت،احترام،قدراورخدمت بھی
کوٹ کوٹ کے بھر دی ۔ دکھ سہنے، خِلافِ طبع باتوں کو برداشت کرنے، ضرورت
مندوں کی ضرورت کو پورا کرنے ، گرتے کو تھامنے ،بےسہاروں کو سہارا دینے
،غمزدہ کے غم کو ہلکا کرنے،اہلِ محلّہ کے ساتھ دکھ سکھ میں شریک ہونے، مدد
خواہوں کی اِمداد کرنےاوربِلاتفریق وبےلوث خدمت کا
جذبہ،احساس،لگاؤ،حوصلہ،ہمّت اور طریقہ بھی میری ماں کا ہی مرہونِ مَنّت ہے
۔
وہ کون سا علاقہ ہے جہاں اپنے بھی دشمنوں کےروپ میں سامنے نہ آتےہوں،ایسے
حالات میں ایسا رویّہ اختیارکرنا کہ مخالفین ودشمن بھی داد دیں،ایسی تربیّت
صرف ماں کی درسگاہ میں ہی حاصل کی جا سکتی ہے ، بس ۔
نماز کی ادائیں ،تلاوت کی شیرینی، اللہٗ کی لوری ، کلمۂ طیّبہ کا ورد ،درود
شریف کی چاشنی ، نظم کی صورت میں ایمانیات کا حفظ کیسے بھول پائیں ؟، ﷽ سے
کام کا آغاز اور اَلْحَمْدُلِلّٰہ سے اِختِتام ، ان کاموں کے استاذ مسجد کے
قاری صاحب بعد میں اور ماں پہلے ہوا کرتی ہے ۔
گھر سے باہر خواہ کتنی ہی خوشی سے ، کتنا ہی عمدہ ااور قیمتی و ذائقہ دار
کھانا کیوں نہ کھا لیں ، اپنی ماں کے ہاتھوں کی پکّی ہوئی دال مونگ کے
مقابلے میں کوئی حیثیّت نہیں رکھتا تھا ۔ ایّامِ طفولیّت میں اگر کبھی
بیمار ہو جاتے توڈاکٹر کی دوائی کے بجاۓ ماں کے فرطِ مُحبّت سے چہرے پر
پھرتے ہاتھوں سے شفاء مِلا کرتی تھی ۔ وہ ماں ہی ہے ،جو کچھ نہ ہوتے بھی سب
کچھ ہوا کرتی تھی ۔ تبھی تو اللہ کے رسول محبوبِ کُل جہاں حضرت مُحمدﷺ نے
ماں کے پاؤں کی اہمیت بیان کی ، یہ ارشاد فرما کر کہ، اَلۤجَنَّۃُ تَحۤتَ
اَقدَامِ الۤاُّمَّھَات ،کہ جنّت ماں کے قدموں میں ہے ۔
4- میرے والد محترم
اپنے والدِ محترم سے کیا کچھ نہیں سیکھا ؟ ہمیشہ ماں کا بوسہ باپ کی جُدائی
کے خانہ کوپُر کرتا رہتا ہے ، اور یہ ایسا نقطہ بتا رہا ہوں جس کی طرف بڑے
بڑے ادیبوں کی نظر بھی نھیں جاتی ۔ باپ کے گھر سے دور ہونے کا صدمہ ماں کی
گود میں لیٹے ، ماں کی آنکھوں سے گرتے آنسؤں سے ہلکا ہوا کرتا ہے۔
والِد وہ ہستی ہے، جو جسمانی طور پر تو اولاد سے دور ہوتا ہے ، لیکن اس کی
تمام ترتوجُّہ ہمیشہ اولاد کی طرف ہی رہتی ہے ۔ میرے باطِن کی اِصلاح میں
اگر میری ماں کا کِردار ہے تو بِلا مُبالغہ میرے ظاہر کے سنوارنے میں میرے
والد کا ثانی کوئی نہیں ۔ کبھی کبھار باپ کا گھر آنا، اور فَرطِ محبّت سے
گود میں اُٹھانا اور صرف گود میں نہیں بلکہ مونڈھوں تک اور سَر سے اوپر لے
جانا ،یہ سب کچھ والد کا اپنی اولاد کو اونچا ظاہرکرنے کی علامت ہوا کرتی
ہے ۔
کڑکتی دہوپ میں جانفشانی ، برستی بارش میں گھر کی طرف دوڑ، کون ہے جو اس
اندازِمحبت کو الفاظ کے پیراۓ میں پرو سکے ؟ باپ کا بوسہ اور چپیڑ دونوں کو
ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جاۓ تو رکھا جا سکتا ہے ، کیونکہ باپ کی چپیڑ
دشمنی کی بنا پر نہیں ہوتی ، بلکہ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے
سے اپنی خواب کی تعبیر پوری ہوتے ہوۓ نہیں دیکھ رہا ہوتا تو اپنے جسم کی
مشقّت کا ایک جھونکا اپنے بیٹے یا بیٹی کے منہ پربرساتا ہے ، کہ یہ مشقّت
تم سے کوئی اور امید باندہے ہوۓ ہے اور تم کچھ اور کر رہے ہو ۔ بچپن کے
زمانے میں والد کا لایا ہوا ایک کھلونا ، خوشی کو ایسے دوبالا کر دیتا تھا
کہ ایسی خوشیاں شاید ساری کائنات کی خاک کھنگالنے سے بھی حاصل نہ ہوں ۔
والد کمائی کی خاطر گو کہ کوسوں میل دور محنت مزدوری کی مشقت اور تھکاوٹ سے
چکنا چور ہو، لیکن اس کا دِل و دماغ سدا اپنے بیوی بچوں کے پاس ہوتا ہے اور
انہیں سکون پہنچا رہا ہوتا ہے ۔ وہ میرا والد ہی تو ہے جو گھر میں داخل
ہوتے ہی اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیۓ مجھے گود میں اٹھایا کرتا تھا ۔
5 - بہین بھائ
دیکھنے میں تولڑائی کا مرکز،شوروغل کی فیکٹری ، مارکٹائی کی جاۓ مشق ، ہاۓ
ووۓ ، واویلا ، مار دھاڑ، چیخ و پکار،طعنے،گالم گلوچ کی عکاسی ہوتی ہے ،
لیکن حقیقت میں بہین بھائی ہی ایسا رشتہ ہے ، جس میں اپنائیت ہے ، احساس
ہے،شعور ہے ، جوش ہے ، جنون ہے ، جذبہ ہے، لگاؤہے ، پیار ہے اور احساس
ہمدردی ہے ۔
والدین کے بعد بہین بہائی ایسے محسن ہوتے ہیں کہ ان کا ثانی کوئی نہیں ملتا
، اتفاقی بات یہ ہیکہ جب بہین بہائیوں کی آپس میں لڑائی ہوتی ہے تو عموماً
یہ لڑائی آنسوؤں بہانے اورجذباتِ محبت کے اظہار میں ختم ہوا کرتی ہے ۔ آدھا
گھنٹہ پپہلے کی لڑائی ، آدھا گھنٹہ بعد ایک دوسرے کے پہلو کے ساتھ پہلو ملا
کر کھیل کی صورت میں بدل جایا کرتی ہے ۔ یہی وہ کیفیت ہے ، جو انسان کو یہ
درس دیتی ہے کہ زندگی لڑائی جھگڑے کو طول دینے سے نہیں ، بلکہ باہمی الفت و
محبت کو پروان چڑھانے سے بیتا کرتی ہے ۔ دیکھو، امّی وہ میری جگہ بیٹھ گیا
، میں اسے بلا رہا ہوں وہ آ نہیں رہا ، میں اس جگہ پہلے بیٹھا ہوا تھا، جس
چارپائی پر وہ سوتا ہے اس پر آج میں سوؤں گا ، اس طرح کی شکایات آپس کی
نفرتوں کی وجہ سے نہیں ، بلکہ شدید محبت کی وجہ سے ہوا کرتی ہیں ۔ ان
اعتراضات میں در حقیقت اس بات کا احساس امڈ رہا ہوتا ہے کہ شاید میرے بھائی
یا بہین کی منتخب جگہ کس قدر اہم ہیکہ مجھے یہاں بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا
اور یہ ہمیشہ اس جگہ پر قبضہ کیۓ رہتا ہے ، مجھے بھی اس سکون والی جگہ
بیٹھنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ بہین بھائی ایک دوسرے کو چپیڑیں ، مُکّے اور
لاتیں مار کر بھی احساس ہمدردی دے رہے ہوتے ہیں ۔ جس گھر میں بہین بھائی نہ
ہوں وہ ایسے ہوتا ہے ، جیسے ایسا چمن جہاں پرندوں کی کوئی آواذ سنائی نہ دے
رہی ہو ، اور ایسے چمن کو سپردِ نار کرنے کا جی چاہتا ہو ۔ میرے بہین بھائی
میرے لیۓ وہ محسن ہیں ، جن سے میں نے لڑائی کے باوجود کھانا، پینا
،پہننا،سونا اور اُٹھنا بیٹھنا سیکھا ۔ لڑائی کےباوجود پیار بھری
گفتگواورمحبت کے جذبات کا اِظہار کرنا سیکھا ۔
6 – میرے اساتِذہ
بول چال روانی کے ساتھ شروع ہو جاۓ تو والدین سکول کی راہ دکھا دیتے ہیں ،
اور شام یا صبح یا دونوں اوقات میں مسجد کی طرف منہ کر کے چھوڑ دیتے ہیں ۔
ان دونوں جگہوں میں دوستوں اور اساتذہ سے واسطہ پڑتا ہے ۔ پہلے دو تین دن
تو اساتذہ لاڈ پیار اور بوس و کنار سے پیش آتے ہیں ۔رفتہ رفتہ ان کی نرمی
سختی میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے ، کبھی ہوۓ ، کبھی ووۓ ، کبھی چل ،
کبھی اُٹھ ، کبھی دفعہ ہو، کبھی مَر ، کبھی سُنتا نہیں ؟ ، کبھی دیکھتا
نہیں ؟ ، کبھی سمجھ نہیں آتی تجھے ؟ ، کبھی تو کیا چیز ہے ؟ ، کبھی تیرا
دماغ نہیں کام کرتا ؟ کبھی ، ٹھہر میں تیرا علاج کرتا ہوں اور کبھی تجھے
انسان بنانا ہی پڑے گا ، جیسے مختلف طرح کے کچھ حوصلہ افزاء ، کچھ حوصلہ
شکن ، کچھ پیار بھرے ، کچھ نفرتیں ٹپکتے ، کچھ مشفقانہ ، کچھ ظالمانہ
اورکچھ سِسکیاں لینے پر مجبور کرنے والے اور کچھ خوشی کے آنسوؤں ٹپکانے
والے الفاظ سننے کو ملتے ہیں ۔
لیکن یہ سارا کچھ اس وجہ سے نہیں ہوا کرتا تھا کہ استاذ اناڑی ہیں یا دشمن
ہیں ، بلکہ اس وجہ سے کہ استاذ کی نگاہ میں زندگی کا سارا منظر ہوتا ہے
،اور وہ اپنے شاگرد کو د نیاکے ہر طرح کے ماحول سے مقابلہ کرنے کے لیۓ تیار
کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہیکہ عِلم و جَہل میں فرق ہے اور علم کسی استاذ
کے سامنے اپنے من کو فدا کیۓ بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔
استاذ کی بول چال ، استاذ کا طرز و انداز ، استاذ کی سوچ ، استاذ کی محنت ،
استاذ کی محبت اور استاذ کی قربانی ہر شاگرد کے لیۓ دنیا کے ہر پلیٹ فارم
پر کامیابی کا زینہ ثابت ہو تی ہے ۔ حقیقت یہ ہیکہ اگر میرے محسنین کی صف
میں اساتذہ کا نام نہ ہوتا ، تومیں انسان نما جانور ہوتا ۔
7-میرے اَقرِباء
جوں جوں رفتار میں تیزی آتی ہے ، بول چال مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جاتی ہے ،
کچھ چھلانگیں لگانے کی عادت بھی پروان چڑھتی ہے ، اشیاۓ ضرورت کی فراہم اور
مہیا کرنے کی غرض سے آس پاس کے لوگوں سے میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے، تو
پہلے پہل جن لوگوں سے پالا پڑتا ہے وہ اپنے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ۔
کبھی غم کے بادل ، کبھی خوشیوں کے ساۓ ، کبھی انانیت ، کبھی اپنائیت ، کبھی
تم ہو، کون ؟، کبھی ، ہم تمھارے ہیں ، کبھی، تم سے کوئی امید نہین ہے ،
کبھی ، تم ہی تو ہمارا سہارا ہو ، کبھی تمھاری وجہ سے اور کبھی تمھارے ہی
لیۓ کے متضاد الفاظ ، کچھ حقیقت پر مبنی اور کچھ طنزیہ انداذ جن لوگوں سے
سننے کا موقع ملتا ہے ، انہی کو رشتہ دار اور اقرباء کہا جاتا ہے ۔
انسانی صف میں یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں ، جنہیں نہ چھوڑ کر گزارا ہوتا ہے اور
نہ ان میں ڈوب کر ۔ نہ ان سے کچھ مانگا جا سکتا ہے اور نہ بن مانگے نظام
چلتا ہے ، نہ ان کے ساتھ ، نہ ان کے بغیر ، جب یہ پاس نہ ہوں تو بہت یاد
آتے ہیں اور جب یہ پاس ہوں تو بہت ستاتے ہیں ، ان کو بھلانا چاہیں تو بھول
نہیں پاتے اور ان کو یاد کریں تو آنسوؤں ایسے رواں ہو جاتے ہیں ،کہ تھمنے
ہی نہیں پاتے ، کسی شاعر نے بھی ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر یہ شعر کہہ
ڈالا ، ؏
جل جاؤ کھڑے دھوپ میں، لیکن
اپنوں سے کبھی سایہ دیوار نہ مانگو ،
لیکن، سو نہیں ، ہزاروں خامیوں کے باوجود رشتہ دار وہ ہستیاں ہیں جو میرے
محسنین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ، ان سے اگر میں نے کڑوا گھونٹ پینا
سیکھا ہے ، تو یہی وہ لوگ ہین جن سے میں نے ہمدردی اور اچھے برے کا امتیاز
بھی سیکھا ہے ۔
8 — میرے دوست
کہتے ہیں کہ غریب وہ نہیں کہ جس کے پاس پیسہ نہ ہو بلکہ غریب وہ ہے جس کے
دوست کم ہوں ۔ یہ بات کس حد تک ٹھیک ہے ، اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا
سکتا ، لیکن ، یہ حقیقت ہے کہ اس د نیا میں رنگ رنگیلیاں صرف دوستوں کی
بدولت ہی ہیں ۔
دوست کہیں ڈوبتے کے لیۓ تنکے کا سہارا کا کردار ادا کرتے ہیں ، تو کہیں
اڑتے کو بھی منہ کے بل گرا دینے کا ۔ روٹھے ہوۓ کو گھر میں لا کر چھوڑنا
بھی دوست پر ختم اور ہنستے مسکراتے گھر میں بستے کو گلیوں میں لاچار کھڑا
کر دینا بھی دوست ہی جانتا ہے ۔ نشے سے ہٹا کر صحت مند زندگی کا راز بھی
دوست ہی دوست کو سکھاتا ہے ، لیکن صحت مند زندگی سے نشے کے راستے پر بھی
دوست ہی لے کر آتے ہیں ۔ اپنوں کا احساس بھی دوست ہی دلاتے ہیں اور اپنوں
سے دور بھی دوست ہی کرتے ہیں ۔ جہاں دوست مسجد میں لا کر کھڑا کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں ، وہاں مسجد سے نکال کر روڈوں پر بے یار و مدد گار کر کے
ڈالنے کا فن بھی دوست ہی جانتا ہے ۔ دوست پھول بھی ہے اور کانٹا بھی ،
خوشبو بھی ہے اور بدبو بھی ۔
لیکن ، ان سب باتون کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی
کہ دوست ہی ہے جو غم کو ہلکا کر سکتا ہے ۔
اصل ذات باری تعالٰی ہے ، جو مجھے اور ہر انسان کو سنبھالے رکھتا ہے ، اس
نے تو ہمارے سامنے اچھا برا رکھ دیا ، اب انتخاب ہمارا اپنا ہے ،
|