اندھیر نگری اور چوپٹ راج میں چور اور پولیس موجود ہوتی
ہے اور دونوں اپنا اپنا کام بھی کرتے ہیں لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ چوری کرتا
ہے مونچھوں والا اور داڑھی والے کو پکڑا جاتا ہے ۔ اس کی مثالیں ان ریاستوں
میں گاہے بگاہے نظر آجاتی ہیں جہاں بی جے پی کی صوبائی حکومت کے تحت پولیس
کام کرتی ہے۔ ان وزرائے اعلیٰ اس کی مثالیں بہت زیادہ نمایاں ہوتی ہیں جو
بہت اچھل اچھل کر کام کرتے ہیں مثلاًیوگی یا سرما وغیرہ۔ آسام کے بونگائی
ضلع کے کبائتری گاؤں میں 1985 سےقائم مرکز المعارف کوریانہ کے مدرسے
کوسرکاری انتظامیہ نے 31 اگست کو منہدم کر دیا ۔اس سے قبل 26 اگست کو آسام
پولیس نے اس مدرسے کے استاد حفیظ الرحمان مفتی کو شدت پسند سرگرمیوں میں
ملوث ہونے کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا تھا۔ان پر القاعدہ برصغیر ہنداور
انصار اللہ بنگلہ ٹیم جیسی انتہا پسند تنظیموں کے لیے کام کر نے کا الزام
لگایا گیا تھا۔ ان کے پاس شواہد کے طور پر کچھ لٹریچر ملا ۔ لٹریچر کیا ہے؟
یہ کہاں سے آیا ؟ اس کا کیا ستعمال ہوا ؟ کوئی نہیں جانتا اس کے باوجود
گرفتاری ہوگئی۔ بفرضِ محال وہ واقعی ان دہشت گردتنظیموں سے منسلک ہیں تو ان
کی سرگرمی کے پیش نظر کارروائی ہوسکتی ہے مگر مدرسے کو منہدم کردینا سراسر
ظلم ہے لیکن اگرہیمنت بسوا سرما یہ سب نہ کرے تو ان کی اندھیر نگری چوپٹ
راج والے لقب پر آنچ آتی ہے اور وہ اس کی خاطر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
کبائتری گاؤں کی آبادی تقریباً 3500 ہے۔ اس میں 90 فیصد سے زیادہ مسلمان
ہیں اور یہ علاقے کا واحدعوامی مدرسہ تھا جہاں گذشتہ سال 224 طلبا نے داخلہ
لیا ۔ موجودہ سرکار دو منہ والے سانپ کی مانند ہے یہ لوگ ذرائع ابلاغ میں
دہشت گردی کا شور مچاتے ہیں لیکن چونکہ اس کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں
ہوتا اس لیے عدالت میں جا کر کہتے ہیں کہ عمارت غیر محفوظ تھی اور اس کی
تعمیر کے وقت ضابطوں کی خلاف ورزی ہوئی تھی لہٰذا ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ
اتھارٹی نے انہدام کا حکم جاری کیاہے ۔ مدرسے کا انتظامیہ اس کی تردید کرتا
ہے۔ اس کو اپنی بات پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا چوروں کی مانند
پولیس کا رات کے وقت مدرسہ خالی کرنے کے لیے آنا اور صرف تین گھنٹے کا وقت
دے کر اسے توڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ گاؤں والوں نے اپنے کھیتوں کا دھان
بیچ کر اس مدرسے کی تعمیر کے لیے پیسے دیئے تھےاور یہ گاؤں کے لوگوں کی مدد
سے چل رہا تھا۔
ملک کی کئی ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومت ہے وہاں بھی مدرسے ہیں مگر نہ
کوئی القائدہ ہے اور نہ دہشت گردی کا نام و نشان پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے
کہ بی جے پی والے صوبوں میں یہ سرکاری ڈرامہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا ہندو
سماج میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرکے خود کو ان کا محافظ اور نجات دہندہ
ثابت کرنے کی یہ مذموم کوشش ہے؟ جہاں تک شدت پسندی کا تعلق ہے اس میں تو
ہندو انتہا پسندتنظیمیں پیش پیش ہیں ۔ پچھلے دنوں آسام کے اندر ایک سرکاری
فوٹو گرافر کو لاش کے اوپر کودتے ہوئے دیکھا گیا تھا ۔ کیاوہ درندگی کسی
مدرسے میں سکھائی گئی تھی اور اس کو سکھانے وا لے کتنے ودیا مندرمنہدم کیے
گئے؟ آسام کے علاوہ اتر پردیش میں مدرسوں کے سروے کا معاملہ گرم ہورہا ہے۔
وہاں سے پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کے قتل کی دھمکی ٹوئیٹر پر
آئی ۔ ایک شخص نے یوگی کے قاتل کی خاطر دوکروڈ روپئے کے انعام کا اعلان
کیا ۔ پولیس کو فریب دینے کے لیے اس اپنے ڈی پی پر پاکستانی پرچم لگا رکھا
تھا۔ پولیس کی تفتیش میں پتہ چلا کہ اس حرکت کا ارکاب کرنے والا شخص مراد
آباد کا رہائشی سنجے شرما ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اسے کسی مدرسے
کی تعلیم نے یہ سازش رچنے کی تربیت دی تھی ؟ اگر نہیں تو ان اداروں کو
تفتیش کیوں نہیں کی جا تی جنہوں نے اسے اس جرم کے لیے ابھارا؟ ؟ ان کے
دفاتر پر بلڈوزر کیوں نہیں چلتا؟اس کی وجہ ملک میں جاری اندھیر نگری اور
چوپٹ راج ہے۔
سنگھ پریوار کا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کی
ماحوال سازی کرتاہے کسی نہ کسی انکشاف سے خود اس کا پول کھل جاتا ہے۔ مدارس
کو دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم کوشش کے درمیان یشونت شندے نامی ایک سابق
سنگھی کارکن نے ناندیڑ کی مقامی عدالت میں۲۰۰۶ بم دھماکہ پر حلف نامہ داخل
کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ اب وہ مقدمہ میں گواہ کی حیثیت سے پیش ہونے کی
اجازت کا خواہشمند ہے۔ اس نے اپنے اس قدام کی یہ وجہ بتائی کہ وہ دہشت گردی
کے ذریعے پورےہندوسماج کو بدنام کرنے والی طاقتوں کو بے نقاب کرنا چاہتاہے۔
یہ دھماکہ تروڈا گرام پنچایت کے پاٹ بندھارے نگر میں ہو اتھا اور اس میں بم
بناتے ہوئے ۲؍ افراد ہلاک ہو گئے تھے ۔
یشونت شندے دراصل سنگھ کے گھر کا بھیدی ہے۔ وہ آر ایس ایس ،وی ایچ پی اور
بجرنگ دل کے اندر مختلف عہدوں پر فائز رہا ہے ۔ یشونت شندے کا تعلق ممبئی
سے ہے ۔۱۹۹۰ء میں وہ آر ایس ایس ،وی ایچ پی اوربجرنگ دل سے وابستہ ہوا ۔
۱۸؍ سال کی عمر میں اس نے ٹی وی پر جموں کشمیر میں دہشت گردی سے متاثر ہوکر
سنگھ سے اپنا رشتہ جوڑا۔ ۱۹۹۴ء میں وہ جموں کشمیر چلا گیا اور وہاں پر آر
ایس ایس کے ریاستی پرچارک سے ملاقات کی ۔ انہوں نےاسے ’وستارک‘(توسیع کرنے
والے)) کی حیثیت سے راجوری اور جواہر نگر کے سرحدی علاقوں کی ذمہ داری سونپ
دی۔ اپنے کام کے دوران یشونت شندے نے ایک مقامی لیڈر کے چہرے پرحملہ کردیا
۔اس کو گرفتاری اور ایف آئی کے بعد تفتیش کیلئے جموں کشمیر کےدہشت گردی
مخالف شعبے کے سپرد کیا گیا۔۱۲؍ دن بعد ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اس پر
مقدمہ چلایا گیا اور۱۹۹۸ء میں اسے سزا ہوگئی ۔
اپنے کام کے دوران درخواست گزار نے ۱۹۹۴ میں آر ایس ایس کی ابتدائی
اور۱۹۹۷ء میں چندی گڑھ کے اندر دوسرے مرحلے کی ٹریننگ حاصل کی ۔ ان مرحل سے
گزرنے کے بعد اسے جمو ں کشمیر کے اودھم پور ضلع میں پرچارک مقرر کیا
گیا۔۱۹۹۹ء میں ممبئی لوٹ کر اس نے بجرنگ دل کے صدرسے ملاقات کی ۔اس دوران
اسے آر ایس ایس ،وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے ذریعہ بم سازی کی تربیت کا علم
ہوا۔ شندے کے مطابق ناندیڑ بم دھماکہ کے ملزم ہمانشو پانسے کو پونے کے سنگھ
گڑھ میں بم بنانے کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ وہ کود بھی اس میں شریک تھا۔
ہمانشو پانسے کی تربیت ناقص تھی اس لیے وہ بم بناتے ہوئے اپنے ایک رفیقِ
کار کے ساتھ ہلاک ہوگیا ۔اس سانحہ سے اگر یہ راز فاش نہ ہوتا تو نہ جانے وہ
لوگ کتنے دھماکے کرتے ۔ ان بم دھماکوں کے الزام میں میڈیا کی مدد سے یوگی
اور سرما جیسے لوگ نہ جانے کتنے بے قصور مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں کے
پیچھے بھیج دیتے۔ یہ ہے زعفرانی دہشت گردی کی حقیقت اور مدارس کا فسانہ ۔
اس تناظر میں بہار کی ہندوستانی عوام مورچہ نے بہار میں آر ایس ایس دفاتر
کے سروے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ہندوتوا تنظیم ریاست میں
فسادات بھڑکانے کے لیے دھماکوں کا استعمال کر سکتی ہے۔ ایچ اے ایم کے
ترجمان دانش رضوان نے دعویٰ کیا بہار حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں
آر ایس ایس دھماکے کرواسکتی ہے۔ اس لیے انہوں نےنتیش کمار سے مطالبہ کیا کہ
وہ بہار میں آر ایس ایس کے تمام دفاتر کا سروے اور تحقیقات کا حکم دیں
کیونکہ انہیں یقین ہے کہ بہار میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد آر ایس ایس نئی
حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ریاست میں دھماکے اور دہشت گردانہ
سرگرمیوں کو فروغ دے گی۔دانش کا یہ بیان مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے ریاست
میں مدارس کے سروے کا مطالبے کے جواب میں آیا۔گری راج سنگھ نے اپنی عادت
کے مطابق یہ اوٹ پٹانگ الزام لگا دیا کہ بہار کی سرحدیں نیپال، بنگلہ دیش
اور بنگال کے ساتھ ملتی ہیں اس لیے ریاستی حکومت کو ان تمام علاقوں میں
مدارس اور مساجد کا سروے کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ بنگال کو بھی
بنگلا دیش یا نیپال کی مانند پڑوسی ممالک میں شمار کرتے ہیں نیز کیا انہیں
سابقہ ہندو راشٹر نیپال سے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے؟ مدارس کے خلاف اول فول
بکنے والوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر بھی دیکھ لینا چاہیے۔ ان احمقوں کا
حال یہ ہے کہ دھول سے خود ان کا چہرہ اٹا پڑا ہے اس کے باوجود آئینے کی
صفائی و ستھرائی کے لیے فکر مند ہوئے جارہے ہیں ۔ اس طرح کچھ ووٹ تو مل
جائیں گے مگر یہ کھیل زیادہ دیر نہیں چلے گا کیونکہ کسی بھی انسان کو بہت
دنوں تک بیوقوف نہیں بناسکتا ہے؟ فی الحال زعفرانی اس کوشش میں بہت حد تک
کا میاب ہیں لیکن بہت جلد ان کا بوریا بستر گول ہوجائے گا کیونکہ جھوٹ اور
افتراء پردازی پر قائم عمارت بہت جلد زمیں پر آرہتی ہے۔
|