طلاقِ سنیاس کی دلچسپ واردات

وطن عزیز میں خواتین کے مسائل اور خاص طور پر ازدواجی مشکلات پر گفتگو کی ابتداء کثرت ازدواج سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد طلاق پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ شاہ بانو اور تین طلاق کا معاملہ زیر بحث آتا ہے، بالآخر یکساں سیول کوڈ پر جاکرتان ٹوٹ جاتی ہے۔ اس طرح مسلمان اور اسلام پر مختلف زاویوں سے تنقید کرکے لوگ خواتین سے ہمدردی اور یکجہتی کا حق ادا کردیتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا مسلم خواتین کے علاوہ باقی ’سب کچھ چنگا ہی چنگا ‘ ہے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہے۔ یہ بیانیہ غیر مسلم خواتین کے مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانے کی سازش کا ایک حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں ۔ ابھی حال عامر خان کی لال سنگھ چڈھا کے ساتھ اکشے کمار کی رکشا بندھن ریلیز ہوئی ۔ اس میں شک نہیں کہ دونوں فلمیں فلاپ ہوئیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ بین الاقوامی بازار میں لال سنگھ چڈھا اس سال کی سب سے کامیاب ہندی فلم رہی ہے۔ وہ 180کروڈ میں بنی اور کل ملاکر 187کروڈ کماچکی ہے۔ اس کے مقابلے رکشابندھن 70کروڈ میں بن کر تیار ہوئی اور اس کا کل کاروبار صرف 43 کروڈ رہا لیکن ذرائع ابلاغ ہر روز لال سنگھ چڈھا پر ایک تبصرہ آجاتا ہے اور اس کے پردے میں رکشابندھن کی ناکامی کو چھپا دیاجاتاہے۔ عامر خان کی بیوی کے ہندوستان چھوڑنے کی خواہش سے ناراض بھکت یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اکشے کمار نے ہندوستانی شہر یت چھوڑ کر کینیڈا کا پاسپورٹ لے رکھا ہے۔

وطن عزیز کے اندر تین طلاق پر تو ہر کوئی سمع خراشی کرتا ہے مگر سنیاسی کی طلاق پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا۔ اس تناظر میں مدھیہ پردیش کے بھنڈ میں ایک سنیاسی کانہایت پیچیدہ اور دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ اس میں ایک میاں بیوی18 ؍سال سے الگ رہ رہے ہیں ۔ 2008میں شوہر نے فیملی کورٹ میں رجوع کرکے طلاق کی درخواست داخل کی اور بتایا کہ اب وہ سادھو بن چکا ہے ۔ فیملی کورٹ نے اس کی درخواست کو خارج کردیا یعنی اسے طلاق دینے کا حقدار نہیں ٹھہرایا۔ وہ نہیں مانا اور اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ پہنچ گیا ۔ وہاں جج صاحب کو اس پر رحم آگیا اور انہوں نے طلاق نافذ کردی ۔ ہندو میرج ایکٹ 1955 کی شق 13 میں درج ہے کہ رہبانیت کی خاطر اگر کوئی دنیا کو چھوڑ کر سادھو بن جائے تو یہ بھی طلاق کی ایک بنیاد بن سکتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ اگر شوہر یا بیوی میں سے کسی ایک نے بھی رہبانیت اختیار کرلی تو اسے یکطرفہ طلاق مل سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے فیملی کورٹ کے جج اس سےنا واقف تھے لیکن ہائی کورٹ میں جانے کے بعد یہ مسئلہ حسبِ قانون حل ہوگیا مگر بیوی نہیں مانی اور وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئےسپریم کورٹ پہنچ گئی ۔ امسال 18 اگست کوسپریم کورٹ نے طلاق کو خارج کردیا یعنی ڈھاک کے تین پات کی مانند 14؍سال بعد بات وہیں پہنچ گئی جہاں سے چلی تھی

سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد ماہرین کی رائے کے مطابق اب شوہر دوبارہ عدالتِ عظمیٰ میں پھر سےاپیل کرسکتا ہے۔ اس بار اپنا آئینی حق حاصل کرنے کی خاطراسے نئے دلائل پیش کرنے ہوں گے۔یہ سہولت یکطرفہ اور باہمی رضامندی دونوں طریقوں سے حاصل کی جانے والے طلاق کے معاملے میں موجود ہے۔ مزید قانونی چارہ جوئی کے دوران وہ جوڑا نہ جانے کس کرب سے گزرے گا ۔ ویسے بھی وہ اس سے قبل مختلف عدالتوں کے چکر میں نہ جانے کتنا وقت اورتوانائی برباد کر چکا ہے ۔ ایسے میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ برسوں چلنے والا پریشان کن پیچیدہ نظام بہتر ہے یا طلاق حسن ؟ اس معمولی سے سوال کا جواب نہ مغرب زدہماہرین قانون کے پاس ہے اور ہندو نواز دانشوروں اسے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ان سب نے اسلام دشمنی کی عینک لگا رکھی ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا کہ خاوند سنیاسی بن چکا ہے۔ اس نے اپنی بیوی سے سارے رشتے توڑ لیے ہیں اور ایک طویل عرصہ سے الگ رہ رہے ہیں۔ قانونی طور پر اسے طلاق دینے کا حق حاصل ہے اس کے باوجود بیوی کو کیا پریشانی ہے اور سپریم کورٹ اس طلاق کو منظوری کیوں نہیں دے رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب آگے چل کر معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

اس مرحلے میں یکساں سیول کوڈ کی دہائی دینے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ اس شوہر کے معاملے میں ہندو کوڈ بل پر بھی عدالت عملدرآمد نہیں کرپارہی ہے لیکن غیر اعلانیہ ہندو راشٹر میں اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ آر ایس ایس خاموش ہے۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے عدالت کے سامنے کوئی مظاہرہ نہیں کیا اور شیوسینا یا ہندو مہا سبھا کو بھی اس میں دلچسپی نہیں ہے کیونکہ کوئی مسلمان فریق موجود نہیں ہے۔ ان کی رگِ حمیت اپنے دین کی خاطر نہیں بلکہ مسلمانوں کو اذیت دینے کیے پھڑکتی ہے۔ ان سارے لوگوں کو دلچسپی اس بات میں ہے کہ مسلمان کسی طرح اپنی شریعت پر عمل نہ کرسکیں جس کی جیسی تیسی شکل پرسنل کے طور پر موجود ہے۔ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر کو اپنے مذہب یا قوانین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لیے وہ اس کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور عدالتی خرد برد پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ اس کے برعکس مسلمان چونکہ دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں اس لیے جب کوئی مداخلت ہوتی ہے تو اس پر احتجاج کرنے کی خاطر سڑکوں پر اتر جاتے ہیں اور یہ فطری ردعمل ہے۔

سپریم کورٹ میں جب سادھو کی طلاق کا معاملہ آیا تو اس نے کہا وہ چونکہ سادھو بن چکا ہےاس لیے گھر گرہستی سے اس کا کوئی سروکارنہیں ہے۔ اس نے دنیا کو تیاگ دیا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کی دلیل یہ تھی کہ اگر شوہر سادھو بن گیا ہے تو اس کو طلاق ملنے یا نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ یہ اس دنیاکا بندھن ہے جس سے اس نے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے شوہر کے سادھو بن جانے پر اگر اسے یکطرفہ طلاق مل جائے تو بیوی کو نان نفقہ کیسے ملے گا؟اسی پر شاہ بانو کے رائی کو پہاڑ بنادیا گیا تھا۔ ہندو میرج ایکٹ 1955 کی شق24کے مطابق شوہر یا بیوی کے پاس اگر اپنا گزارہ کرنے کے لیے کوئی ذرائع آمدنی نہیں ہو تو اس کے تحت وہ عارضی نان و نفقہ کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ یعنی اگر بیوی کماتی ہے تو اسے الٹا اپنے شوہر کو پالنا پڑے گا ۔ جب تک مقدمہ چلتا ہے تب تک تو نان نفقہ دینا ہی پڑے گا یعنی سادھو مہاراج ایک طرف شاگروں کی دان دکشنا پر عیش فرمائیں گے اور دوسری جانب اپنی کماو بیوی کی آمدنی میں حق جمائیں گے ۔

یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مسلم سماج کودن رات اصلاح کی ترغیب دینے والوں نے ان قوانین میں پچھلے 57؍سالوں میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بچوں کی پرورش کا خرچ بھی نان نفقہ میں شامل ہے یعنی جب تک لڑکا 18؍سال کا یا لڑکی شادی شدہ نہ ہوجائے اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن عدالت کو اس میں کمی بیشی بلکہ سرے سے ختم کرنے کا بھی اختیار ہے ۔یہ کیسا دوغلا پن ہے کہ عدالت کے ذریعہ نان نفقہ بند کردینے سے خواتین کی کوئی حق تلفی نہیں ہوتی لیکن شریعت میں اگر اس کی گنجائش نہ ہو آسمان پھٹ پڑتاہے ۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ مذکورہ بیوی طلاق کے ساتھ نان نفقہ لینے کے بجائے نکاح میں رہنے پر کیوں اصرار کررہی ہے؟ ہندو معاشرے کی پریشانی یہ ہے کہ وہاں شوہر سے الگ رہتے ہوئے بھی ز وجہ اس کے نام پر سیندور لگاکر شادی شدہ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سماج میں مطلقہ کی کوئی عزت نہیں ہے اسے منحوس اور کمتر سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے وہ طلاق کو مسترد کرنے کی گہار لگانے پر مجبور ہے اور عدالت رحم کھا کر اس کی درخواست کا قبول کرلیتی ہے۔ ملک میں فی الحال لاکھوں سادھو وں نے اپنی زوجہ کو چھوڑ رکھا ہے بلکہ جھولے والے وزیر اعظم بھی ان میں سے ایک ہیں۔ دیش بھکتی کی آڑ میں انہوں نے خود اپنی بیوی کے حقوق سلب کردیئے مگر مسلم خواتین کی ہمدردی میں ٹسوے بہانے سے باز نہیں آتے۔ یہ ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے لیکن کبھی بھی زیر بحث نہیں آتا کیونکہ اسلامی شریعت پر اول فول بکواس کرنے سے ملک کے دانشوروں کو فرصت ملے تووہ اس جانب توجہ فرمائیں ۔ ویسے اونٹ نگلنے اور مچھر چھاننے والوں سے کیا توقع کی جائے؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449010 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.