اطہر اور جہانگیر سے امیدیں

 کہتے ہیں کہ ایک اور ایک ملکر 11 کا کام کرجاتے ہیں جبکہ 11نااہل اور نکمے ملکر 2افراد کا مقابلہ نہیں کرسکتے یہی کچھ صورتحال اس وقت پاکستان کے 11ویں بڑے شہر بہاولپور کی ہے جہاں اس وقت 2شخصیات گیارہ افراد کا کام کررہی ہیں ایک تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کررہا ہے تو دوسرا انتظامی امور کا بے تاج بادشاہ پوری ڈویژن کو گل وگلزار بنا رہا ہے دونوں افراد اس وقت اپنی اپنی جگہ پر ریاست کے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں ایک وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر محبوب ہے تو دوسرا کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور ہے دونوں شخصیات باکمال ہیں اور پنجاب کے خوبصورت شہربہاولپور میں حسین لوگوں کے درمیان موجود ہیں میرا بچپن دو شہروں میں گذرا ایک ساہیوال اور دوسرا بہاولپور میں دونوں شہروں کا جواب نہیں بہاولپور تعلیمی میدان میں بہت آگے نکل گیا ہے بہاولپور 2017 کی مردم شماری کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا گیارہواں بڑا شہر ہے جس کی آبادی اس وقت 762,111 تھی جو اب تقریبا 10لاکھ سے اوپر ہو چکی ہے یہ زمینی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر بھی ہے اور پنجاب کا سب سے بڑا صحرا چولستان بھی اسی سرزمین میں ہے یہ شہر1748 میں قائم کیا گیا جوریاست بہاولپور کا دار الحکومت بھی تھا جس پر 1955 تک نوابوں کے عباسی خاندان کی حکومت رہی یہ شہر صحرائے چولستان کے کنارے پر واقع ہے اور لال سوہانرا نیشنل پارک کے گیٹ وے کے طور پر کام کرتا ہے بہاولپور تقسیم ہند سے قبل 584 شاہی ریاستوں میں شامل تھا نور محل شہر کے حکمران نوابوں کا گڑھ تھا دربار محل کو نواب بہاول خان پنجم نے 1905 میں اپنی بیوی کے لیے محل کے طور پر تعمیر کروایا تھا ریاست بہاولپور مختلف قدیمی معاشروں کا گھر بھی تھا بہاولپور کا علاقہ مغلیہ سلطنت کے صوبہ ملتان کا حصہ بھی رہا اس میں وادی سندھ کی تہذیب کے کھنڈرات کے ساتھ ساتھ قدیم بدھ مت کے مقامات بھی ہیں بہاولپور کے قیام سے پہلے خطے کا بڑا شہر اُچ شریف کا مقدس شہر تھا جو 12ویں اور 17ویں صدی کے درمیان ایک علاقائی میٹروپولیٹن مرکز تھا بہاولپور 1748 میں نواب بہاول خان اول نے قائم کیا تھا ریاست بہاولپور کی بنیاد 1802 میں نواب محمد بہاول خان دوم نے درانی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد رکھی تھی نواب محمد بہاول خان سوئم نے 22 فروری 1833 کو انگریزوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے جس میں نواب کی آزادی اور بہاولپور ریاست کی خودمختاری کی ضمانت دی گئی اس وقت آبادی کا تخمینہ 20,000 تھا جس میں زیادہ تر ہندوتھے 1833 میں دریائے ستلج اور دریائے سندھ کو نیویگیشن کے لیے کھول دیا گیا جس سے سامان بہاولپور تک پہنچا۔ 1845 تک دہلی کے لیے نئے کھولے گئے تجارتی راستوں نے بہاولپور کو تجارتی مرکز کے طور پر دوبارہ قائم کیا یہ شہر 19ویں صدی کے آخر میں ریشم کے سامان، لونگیوں اور سوتی سامان کی پیداوار کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا شہر کا بنا ہوا ریشم بنارس اورا امرتسر کے ریشم کے کاموں کے مقابلے میں اعلیٰ معیار کا مانا جاتا ہے 1866 میں تخت بہاولپور کی جانشینی کے بحران نے ریاست میں برطانوی اثر و رسوخ کو واضح طور پر بڑھایا جسکے بعد بہاولپور کو 1874 میں میونسپلٹی کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا 1887 میں نواب آف بہاولپور نے نور محل محل میں ایک سرکاری تقریب میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی منائی 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے وقت بہاولپور کے نواب کسی شاہی ریاست کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے ولی عہد کی جنگی کوششوں کے لیے ریاست کے مکمل تعاون اور وسائل کی پیشکش کی اگست 1947 میں برصغیر سے برطانوی انخلا کے بعد برطانوی ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا اختیار دیا گیا تھا ریاست بہاولپور نے 7 اکتوبر 1947 کو نواب صادق محمد خان عباسی پنجم بہادر کے دور میں پاکستان سے الحاق کیا آزادی کے بعد شہر کی اقلیتی ہندو اور سکھ برادریوں نے بڑے پیمانے پر ہندوستان ہجرت کی جب کہ ہندوستان سے مسلمان مہاجرین شہر اور آس پاس کے علاقوں میں آباد ہوگئے ضلع بہاولپور میں 6 تحصیلیں ہیں جن میں 109 یونین کونسلیں، 714 دیہات اور 5 میونسپل کمیٹیاں ہیں بہاولپور سطح سمندر سے تقریباً 117 میٹر بلندی پر واقع ہے یہاں کی آب و ہوا خشک ہے اب بہاولپور جن اہم فصلوں کے لیے پہچانا جاتا ہے ان میں کپاس، گنا، گندم، سورج مکھی کے بیج، سرسوں کا بیج اور چاول شامل ہیں اسکے ساتھ ساتھ بہاولپور کے آم، لیموں، کھجور اور امرود ملک سے باہر برآمد کیے جانے والے پھل ہیں سبزیوں میں پیاز، ٹماٹر، گوبھی، آلو اور گاجر شامل ہیں ایک توسیع پذیر صنعتی شہر ہونے کے ناطے حکومت نے کاسٹک سوڈا، کاٹن جننگ اینڈ پریسنگ، فلور ملز، فروٹ جوس، جنرل انجینئرنگ، آئرن اینڈ اسٹیل ری رولنگ ملز، لومز، آئل ملز، پولٹری فیڈ، چینی کی اجازت دیتے ہوئے مختلف منڈیوں میں بہاولپور نے انقلاب برپا کررکھا ہے ٹیکسٹائل اسپننگ سمیت گھی اور کوکنگ آئل کی صنعتیں بھی پھل پھول رہی ہیں بہاولپور اپنے قالینوں، کڑھائی اور مٹی کے برتنوں کے لیے بھی مشہور ہے پنجاب حکومت نے کرافٹ ڈویلپمنٹ سنٹر قائم کیا ہے جہاں سے دستکاری خریدی جا سکتی ہے یہ دستکاری زیادہ تر چولستان کے علاقے میں تیار ہوتی ہے یہاں کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی مقامی ہیں اردو کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد بڑے پیمانے پر بولتی اور سمجھتی ہے جبکہ انگریزی بہت سے لوگوں کی ثانوی زبان ہے پنجابی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے پنجابی کی بہت سے بولیاں ہیں سرائیکی ان میں سے ایک ہے دوسری بڑی بولی جانے والی زبانوں میں ریاستی، ماجھی، باگڑی اور ہریانوی شامل ہیں یہ زبانیں مختلف اضلاع کے مطابق بولی جاتی ہیں اور بہت سی دوسری پنجابی بولیوں کا مرکب ہیں بہاولپور کاچڑیا گھر 1942 میں قائم کیا گیا تھا جو 25 ایکڑ پر مشتمل ہے یہاں کا خوبصورت اور تاریخی ریلوے اسٹیشن 385 فٹ کی بلندی پر واقع ہے جو کراچی تاپشاور مین لائن پر پاکستان ریلوے کے بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جبکہ بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج کی بنیاد 1886 میں رکھی گئی تھی پہلی یونیورسٹی، اسلامیہ یونیورسٹی 1925 میں جامعہ عباسیہ کے طور پر قائم کی گئی تھی شہر کے قائد اعظم میڈیکل کالج کی بنیاد 1971 میں رکھی گئی تھی ضلع میں مجموعی طور پر 48 فیصد شرح خواندگی ہے جس میں کل 1662 اسکول اور 24 کالج ہیں پاکستان کی سب سے لمبی قومی شاہراہ این-5 بھی شہر سے گزرتی ہے جو بہاولپور کو کراچی اور لاہور سے ملاتی ہے بہاولپور سے تقریبا 50کلومیٹر کی دوری پر خوبصورت لوگوں کا خوبصورت شہر ہیڈ راجکان بھی ہے اور اسکے ساتھ ہی میرا گاؤں 36ڈی این بی ہے جہاں کے گورنمنٹ ہائی سکول سے میں نے میٹرک کیا تھایہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے کوئی کالج نہیں اور نہ ہی یہاں سے یونیورسٹی کے لیے کوئی گاڑی چلتی علم دوست شخصیت ڈاکٹر اطہر محبوب ہیڈ راجکان سے بھی یونیورسٹی کی بس سروس شروع کرکے یہاں کے بچوں کا مستقبل روشن کردیں جبکہ کمشنر بہاولپور راجہ جہانگیر انور جیسی خوبصورت شخصیت اس علاقے کے لوگوں کو بہت سی امیدیں ہیں کہ وہ انہیں ایک کالج دیدیں اور پھر رہتی دنیا تک آپ کے نام کا ڈنکا بجتا رہے گا جبکہ اس وقت وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی بھی علم دوست شخصیت ہیں اور انکی وزارت اعلی میں اور آپ جیسی دوانتھک شخصیات کی موجودگی میں ہیڈ راجکاں کی عوام ترقی کے سفر میں پیچھے کیسے رہ سکتی ہے ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 512207 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.