#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالقلم ، اٰیت 1 تا 16
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہر بانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ
پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ن
والقلم و
ما یسطرون 1
ما انت بنعمة ربک
بمجنون 2 و ان لک
لاجرا غیر ممنون 3 و
ان لک لعلٰی خلق عظیم 4
فستبصر و یبصرون 5 بایکم
المفتون 6 ان ربک ھو اعلم بمن ضل
عن سبیلہ و ھو اعلم بالمھتدین 7 فلاتطع
المکذبین 8 ودو لو تدھن فیدھنون 9 ولا تطع کل
حلاف مھین 10ھماز مشاء بنمیم 11 مناع للخیر معتد
اثیم 12 عتل بعد ذٰلک زنیم 13 ان کان ذا مال و بنون 14اذا
تلٰی علیہ اٰیٰتنا قال اساطیر الاولین 15 سنسمہ علی الخرطوم 16
حق کے جو مُنکر آپ کو دیوانہ کہتے ہیں اُن کے سامنے ہمارے علم کی ہمارے قلم
سے لکھی جانے والی یہ کتاب پیش کر کے اُن سے پُوچھیں کہ خدا لگتی کہو کہ
بھلا کوئی دیوانہ بھی علم و اخلاق کی ایسی عظیم کتاب پیش کر سکتا ہے ، یہ
تو اللہ کا وہ بے مثال انعام اور وہ لازوال کلام ہے جس کو سُنتے ہی ایک
مُنصف مزاج انسان پُکار اُٹھے گا کہ یہ کسی دیوانے کا بنایا ہوا بے معنی
کلام نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک فرزانے کا ایک فرزانے سے لایا ہوا بامعنی کلام
ہے ، اِس علمی و نظری شہادت کے بعد آپ کُچھ وقت تک توقف کریں تاکہ اِس کلام
کے وہ عقلی و عملی نتائج بھی سامنے آجائیں کیونکہ اللہ اچھی طرح جانتا ہے
کہ جب آپ کے اِن علمی و نظری اور عقلی و عملی اعمال کے نتائج ظاہر ہوں گے
تو اہلِ فکر نظر خود ہی جان لیں گے کہ ہدایت کے راستے پر کون چل رہا ہے اور
جہالت کے راستے پر کون گامزن ہے ، حق کے اِن پُرانے دشمنوں کی تازہ حکمتِ
عملی یہ ہے کہ کُچھ کُچھ آپ اُن کی طرف بڑھیں اور کُچھ کُچھ وہ بھی آپ کی
طرف بڑھیں یہاں تکہ کہ حق و باطل اُس ایک جگہ پر جمع ہو جائیں جس ایک جگہ
پر جمع ہو کر حق و باطل کا امتیاز ہی ختم ہو جائے ، اِس مقصد کے حصول کے
لئے وہ آپ کے پاس ایک ایسے کمینے اور کذاب شخص کو بہیجنے والے ہیں جو اپنے
ایک وجُود میں ایک ہزار خرابیاں لئے پھرتا ہے ، وہ آپ کے پاس آئے گا تو
بلاتکلف و بلا تکان جُھوٹی قسمیں کھائے گا لیکن آپ نے اُس کے جُھوٹ کی چال
اور اُس کی جُھوٹی قسموں کے جال میں نہیں آنا ، اِس شخص کا مزید شخصی تعارف
یہ ہے کہ وہ خیر کا کام خود بھی کبھی نہیں کرتا اور دُوسروں کو بھی کبھی
نہیں کرنے دیتا ، وہ کارِ تخریب میں ہر ایک سے آگے ہوتا ہے اور کارِ تعمیر
میں ہر ایک سے پیچھے رہتا ہے ، سنگ دلوں میں سب سے زیادہ سنگ دل اور فتنہ
گروں میں سب سے بڑا فتنہ گر ہے اور اُس پر مُستزاد یہ کہ اُس کا کوئی دینی
و اخلاقی ورثہ بھی نہیں ہے لیکن اُس کی واحد خوبی نما خرابی یہ ہے کہ وہ
اِس شہر کا ایک سر مایہ دار ہے اور اسی گمھنڈ کی بنا پر وہ گمھنڈی اِن
گمھنڈی مُشرکوں کا ایک کرتا دھرتا بنا ہوا ہے اور اُس کا حال یہ ہے کہ جب
اُس کے سامنے کتابِ حق کے اٙحکام اٙتے ہیں تو وہ اِن کو پرانے زمانے کے
افسانے کہہ کر اِن سے مُنہ پھیر لیتا ہے لیکن اٙب وہ وقت کُچھ زیادہ دُور
نہیں ہے کہ جب ہم اُس کی اُونچی ناک کاٹ کر اُس کو نکّو بنا دیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن حق کے حق ہونے کی بنا پر حق کا حقِ سر داری اور
باطل کی باطل ہونے کی بنا پر ذلت و نگوں ساری ہے ، حق و باطل کے اِس موضوع
کے جو تین مضامین اِس سُورت میں آئے ہیں اُن میں آخری مضمون وہ ہے جس میں
اللہ نے انسان کو ایک زجر و توبیخ کی ہے اور آخری مضمون سے پہلا مضمون
اٙچانک ہی اُجڑ پُجڑ جانے والے اُس باغ کا مضمون ہے جس کے مالک جس وقت اُس
کے اُجڑ جانے پر غم زدہ تھے تو اٙچانک اُن کے درمیان ایک انسان نمُودار
ہواتا تھا جو اُن کے اُن باغوں کی ویرانی کی وجہ بھی جانتا تھا اور اُن
باغوں کو آباد کرنے کا طریقہ بھی بتا سکتا تھا اور اُس آخری مضمون سے پہلے
سے بھی پہلے اِس سُورت کا یہ مضمون ہے جس کی پہلی اٰیت کا پہلا حرف وہ حرفِ
{ ن } ہے جس کو اہلِ تفسیر نے وہ حرفِ قسم قرار دیا ہے جس کی علمی تعریف یہ
ہے کہ یہ حرفِ قسم اُس چیز کی صداقت کا یقین دلانے کے لئے لایا جاتا ہے جس
چیز کی صداقت کا اُس کے سُننے والے کو یقین نہیں ہوتا تاہم اِس درجے میں تو
یہ بات درست ہے کہ اِس حرفِ نُون میں قسم کا ایک مفہوم بھی شامل ہے لیکن
قلم کا لکھنا انسانی مُشاہد کا ایک ایسا معلوم عمل ہے جس کے لئے قسم کھا کر
یقین دلانے کی ضرورت نہیں ہوتی اِس لئے یہاں پر قسم کھا کر جس چیز کی صداقت
کا یقین دلایا گیا ہے وہ کوئی دُوسری چیز ہے جس کے یقینی ہونے پر اللہ نے
قسم اُٹھا کر اُس کے یقینی ہونے کا یقین دلایا ہے ، بہر حال کلامِ بالا کی
ترتیبِ کلام کے مطابق یہ حرفِ { ن } جمع مُتکلّم کے صیغے میں آنے والی
علامتِ ضمیر { نا } بمعنی { ہم } کا مُخفف ہے جس { ہم } سے اللہ تعالٰی کا
نظامِ قُدرت مُراد ہے ، اِس کے بعد اِس اٰیت میں اُس اسمِ واحد قلم کا ذکر
ہے جس کے ساتھ وہ کلام لکھا گیا ہے جو کلام اِس سُورت میں اِس دعوے کے ساتھ
پیش کیا گیا ہے کہ اِس کلام کا لکھانے والا اللہ ہے اور اللہ نے جس قلم سے
اپنا یہ عظیم کلام لکھوایا ہے اُس قلم کا خالق بھی وہ اللہ ہے جس نے اپنے
عبدِ خاص سے یہ اپنا یہ کلام لکھوایا ہے ، عُلمائے تفسیر کہتے ہیں کہ لکھنے
والے سے یہاں پر مُراد اللہ کے وہ فرشتے ہیں جو مُسلسل قُرآن کے حروف و
الفاظ کے اُس عمل کو لکھ رہے ہیں اور لکھنے کے اِس مُسلسل عمل کے لئے قُرآن
فعل مضارع معروف کا جو صیغہ { یسطرون } لایا ہے اُس کا معنٰی عہدِ حال میں
بھی مُسلسل لکھنا ہے اور عہدِ مُستقبل میں بھی مُتواتر لکھتے رہنا ہے لیکن
ہم یہ سوال نظر انداز کیئے دیتے ہیں کہ اللہ کے یہ فرشتے ایک لکھے ہوئے
کلام کو بار بار کیوں لکھ رہے ہیں لیکن ہم یہ سوال ضرور کریں گے کہ اِس
لکھنے سے فرشتوں کا لکھنا کیوں مراد ہے اور اُس ہستی کا لکھنا کیوں مراد
نہیں ہے جس پر یہ کلام نازل ہوا ہے ، اِس سوال کا معروف جواب یہ دیا جاتا
ہے کہ جس ہستی پر یہ کلام نازل ہوا ہے وہ پڑھی لکھی ہستی نہیں تھی مگر اِس
جواب پر بھی یہ دُوسرا سوال وارد ہوتا ہے کہ جو فرشتے اِس کلام کو حال و
مُستقبل کے ہر زمانے میں مُتواتر لکھتے ہیں اُنہوں نے کون سے سکول میں جا
کر پڑھنا لکھنا سیکھا ہے اور ظاہر ہے کہ اِس سوال کا بھی یہی لگا بندھا
معروف جواب ہے کہ اُن کو اللہ تعالٰی نے اپنی قُدرتِ کاملہ سے لکھنے اور
پڑھنے کا یہ ملکہ خود بخود ہی دیا ہے اور اِس جواب پر بھی یہ سوال وارد
ہوتا ہے کہ جس اللہ نے اپنے اُن فرشتوں کو اپنی جس قُدرتِ کاملہ سے لکھنا
پڑھنا سکھایا ہے تو اُس نے اپنی اُسی قُدرتِ کاملہ سے اپنے اُس رسول کو
لکھنا پڑھنا کیوں نہیں سکھایا ہے جس پر اُس نے یہ کلام نازل کیا ہے اور
ظاہر ہے کہ یہی بات اِس بات کی یہ قوی تر دلیل ہے کہ سیدنا محمد علیہ
السلام اِس کی کتاب کی تلاوتِ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ آپ اِس کلام کی کتابت
پر بھی قُدرت رکھتے تھے اور اگر یہ نُون ایک قسمیہ بھی ہے تو یہ اِس اٙمر
کی ایک اضافی دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی نے سدنا محمد علیہ السلام کو کتابتِ
قُرآن کا جو علم و ملکہ عطا فرمایا تھا اُس علم و ملکے کا اللہ تعالٰی نے
اِس سُورت کے اِس پہلے مضمون میں قسم کھا کر یقین دلایا ہے اور اِس قسم و
یقینِ قسم کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کی ذات مصدرِ علم و قلم ہے اور اُس کے اِس
علم و قلم کا جو مقصدِ علم و قلم ہے اُس کا ایک ہی مُعتبر ذریعہ اُس کے
رسول پر نازل ہونے والی یہ کتاب ہے جس کی اُس رسول نے مُسلسل 23 برس تک
تلاوت و کتابت کی ہے ، اِس سُورت کے اِس پہلے مضمون میں جس جُھوٹے شخص کے
رسول کے پاس آنے کی اللہ نے اپنے رسول کو قبل از وقت خبر دی ہے وہ اُس
زمانے کے بدترین لوگوں میں سب سے بدترین انسان تھا اور اُس کے بارے میں خبر
دینے کا مقصد اُس کے فتنہ و شر سے بچنے کا حُکم دینا تھا اور قُرآن نے اُس
کے کردار کا جو مُفصل تذکرہ کیا ہےاُس میں قُرآن نے ایک لفظ { زنیم } بھی
استعمال کیا ہے جس کا لُغوی معنٰی جانور کا درمیان سے کٹا ہوا وہ آدھا کان
ہوتا ہے جو اپنے وسطی کٹ کی وجہ سے آدھا لٹکا ہوا ہوتا ہے اور اہلِ عرب یہی
لفظ کمینے و اٙجنبی اور لے پالک بچے کے لئے بھی بولتے ہیں لیکن عُلمائے
روایت نے اپنی روایاتِ باطلہ کی بنا پر اِس لفظ کا ایک معنٰی والدالزنا کیا
ہے جو قُرآن کی مقصدی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ اگر وہ شخص فی الحقیقت ایسا
تھا تو اِس میں اُس کے والدین کا وہ پوشیدہ قصور تھا جو قصور اُس کے والدین
کے اور اللہ کے درمیان ایک راز تھا جس راز کے افشا ہونے میں اُس کا صرف یہ
نقصان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے والدین کی اُس وراثت سے محروم رہ جاتا جس
وراثت کی حفاظت بھی انسانی نسب کی بھی حفاظت کی جاتی ہے اور مزید براں یہ
بھی کہ اُس متوقع وراثت کی حفاظت سے جو وراثت اولاد کو والدین سے ملتی ہے
اُس وراثت سے مراد محض مکان یا زمین کا پانا ہی مقصود نہیں ہوتا بلکہ اُس
ورثے کا پانا بھی مقصود ہوتا ہے جو اُس انسان کے حصے میں آتا ہے اور اِس
اعتبار سے انسان کا کوئی علمی و فکری اور اخلاقی نظریہ ہی اُس کی ایک میراث
ہوتا ہے اِس لئے اگر اہلِ روایت کا یہ روایتی خیال درست مان بھی لیا جائے
تو اِس کا مطلب اُس شخص کا کا کسی معقول انسانی نظریئے سے محروم ہو کر مرنا
مُتصور ہو گا ، ہمارے علم کے مطابق جہاں تک اِس لفظ کے اِس اندھے استعمال
کا تعلق ہے تو اِس کا یہ اندھا استعمال اُس وقت شروع ہوا تھا جب آں جہانی
مرزا غلام احمد قایانی کے زمانے میں اہل علم نے مرزا غلام احمد قادیانی کی
اپنے مخالفین کے خلاف بد زبانی پر اعتراض کیا تھا تو سب سے پہلے مرزا غلام
احمد قادیانی نے اپنی اُن غلیظ گالیوں کے جواز کے حق میں لفظِ زنیم سے گالی
کا ایک جواز پیدا کیا تھا جو بعد ازاں دُوسرے لوگ بھی ایک دُوسرے کی دشمنی
میں اِس لغویت کو استعمال کرنے لگے تھے ورنہ اللہ کی اِس کتاب میں تو اِن
خرافات کا دُور دُور تک کوئی شائبہ بھی موجُود نہیں ہے !!
|