قائد اعظم کے اسلامی افکار

قائد اعظم حسن کردار کا وہ نقش تابندہ تھے کہ جن کے خیالات اور نظریات ان کے خطابات اور بیانات سے بالکل واضح ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مذہبی صرف اس شخصکو سمجھتے ہیں جوباریش اور جبہ ودستار میں ہو۔ یہی غلط فہمی کئی لوگوں کو قائد اعظم کے مغربی لباس کی وجہ سے ہوتی ہے حالانکہ برصغیر کے دو معروف مفسر قرآن کی رائے میں پورے ہندوستان میں گذشتہ صدی میں قرآن حکیم کو جناح سے بہتر کسی اور نے نہیں سمجھا۔ اسثبوت قائداعظم ایک سو سے زائد وہ بیانات ہیں جن میں انہوں نے قرآن حکیم کا حوالہ دیا ہے۔ اس ضمن میں ان کے چند اہم بیانات قابل غور ہیں۔عثمانیہ یونیورسٹی حیدرا آباد دکن کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے 1941ء میں کہا ’’اسلامی حکومت میں اطاعت اور جفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عمل ذریعہ قرآن مجید کے احکام واصول ہیں۔ قرآن کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں‘‘ 1945 میں عید کے موقع پر ملت کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ’’ اس حقیقت سے سوائے جُہلاکے ہر شخص واقف ہے کہ قرآن مسلمانوں کا بنیادی ضابطہ زندگی ہے جو معاشرت، مذہب، تجارت، عدالت، فوج، دیوانی، فوجداری اور تعزیرات کے ضوابط کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ مذہبی تقاریب ہوں یا روزمرہ کے معمولات، روح کی نجات کا سوال ہو یا بدن کی صفائی کا، اجتماعی حقوق کا سوال ہو یا انفرادی واجبات کا، عام اخلاقیات ہوں یا جرائم ، دنیاوی سزا کا سوال ہو یا آخرت کے مواخذہ کا، ان سب کے قوانین موجود ہیں۔ اسی لئے نبی اکرم ﷺنے حکم دیاتھا کہ ہر مسلمان قرآن کا نسخہ اپنے پاس رکھے اور اس طرح اپنا مذہبی پیشوا آپ بن جائے‘‘۔ قارئین کیا قرآن حکیم کے حوالے سے ایسا بیان آپ کی نظر سے گذرا ہے؟ میری نگاہ سے کسی اور کا ایسا بیان نہیں گذرا۔
ستمبر 1944ء کو گاندھی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایاکہ " قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"۔

مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس (1943)کراچی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے شرکاء سے سوالات کئے کہ ’’ وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے۔ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے‘‘پھر ان سوالوں کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ۔ ’’وہ بندھن، وہ رشتہ ،وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی عظیم کتاب قرآن حکیم ہے۔ مجھے یقینِ محکم ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ وحدت پیدا ہوتی جائے گی۔ایک خدا،ایک رسول، ایک کتاب‘‘۔علی گڑھ میں 1944ء میں تقریر کرتے ہوئے کہا’’پاکستان کی ابتدا تو اسی دِن سے ہوگئی تھی جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا‘‘قیامِ پاکستان کے بعداپنے ایک خطاب میں کہا’’میرا ایمان ہے ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبر نے ہمیں دیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں پر رکھیں‘‘۔قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری کی ایچ خورشید لکھتے ہیں کہ 1944 میں جب قائد اعظم کشمیر کے دورے پر گئے اور وہاں نیشنل کانفرس کے استقبالیہ میں شیخ عبداﷲ کے سپاسنامہ کے جواب میں فرمایا "آپ نے استقبال میری ذات کا نہیں بلکہ اس لئے کیا ہے کہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر ہوں۔ " بعد ازاں مسلم کانفرس کے استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارا خدا ایک، رسول ایک، کتاب ایک اور دین ایک ہے۔"ان کے دورہ کشمیر کے دوران سناتن دھرم سبھا کے رہنماء پنڈت شیونرائن نے اپنی طرف سے قائد اعظم پر چوٹ کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگرچہ میں کشمیر میں اقلیتوں کا لیڈر ہوں مگر کشمیر کا جناح نہیں ہوں۔ قائد اعظم نے مسکراتے ہوئے برجستہ کہا ’’ پھر تو تم بد قسمت ہوئے نا، میں آپ کے مقدر کی بہتری کے لئے دعا گو ہوں‘‘۔

ُآل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے ایک اجلاس میں قائداعظم نے مخالفین کی بہتان طرازیوں کے سلسلے میں فرمایا "مسلمانو! میں نے دنیا کو بہت دیکھا. دولت ،شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے ، اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں ، میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا اﷲ گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا میں آپ سے زوردار شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا ایمان، میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح! تم نے نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا جناح! تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا اﷲ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عَلمِ اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے (روزنامہ "انقلاب’’ لاہور 22 اکتوبر 1939)۔ 17 جون 1945 کو مسلم فیڈریشن پشاور کے نام اپنے پیغام میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ "پاکستان کا مطلب صرف آزادی ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب اسلامی نظریہ بھی ہے’’ کچھ لوگ قائد اعظم کی 11 اگست 1947کو قانون ساز اسمبلی میں ان کی تقریر سے انہین سیکولر جناح کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ اگر اس بیان پر غور کیا جائے تو انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا اور نہ ہی اس میں سیکولر کا لفظ استعمال کیا۔ اس تقریر کے بعد قائداعظم نے کئی مواقع پر اپنے اسلامی نظریات کا اظہار کیا جن مین سے دو بہت اہم یہ ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد 25 جنوری 1948 ء کو عید میلاد النبی کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ " آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"۔اپنی زندگی کے آخری سرکاری تقریب میں انہوں نے یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ صرف ایسا نظام ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"۔

یہ ہیں اس قائد کے نظریات جنہیں کچھ حلقے سیکولر بنانے پر بضد ہیں۔ اگر ان نظریات کا حامل شخص سیکولر ہوسکتا ہے تو پھرُن حلقوں کو بھی ان نظریات کو اپنالینا چاہیے۔جو حلقے تاریخ مسخ کرتے ہوئے قائد اعظم کو ایک سیکولر شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیا وہ کوئی ایک ثبوت بھی پیش کرسکتے ہیں کہ جس میں قائد اعظم نے کہا ہو کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی؟ یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظررہنی چاہیے کہ قائد اعظم بھی علامہ اقبال کی تھیاکریسی کے خلاف تھے جس میں زمام اقتدار مذہبی پیشواؤں کے پاس ہوتا ہے۔ ان جدوجہد ایک فلاحی اسلامی مملکت کے لئے تھی جس کا انتظام عوام کے منتخب نمائندے کریں۔

 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 275 Articles with 232504 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More