دو مسیحا - مردان خدا - مرد قلندر" ۔۔۔

آزادکشمیر کےضلع پونچھ ،خاص طور سے راولاکوٹ کے حسن وشادابی، لہلہاتے اشجار، نغمہ سنج طیور،بہتے جھرنوں،معطر فضاؤں ،اور رنگارنگ پھولوں سے آراستہ وپیراستہ وادیوں کی فسوں انگیزی نے جہاں ایک دنیا کو مسحور کر رکھاہے وہیں اس خطہ زمین کے مکینوں کی اعلا انسانی صفات ، اقداراور روایات کی پاسداری نے انہیں منفرد بنارکھا ہے۔ان لوگوں کی امتیازی صفات میں غیرت، خودداری ،مہمان نوازی اور بندہ پروری جیسی نمایاں صفات شامل ہیں۔

حضرت امیر خسرو نے کشمیر کی خوب صورتی کے بارے میں یوں فرمایا تھا:

اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است،ہمیں است،ہمیں است

ان حقائق کے ساتھ اگر یہ اضافہ کر دیا جائے تو کسی کو تامل نہ ہوگا کہ اس دھرتی پہ ایسے ایسے بہادر و جری،عابد وزاہد اور باکمال انسانوں کا جنم ہوا کہ جن کے وجود خاکی پہ لوگوں کو ملائکہ کا گمان ہوا مگر وہ سب کے سب گوہر نایاب چوں کہ وجود خاکی رکھتے تھے، سو خاک میں سو رہے:

مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم !
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے ؟

3 اور 4 نومبر 2020ء کو دستور قدرت کے موافق ڈاکٹر حلیم اور ڈاکٹر صادق جیسی مہربان ، شفیق ، غریب پرور اور ملنسار ہستیاں بھی اپنے پیاروں کو روتا بلکتا چھوڑ راہئ ملک عدم ہوتی ہیں۔اس دھرتی کے یہ دونوں سپوت راولاکوٹ کے مضافاتی گاؤں دریک سے تعلق رکھتے تھے اور حق تو یہ ہے کہ ساکنان دریک کے لیےاگر یہ ہستیاں باعث تفاخر ہیں تو ان کے دنیا سے اٹھ جانے کا نقصان بھی ان کے لیے ۔۔۔۔ باقی سبھوں سے سوا ہے۔

دریک _ عیدگاہ گراونڈ _ ہر آنکھ اشکبار ، ہر چہرہ ستا ہوا ، ہر دل رنجیدہ وملول ، ہر سمت اداسی و ویرانی چھائی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ تاہم اس ابدی حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ ہر ذی نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔ باایں ہمہ ایسا کیا تھا ۔۔۔۔ جو ہر شخص جانے والوں کے لیے اس قدر دل گرفتہ ، ملول اور پریشان ہے۔۔۔۔کیا وہ اہل ثروت تھے ؟؟ ؟؟۔۔۔۔۔ نہیں ، ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔کیا وہ کوئی سیاست دان ، بیوروکریٹ یا ارباب اقتدار تھے؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔نہیں ، یہ بھی درست نہیں ۔۔۔۔۔۔ تو پھر ۔۔۔۔ آخر ایسا کیا تھا ؛ جو نہ صرف قلم وقرطاس سے تعلق رکھنے والےاہل فکر و نظر اپنے اپنے ڈھنگ میں انہیں خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں بل کہ ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم سے ہر کوئی ان کے لیے رطب اللسان ہے۔

اگر ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کی اس زمین پر انسان کے دو وجود ہوتے ہیں ، ایک انسانی اور دوسرا اخلاقی ۔ خداکی منشاء ہے کہ انسان اپنے انسانی وجود سے اخلاقی وجود میں ڈھل جائے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر دین امن وسلامتی کی تمام تر تعلیمات کا محور و مرکز بھی یہی ایک نکتہ رہاہے ۔ جس کسی نے اس نکتے کو پا لیاگویا ہفت اقلیم کو پا لیا۔

اب اگر ان مردان قلندر کی بات کی جائے تو انہوں نے بھی اس حقیقت کا ادراک حاصل کر لیا تھا ۔ وہ دونوں بھی مشیت ایزدی کے مطابق اپنے انسانی وجود سے اخلاقی وجود میں متبدل ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ ایک رزم و بزم کا شہنشاہ تھا تو دوسرا خاموش خدمت کی عمدہ نظیر ۔۔۔۔۔ طبائع کے اس بنیادی اختلاف کے باوجود دونوں ہی انسانیت کی معراج کو پا چکے تھے ۔ وہ دونوں طب کے مقدس پیشے سے منسلک تھے اور اس پیشے کے اغراض ومقاصد کو بحسن و خوبی نبھا رہے تھے ۔ دن اور رات کی پرواہ کیے بغیر عام انسانوں کے درد کےساتھ ساتھ دکھ کا مداوا کرنے کی بھرپور سعی و کاوش کرتے تھے ۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ناصر کاظمی نے کہا کہ:

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے؟

وہ دونوں مردان حق،اسم با مسمی ، حلیم اور صادق ، اپنے اندر فقر کی تمام تر خصوصیات رکھتے تھے جو ان دونوں میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے ۔ یہی انسانیت کی معراج ان کو خلق خدا میں ممیز کرتی تھی اور اسی نے ان کو ہر دل عزیز بنا رکھا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ ہر ایک کو ان کے چلے جانے کا گھاو ایسا لگا جو اپنے عزیز ترین رشتوں کے کھو جانے سے لگتا ہے ۔فقر و غنا کا گنج ہائے گراں مایہ ان کو بے مثل بنا گیا ۔ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے:

"الفقر فخری"

( یعنی فقر میرا فخر ہے )

ظاہری افلاس اور غربت قطعی فقر نہیں ہے بل کہ فقر ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں دنیا کا جاہ و منصب آپ کا مطلوب و مقصود نہ رہے۔

بہ قول اقبال :

فقر مومن چیست تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولاصفات

(یعنی فقر کی تاثیر سے بندہ خدا کی صفات کا حامل ہو جاتا ہے.)

آج کے مادہ پرست دور میں جب ہر انسان کی سوچ اور عمل حرص وطمع سے آلودہ ہے ۔ جب ہر ایک کی زندگی کا سب سے اولین مقصد ہی دولت کی پرستش ہے ۔۔۔۔۔ یہ وہ باکمال بندگان خدا تھے جو دنیاوی جاہ و ثروت کو ترجیح دینے کی بجائے مخلوق خدا کی دلجوئی کرنے میں لگے رہے ۔ سچ ہی ہے جو آخرت کی پونجی جمع کرنے کی فکر میں رہتے ہوں وہ بھلا دنیاوی بینک بیلنس کو کیونکر خاطر میں لاتےاور حلیم صاحب کا بیلنس تو کیا ہوتا سرے سے کوئی بینک اکاؤنٹ ہی نہیں تھا ۔ بلاشبہ جب انسان خدا کی ذات پہ کلی بھروسہ کرنے لگتا ہے تو دنیاوی لذائذ اورمادی وسائل سے بے نیاز ہو جاتا ہے ۔ اسے استغنا کی دولت مل جاتی ہے۔اقبال فرماتے ہیں:

یقیں پیدا کر اے ناداں ! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہےفغفوری

وہ حق کے راہی ساری زندگی احکام الٰہی کے پابند رہے ، مخلوق خدا سے محبت کرتے رہے ۔ جب تک زندہ تھے ،اپنے لوگوں کی بھلائی ان کا مطمع نظر تھی اور وقت آخر ، بستر مرگ پر بھی انہیں اپنے لوگوں کی صحت اور زندگی کی فکر ستا رہی تھی ۔ وہ دونوں اپنے اپنے آخری پیغامات میں لوگوں کو بیماری سے بچنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا درس اور دعائیں دیتے رہے۔

مردخداکاعمل ، عشق سےصاحب فروغ
عشق ہےاصل حیات ، موت ہے اس پر حرام

دونوں نے انسانیت کی خدمت کے لیے"فرنٹ لائین سپاہی" کا کردار نبھایا اور موت کو گلے لگا لیا کیوں کہ ایسے مردان حق کو موت نہیں ڈرا سکتی۔خدا سے ملنے کا شوق انہیں موت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔
ایسے ہی راہ حق کے شہید اور کردار و عمل کے غازی ہماری آنے والی نسلوں کے لیےمینارہء روشنی کاکام کرتے رہیں گے۔ایسے روشن ستارے ہر دور میں طلوع ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گےمگر ہمیں ان کا ادراک نہیں ہوتا ۔ یہ ضرور ہے کہ زمانے کو نہایت تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر ایک روشن ستارہ جنم لیتا ہے۔

طبع مضمون بند فطرت خوں شود
تادوبیت ذات او موزوں شود

(فطرت کی مضمون پیدا کرنے والی طبیعت خون ہوتی ہے تب کہیں جاکراس کی فطرت کے دو مصرعے موزوں ہوتے ہیں۔)

ان کے اعمال واقوال کو طشت از بام کرنا ہمارا فرض عین ہونا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں ان کے کردار و عمل سے روشنی کشید کرتے ہوئے زندگی کو بقعہ نور بناتی رہیں۔
ہم سدا ان کے لیے دست بہ دعا رہیں گے ۔

زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے۔۔۔۔

 

Prof Ayisha yousaf
About the Author: Prof Ayisha yousaf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.