ملکہ کا سوگ منانے والے ممالک اصل حقائق بھول گئے... برطانوی قبضے نے ہم سے کیا کیا چھینا کبھی سوچا ہے؟

image
 
ٹکرکارلسن فاکس نیوز کے میزبان کے ایک بیان نے ہندوستانیوں میں ایک غم وغصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ اینکر نے یہ بیان ملکہ الزبتھ دوم کے انتقال پر ایک شو کے دوران دیا۔ انھوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو مہذب کیا ہے۔ ساتھ ہی ٹکر کارلسن نے دعویٰ کیا کہ برطانوی راج کے خاتمے کے بعد ہندوستان نے کوئی قابل زکر فن تعمیر نہیں کی، امریکہ کے برعکس انگریزوں نے اپنی نو آبادیاتی ذمہ داری کو سنجیدگی سے لیا اور دنیا پر شائستگی کے ساتھ حکومت کی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کسی بھی سلطنت میں نہیں ملتی٬ جب انگریزوں نے ہندوستان سے انخلاء کیا تو وہ اپنے پیچھے ایک پوری تہذیب، ایک زبان، ایک قانونی نظام، اسکول، چرچ اور عوامی عمارتیں چھوڑ گئے، جو آج بھی استعمال میں ہیں۔
 
ان کے تبصروں کو دنیا بھر کے سیاست دانوں، مبصرین اور سوشل میڈیا صارفین نے نسل پرستانہ اور اصل تاریخ سے لاعلمی قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حالیہ دنوں میں، ہندوستان سمیت دنیا بھر کے کئی نامور ادیبوں اور ماہرین تعلیم نے برطانوی بادشاہت پر تنقید کی ہے، جو ان کے بقول، بربریت کی ایک زندہ مثال ہے۔
 
ہم برصغیر پاک وہند کی قوم ہونے کی حیثیت سے برطانوی تسلط کی اصلیت سے اچھی طرح واقف ہیں ہم جانتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام سے پہلے برصغیر کیا تھا، استعمار نے تو ہندوستان کو صرف اور صرف بربادی دی ہے، ہمیں غلامی کی زنجیروں میں باندھ دیا ہے۔ ان کی زبان اور روایات نے ہمیں احساس محرومی کے علاوہ کیا دیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر برطانوی اس خطے میں نہ مسلط ہوتے تو یہ خطہ آج کہاں ہوتا؟ اس کے لئے ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنا ہوگا اور آج کی ایک تصوراتی دنیا کا خاکہ کھینچنا ہوگا تاکہ سفید فام احساس برتری کو خود ساختہ خوش فہمی سے بیدار کیا جائے۔
 
image
 
برطانوی دنیا کے اس وقت کے مالدار ترین خطے میں تجارت کے دھوکے سے داخل ہوئے تھے۔ جہاں ان سے پہلے مسلمان حکمران تھے جن کے فن تعمیر کو کوئی چیلنج ہی نہیں کر سکتا اس لئے ان کا یہ دعویٰ کہ انھوں نے برصغیر کو فن تعمیر سے آراستہ کیا بالکل غلط ہے۔ تعلیم میں بھی مسلمان دنیا کی قوموں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ جیسے ابن سینا،، ابن رشد، ابن بطوطہ، عمر خیام و غیرہ۔ غرض اس زمانے کے بڑے بڑے علماء کی نسل کشی کی گئی تاکہ یہ قوم اپنے پیروں پر دوبارہ نہ کھڑی ہو سکے۔
 
ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہی لے لیں یہ خطہ برطانوی تسلط سے پہلے دنیا کی سب سے بڑی اور مقبول ترین برآمد کا گڑھ تھا۔ اس کی مثال رومن خواتین کی پرصغیر کے ٹیسٹالئل کی پسندیدگی تھی۔ اس زمانے میں رومن امراء خواتین اس خطے کے کپڑے کی شدید شیدائی تھیں جس کی وجہ سے رومن سونا برصغیر کپڑے کی فروخت کی صورت میں آ رہا تھا جو رومن حکمرانوں کو بہت چبھتا تھا۔
 
برطانوی راج میں برصغیر کے کارخانوں کی کھڈیاں توڑ دی گئیں اور ماہرین کے انگھوٹے کاٹ دئیے گئے یہ ان کے فن کا قتل تھا تاکہ وہ اپنی مہارت کو استعمال نہ کر سکیں اور غلام قوم کی زندگی گزاریں۔
 
برصغیر کے ہیرے جواہرات اور دولت کی چوری اور برطانیہ میں منتقلی سے کون واقف نہیں ہے۔ برصغیر کے کوہ نور ہیرے کو شاہی تاج پر جڑا گیا ہے جو اس خطے کے لوگوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہوتا یہ ہی وجہ ہے کہ لوٹے ہوئے مال کی واپسی کی ڈیمانڈ گاہے بگاہے کی جاتی ہے۔
 
image
 
برطانوی قبضہ کے دوران بنگال قحط کے لئے دنیا سے آنے والی مالی امداد کبھی بھی بنگالیوں تک نہ پہنچی تو چرچل کے حکم پر سارا گندم یورپ تجارت کیا گیا اور کچھ زخیرہ اندوزی کے لئے برطانیہ بھیج دیا گیا۔ اس وقت بنگال میں تقریباً 4 ملین لوگ بھوک سے مر گئے۔ یہ بہترین جمہوریت ہے جو دنیا کی بدترین آمریت کی بھی مثال ہے۔
 
اب برطانوی تسلط سے پاک پرصغیر کا تصور انتہائی واضح ہو جاتا ہے کہ اگر برطانوی راج نہ ہوتا تو ہم ہر میدان کے ماہر ایک لیڈنگ قوم ہوتے اور دنیا ہماری پیروی کر رہی ہوتی۔ زبان کی جہاں تک بات ہے تو چین، جاپان اور جرمنی اپنی ہی زبان اور تعلیمی سسٹم کے ساتھ انتہائی فخر کے ساتھ دنیا کی لیڈنگ قوم ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: