علی ایک چھوٹا بچہ تھا فطرتاً وہ سادہ اور معصوم تھا۔
لیکن امی ابو کی بے جا مار اور ڈانٹ ڈپٹ نے اسے تھوڑا باغی بنا دیا تھا۔ وہ
پڑھائی میں بھی بے حد اچھا اور لائق تھا۔
جب والدین کی مناسب توجہ نہ رہی تو وہ بگڑنے لگا، آج یوں ہوا کہ ٹی وی
لاوَنج سے اٹھ کر وہ کچن میں پانی پینے آیا۔ غلطی سے ایک گلاس اس کے ہاتھ
سے پھسلا اور فرش پر جا گرا۔
چھوٹی بہن ماہرہ ویڈیو گیم کھیل رہی تھی۔ پانی پینے کی غرض سے وہ بھی کچن
کی طرف آ رہی تھی۔ گلاس ٹوٹنے کی آواز پر اس کے ننھے قدم وہیں جم گئے۔ وہ
سب دیکھ چکی تھی۔
امی ابو اورفاطمہ اتنی اونچی آواز آنے پر دوڑے چلے آئے تو پوچھنے پرعلی
بوکھلا کر بولا: بلی دودھ پینے آئی تھی اس کی ٹانگ لگنے سے گلاس شیلف سے
نیچے گرگیا۔
ایسا ہوتا بھی تھا ۔ بلی واقعی سامنے والی سیڑھیوں سے نیچے ڈھلتی سیدھا کچن
کا رخ کیا کرتی تھی، اس لحاظ سے علی کی بات کا اعتبار کر لیا گیا۔ لیکن اس
کے باوجود امی ابو نے اسے خوب ڈانٹا اور وہ اپنا سا منہ لے کر ایک طرف ہو
گیا۔
سہمے ہوئے علی کی آنکھیں جب ماہرہ سے ٹکرائیں تو ننھے علی نے چھوٹی ماہرہ
کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ نہ کہنے کا اشارہ کیا۔ اس بات کو چند روز
گزر گئے تھے علی کو شدید غصہ تھا کہ ذرا سی بات پر اسے امی ابو نے اتنا
زیادہ کیوں ڈانٹا اور برا بھلا کہا۔
ماں باپ کے غلط رویے کے خلاف علی کے اندر منفی جذبات اور انتقام نے سر
اٹھایا۔ ایک روز وہ چھپتا چھپاتا ابو کے کمرے میں آیا ان کی پینٹ کی جیب
میں ہاتھ ڈالاعلی کو وہاں پانچ سو کا کڑکڑاتا ہوا نوٹ ملا۔ جسے دیکھ کر وہ
بے حد خوش ہوا۔ جلدی سے اس نے نوٹ کی دو تہیں لگائیں ۔ اپنی جیب میں ڈالا
اورباہر نکل آیا۔ پھروہ بازارچلا گیا کچھ پتنگیں خریدیں۔ مزے مزے کی چیزیں
کھائیں۔ دوستوں کو بھی خوب مزا کرایا اور خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔
شام کو ابو چلانے لگے: میری پینٹ کی جیب سے پیسے کس نے نکالے ہیں؟
علی سمیت تینوں بچوں نے انکار کردیا تب ابو نے علی کو ہی پکڑا اور چپل لے
کر خوب مرمت کی۔ علی درد سے بہت کراہا۔ رویا اور چلایا۔ مگر سخت گیر ابو کو
بالکل رحم نہ آیا۔ اس دلدوز واقعہ کے بعد ابو کے خلاف نفرت کے شدید جذبات
علی کے دل میں جڑ پکڑ چکے تھے۔ دو روز بعد وہ سکول آیا اور سیکنڈ پیریڈ
میں کلاس سے غائب ہوگیا۔ ماہانہ ٹیسٹ ہو رہے تھے پر اس کی تیاری نہ ہونے کے
برابر تھی کلاس کی پرلی طرف وہ سکول کے باغ میں چھپا بیٹھا تھا۔ علی کاننھا
دل پکڑے جانے کے خوف سے کانپ رہا تھا۔
وہ سوچنے لگا: ’’نہ تو گھر میں امی ابو کے ساتھ مزہ آتا ہے، نہ ہی اب سکول
میں کوئی ٹیچر اچھی ہیں۔"
یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں سے دو بوندیں ٹپک پڑیں۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ
دو دن پہلے ننھے علی پر کیا قیامت گزری ہے اور کیوں اس کے ٹیسٹ کی تیاری
نہیں ہوسکی؟
پیریڈ ختم ہونے والا تھا باغ کے روٹ پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔ علی چونک
گیا، گردن گھما کر دیکھا تو اس کا کلاس مانیٹر عدیل تھا۔ اسے دیکھتے ہی علی
کے اوسان خطا ہو گئے۔
عدیل نے آتے ہی دہشت ناک شکل بناتے ہوئے کہا:
ہاں بچو جی کلاس میں چلو! ٹیچر تمہیں بتاتی ہیں ۔ انہوں نے مجھے بھیجا ہے
تمہیں ڈھونڈنے کے لئے۔ وہ کہہ رہی تھیں علی نے ٹیسٹ نہیں دیا اسے جرمانہ
دینا پڑے گا اور سزا بھی ملے گی۔ علی بے حد گھبرا گیا خوف سے اس کے ماتھے
پر پسینے کی بوندیں ابھر آئیں۔ جب وہ کلاس میں داخل ہوا تو کلاس انچارج
میڈم زبیدہ نے اسے ڈانٹا۔ سب بچوں کے سامنے ذلت کا یہ سماں علی سے برداشت
نہ ہو سکا۔ موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے بہتے اس کا کالر بھگونے لگے۔
عجیب بات تھی میڈم زبیدہ نے علی سے پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ آخر
علی کے باہر جانے کی وجہ کیا ہے۔ ؟ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ او رنہ ہی
ٹیچر ہوتے ہوئے بھی وہ یہ بات سمجھ پائیں کہ انہیں بچوں کے ساتھ کیسا سلوک
کرنا چاہیے؟
گم صم روتا ہوا علی خود کو حقیر محسوس کرتا کلاس کے ایک کونے میں الگ تھلگ
سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ بچوں کی پھبتی اور تمسخر آمیز باتیں اسے اندر سے چیر
رہی تھیں۔ بلند ہوتے قہقہے اس کا ضبط ہلا رہے تھے۔ بے حس چہروں پر مذاق
اڑاتی آنکھیں علی کے حساس دل کو چھلنی کر رہی تھیں۔ گھر کے اندر اور باہر
بے حسی دیکھ دیکھ کرعلی بہت بیزار ہو گیا تھا۔ اب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ
وہ کلاس میں اکیلا بیٹھا کرے گا اور کسی بھی بچے کو اپنے ساتھ نہیں بیٹھنے
دے گا۔ سکول کی خوفناک فضا اور بچوں کے ہجوم میں علی گویا خود کو تنہا
محسوس کرنے لگا۔
احمد جو علی کا اچھا دوست تھا ایک دن بریک کے وقت وہ علی کو ڈھونڈتا ہوا
کلاس کے پیچھے آ نکلا اور دیکھا کہ علی ایک درخت کے نیچے بیٹھا اپنا ٹیفن
کھول کے ناشتہ کر رہا تھا۔ احمد کو بہت تعجب ہوا اور بولا: علی یہاں اکیلے
کیوں بیٹھے ہو؟ چلو میرے ساتھ کینٹین چلتے ہیں۔ علی نے بیزارکن لہجے میں
کہا:
نہیں یار میں ادھر ہی بیٹھ کے ناشتہ کرتا ہوں وہاں بہت شور ہے۔
جماعت سوم کا ننھا احمد بھی نہ سمجھ پایا کہ شور سے علی کی کیا مراد ہے؟
اور وہ کیوں تنہائی پسند ہوتا جا رہا ہے؟ مہینے کے اختتام پر علی کا رزلٹ
بھی آنا تھا اور پیرنٹس میٹنگ بھی تھی۔ امی بھی علی کے ہمراہ اسکول چلی
آئیں۔ علی نے جب رپورٹ کارڈ اپنے ہاتھوں میں لیا تو دیکھا وہ چار مضامین
میں فیل ہوگیا ہے۔ شرمندگی کے احساس سے اس کے تپتے ہوئے گال سرخ ہونے لگے
اور وہ امی کے پیچھے چھپ کر رونے لگا۔ امی علی کی حالت دیکھ کر شدید پریشان
ہوئیں۔ واپسی پر وہ بے حد ناراض تھیں۔ مگر ماں کا دل رحم سے تڑپ اْٹھا تھا۔
وہ سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ آخر علی کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ کے جی، نرسری
پریپ اور کلاس ٹو تک تو وہ فرسٹ آتا رہا تھا اور اب یہ کیا وہ فیل ہونے لگ
گیا تھا۔
افسردہ اور مغموم دیکھ کر بڑی بہن فاطمہ نے امی کی خوب دلجوئی کی۔ فاطمہ
بارہویں کی طالبہ اور ایک نہایت ذہین لڑکی تھی۔ دلاسہ دیتے ہوئے اس نے امی
کو بتایا امی جان بچوں کے مسائل کے لئے ایجوکیشنل سائیکالوجسٹ بھی سکول میں
دستیاب ہوتے ہیں۔ ہم کیوں نہ علی کے متعلق ان سے رجوع کریں۔؟ امی کو فاطمہ
کا مشورہ بے حد پسند آیا آخر وہ ماں تھیں اور انہیں اپنے بچوں کی
خوشحالی، صحتمندی ،ذہنی توازن اور مستقبل ہر قیمت پر عزیز تھے۔ ملاقات پر
امی نے نفسیات کی ماہر ڈاکٹر کو علی کے متعلق تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا
تو ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا:
اس کے لیے انہیں علی اس کی امی اور ابو سے بھی باری باری کاوَنسلنگ درکار
ہے۔
ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق امی علی کو اپنے ساتھ لے جانے لگیں اور ہر ہفتے
سائیکالوجسٹ کے ساتھ دونوں کے سیشن ہونے لگے۔
ڈاکٹر نے امی کو سمجھایا:
"چھوٹے بچے نہایت معصوم اور حساس ہوتے ہیں بُرا سلوک ان کے معصوم اور کورے
ذہنوں کو خراب اور پراگندہ کرتا ہے، اس لیے ایسے رویوں سے حتیٰ الامکان
بچنا چاہئے اور نرمی اور شفقت سے بچوں کی اچھی تربیت کرنی چاہیے۔ یوں بچوں
کے بگڑنے کا امکان بھی کم رہ جاتا ہے۔"
ماہر نفسیات کی مدد سے حقیقت جان لینے کے بعد امی بہت رنجیدہ اور پشیمان
ہوئیں اور یہ سوچنے کے قابل ہوئیں کہ وہ خود اور علی کے ابو ننھی کلیوں کو
کھِلنے سے پہلے ہی جلا رہے تھے۔ نیا اور تکلیف دہ انکشاف ہونے پر امی نے
اپنا رویہ یکسر تبدیل کر لیا تھا۔ مارنا پیٹنا تو درکنار امی نے تو ڈانٹنا
تک چھوڑ دیا۔ چھوٹے علی اور ماہرہ پر خصوصی توجہ دینا شروع کر دی۔
ایک سیشن کے دوران علی ڈاکٹر سے مخاطب ہوا:
ڈاکٹر آنٹی میں آپ کے کہنے پر اچھا بچہ بنوں گا اور وعدہ کرتا ہوں آپ کو
سب بتاؤں گا پہلے آپ بھی وعدہ کریں آپ بابا کی مار سے مجھے بچائیں گی؟
علی کا درد ناک لہجہ، معصومانہ استفسار اور آنکھوں میں خوف دیکھ کر ڈاکٹر
صاحبہ نے وعدہ کیا اور یقین دلاتے ہوئے کہا:
ٹھیک ہے بیٹا آپ ڈرو نہیں ہم سب آپ کی مدد اور تعاون کے لیے یہاں موجود
ہیں۔ ہم ضرور آپ کے بابا کو سمجھائیں گے۔ بس اب آپ بھی کبھی بھی شرارت
نہیں کروگے۔ اور ہمیشہ کے لئے اچھے بچے بن جاوَ گے۔
یہ کہہ کر انہوں نے دراز کھولا اور بچوں کی کہانیوں کی ایک کتاب " جیت کی
دستک" نکال کر مسکراتے ہوئے علی کے ہاتھ میں تھما دی اور کمرے سے جانے کی
اجازت دی. اور امی کو روک کر سمجھایا کہ ماحول کی مکمل تبدیلی اور سکون کے
لئے علی کے ابو کو بھی کاوَنسلنگ کے لئے آمادہ کریں۔
ابتدا میں توروایتی رعب کے زیراثر ابو نہ مانے، پھرامی کے بہت سمجھانے
بجھانے پر مان گئے۔ پہلے دو ماہ پھر چار اور چھ ماہ کے لگاتار سیشن کے بعد
علی کے ابو بھی ماہر نفسیات کی رہنمائی سے معاملات اور مسائل کی نوعیت
سمجھنے کے قابل ہوگئے تھے۔ اپنے رویے کے متعلق ابو بھی سنجیدگی سے غور کرنے
لگے تھے۔ اپنے متعلق سچ جان کر انہیں بھی بے حد تاسف ہوا تھا۔ ڈاکٹر کی مدد
سے ذہن کے پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ لیا گیا تھا۔
سال تیزی سے گزر رہا تھا اور اپنے ہمراہ ڈھیر ساری دلچسپیوں کا سامان لئے
ہوئے تھا۔
علی کے ابو بھی دھیرے دھیرے خود کو بدل رہے تھے۔ وہ اب بچوں کو سکول لانے
اور لے جانے لگے تھے۔ امی کے ساتھ مل کر بچوں کی پڑھائی اور دیگر سرگرمیوں
میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ دفتر کے بعد اب وہ اپنا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ
گزارتے۔ رفتہ رفتہ ابو کا خوف بچوں کے اندر سے جانے لگا۔ بچے کھلتا ہوا اور
پرسکون محسوس کر رہے تھے۔ ایک نئے پراعتماد اور دوستانہ ماحول میں بچے کھل
کر سانس لینے لگے تھے۔ امی اور ابو کی بھرپور توجہ اور محنت کایہ نتیجہ
نکلا کہ اس سال علی چوتھی جماعت میں سیکنڈ آیا، ماہرہ کلاس دوم میں فرسٹ
آئی اور فاطمہ نے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا اور یوں ہنستا بستا گھر خوشیوں اور
مسرتوں کے قہقہے بکھیرنے لگا۔
پیارے بچو! اگر ٹیسٹ کی تیاری میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مناسب انداز میں
ٹیچرکوبتایا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ آپ کی مدد کر سکیں۔ آپ کے گھر والوں سے
بات کر کے آپ کے لیے آسانی پید ا کر سکیں۔
|