اٙمواتِ قیامت اور اٙمواتِ بے قیامت !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالحاقة ، اٰیت 1 تا 18 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُرد زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الحاقة 1
ما الحاقة 2 و
ما ادراک ما الحاقة 3
کذبت ثمود و عاد بالقارعة 4
فاما ثمود فاھلکوا باطاغیة 5 و اما
عاد فاھلکوا بریح صر صر عاتیة 6 سخرھا
علیھم سبع لیال و ثمٰنیة ایام حسوما فتری القوم
فیھا صرعٰی کانھم اعجاز نخل خاویة 7 فھل ترٰی لھم
من باقیة 8 و جاء فرعون و من قبلہ و الموؑتفکٰت بالخاطئة
9 فعصوا رسول ربھم فاخذھم اخذة رابیة 10 انا لما طغا الماء
حملنٰکم فی الجاریة 11 لنجعلھا لکم تذکرة و تعیھا اذن واعیة 12
فاذا نفخ فی الصور نفخة واحدة 13 و حملت الارض والجبال فدکتا دکة
واحدة 14 فیومئذ وقعت الواقعة 15 و انشقت السماء فھی یومئذ واھیة 16
والملک علٰی ارجائھا و یحمل عرش ربک فوقھم یومئذ ثمٰنیة 17 یومئذ تعرضون
لا تخفٰی منکم خافیة 17
اے ہمارے رسُول ! وہ جو حقیقت ہے تو کیا حقیقت ہے جس کے بارے آپ نہیں جانتے کہ وہ کیا حقیقت ہے ، ہم بتاتے ہیں کہ وہ وہی حقیقت ہے جو ہم نے قومِ ثمُود پر ظاہر کی تھی تو قومِ ثمُود اُس کی ایک ہی خوفناک آواز سے نابُود ہو گئی تھی ، اُس کے بعد ہم نے وہی حقیقت قومِ عاد پر ظاہر کی تھی تو ایک تُند و تیز ہوا کی صورت میں سات رات اور آٹھ دن تک ہم نے اُس پر وہ قیامت قائم رکھی تھی جس نے اُس کے جسموں کو اِس طرح بگاڑ دیا تھا کہ اگر آپ دیکھ لیتے تو آپ کو اُن کے وہ اٙجسام پُرانی گری ہوئی کھجُوروں کے سڑے گلے ہوئے وہ بو سیدہ تنے نظر آتے جن کی اٙب باقیاتِ عبرت بھی زمین پر باقی نہیں ہیں ، قومِ فرعون اور اُس سے پہلی جو نا فرمان اٙقوام اِس زمین پر آئی تھیں اُن سب اٙقوام نے بھی اپنے رٙب کی اسی طرح نافرمانی کی تھی اور وہ سب اٙقوام بھی اسی طرح اللہ کی گرفت میں آکر اپنے اپنے اٙنجام کو پُہنچی تھیں اور وہ قوم بھی اِن ہی نافرمان اٙقوام میں سے ایک قوم تھی جس کو ہم نے آبی طوفان میں ڈبو کر غرق کیا تھا اور زمین پر اُس انسانی نسل کے صرف اُن اٙفراد کو آنے والی انسانی نسلوں کی عبرت و بقا کے لئے سفینہِ نُوح میں سوار کرایا اور بچایا تھا جو اٙفراد نُوح کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے اور ہم آئندہ بھی جس قوم پر قیامت قائم کرنا چاہیں گے تو ہماری بر پا ہونے والی اُس قیامت کا ایک بگل بجتے ہی زمین اور اُس کے سارے پہاڑ سیدھے اُٹھا کر اُلٹے گرا دیئے جائںں گے جو اُس کے ایک ہی جٙھٹکے سے ٹُوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے جس کے بعد یومِ حساب میں داخل ہونے والوں کے سامنے سے آسمان کے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ قیامت بر پا ہو جائے گی جس کا اُن کو یقین نہیں تھا اور اُس روز خلا کے جس بلند مقام پر زیرِ احتساب لوگوں کے لئے وہ دفترِ احتساب قائم ہوگا جس کو خالقِ عالٙم کے کارندوں نے اِس طرح گھیر رکھا ہو گا کہ اُس کی چاروں جہتوں پر جو دو دو نگران کھڑے ہوں گے اُن کی مجموعی تعداد صرف آٹھ ہو گی جو اُن سب کو کنٹرول کر رہے ہوں گے اور اُس روز اُس دفترِ حساب میں جو حساب ہو گا اُس حساب میں سب کا سب کیا دھرا سب کے سامنے آجائے گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عالٙم و اہلِ عالٙم کا عملی قیام عالٙم و اہلِ عالٙم کے اُس عملی اِنہدام کا ایک منطقی نتیجہ ہے جو عملی اِنہدام اِس عالٙم میں اٙزل کے پہلے لٙمحے سے اِس عالٙم میں اٙبد کے آخری لحظے تک جاری کیا گیا ہے اور عالٙم و اہلِ عالٙم کا وہ عملی انہدام بھی عالٙم و اہلِ عالٙم کے اُس عملی قیام کا ایک منطقی نتیجہ ہے جو عملی قیام اِس عالٙم میں اٙزل کے پہلے لٙمحے سے اِس عالٙم میں اٙبد کے آخری لحظے تک جاری کیا گیا ہے اور اِس طرح عالٙم کے یہ دونوں اعمالِ قیام و اِنہدام عالٙم میں اُس وقت تک جاری رہیں گے جس وقت تک اللہ تعالٰی اِن کو جاری رکھنا چاہے گا اور عالٙم سے عالٙم کے یہ دونوں اعمال اُس وقت ختم ہو جائیں گے جس وقت اللہ تعالٰی اِن کو ختم کرنا چاہے گا ، عالٙم و اہلِ عالٙم کے قیام و انہدام کا یہ سلسلہ چونکہ پہلو دٙر پہلو ہو کر ہمیشہ سے ایک دُوسرے کے ساتھ جڑا ہوا رہا ہے اِس لئے قُرآن عالٙم و اہلِ عالٙم کے نظری انہدام کو بھی قیام کہتا ہے کیونکہ وہ انہدام ایک نئے قیام کے لئے ہوتا ہے اور قُرآن عالٙم و اہلِ عالٙم کے متوقع قیام کو بھی قیام ہی کہتا ہے جو موت کے بعد عمل میں آتا ہے کیونکہ اُس کے قیام کے بعد عالٙم و اہلِ عالٙم کا جو دُوسرا قیام ہوتا ہے وہ اُس کی جزا و سزا پر مُنتج ہوتا ہے اسی لئے قُرآن نے اٰیاتِ بالا میں قوم عاد و قومِ ثمود اور قوم نُوح و قومِ فرعون کے اُس تاریخی انہدام کو بھی عملِ قیام ہی کہا ہے کیونکہ اُن اٙقوام کا یہ پہلا قیام اُن اٙقوام کے اُس دُوسرے قیام کا پیش خیمہ ہے جس قیام کے بعد اُن اٙقوام اور اٙفراد نے اپنی اپنی حیات کے اعمالِ حیات کا حساب دے کر اُس منطقی اٙنجام تک جانا ہے جس اٙنجام سے اُن کو اِس دُنیا میں اللہ کے نمائندوں نے بار بار آکر ڈرایا ہے ، اِس سُورت کا موضوعِ سُخن یہی قیامت ہے جو اپنے آغاز کی سمت سے بھی قیامت ہے اور اپنے اٙنجام کی جہت سے بھی ایک قیامت ہے اور انسان کو قیامت کا یہ عمل اِس کے آغاز و اٙنجام کے حوالے سے اِس لئے سمجھایا گیا ہے کہ انسان کی جسمانی تخلیق اور انسان کی جسمانی تدفین کا عمل بذاتِ خود بھی اپنی دونوں جہتوں سے اِقامت بالقیامت ہی کا ایک عمل ہے اِس لئے اِس حقیقت کا انکار اپنی تخلیقِ ذات کا انکار ہے اور اپنی تخلیقِ ذات کا انکار اپنے خالق کی ذات کا انکار ہے اسی لئے قُرآن نے انسانی ایمان کو ایمان بالآخرہ کے ساتھ لازم کیا ہے ، قُرآن نے اٰیاتِ بالا کے اِس ایک مقام کے علاوہ قُرآن کے ہر ایک مقام پر قومِ عاد و ثمُود اور قومِ نوح و قومِ فرعون سمیت خُدائی عذاب سے فنا ہونے والی تمام اٙقوام کی اجتماعی موت کے عمل کو قیامت کا نام دیا ہے اور اُن تمام اٰیات کے مطابق اُن تمام اٙقوام پر قیامت کا جو عمل قائم ہوا ہے اُس عمل کے بعد اُن کے اعمالِ حیات کا حساب بھی شروع ہو گیا ہے جو اِس بات کی دلیل ہے کہ عالٙم و اہلِ عالٙم پر جو آخری قیامت آئے گی اُس میں صرف اُن عالٙم و اہلِ عالٙم کا حسابِ حیات ہو گا جن پر وہ آخری اور بڑی قیامت آئے گی جہان تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو پہلے ہی اپنے اپنے وقت پر اپنی اپنی قیامت سے گزرتے ہیں اُن کا اُس آخری قیامت سے پہلے ہی حسابِ حیات ہو جاتا ہے اِس لِئے یہ اعتقاد باطل ہے کہ جو قوم ایک کروڑ برس پہلے مر چکی ہوتی ہے اُس کا حسابِ حیات اُس قوم کے ساتھ ہوتا ہے جس نے ایک کروڑ برس بعد مرنا ہوتا ہے ، اسی طرح جو اٙفراد الگ الگ وقتوں میں مرتے ہیں اُن کے اعمالِ حیات کا حساب بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے اور ہر ایک انسان کو اُس کے اٙچھے یا بُرے اعمال کے اٙچھے یا بُرے اٙنجام تک پُہنچا دیا جاتا ہے ، اہلِ روایات و تفاسیر نے اِس سُورت کی اٰیت 17 سے جو یہ کہانی وضع کی ہے کہ اُس روز آٹھ فرشتے اللہ کا عرش اُٹھا کر اُس مقام تک لائیں گے جس مقام پر اہلِ ایمان و اہلِ کفر کا حسابِ عمل ہو گا مگر سوال یہ ہے کہ اِس تکلف کی ضروت ہی کیوں پیش آئے گی اور اِس اٙمر میں وہ کیا رکاوٹ ہو گی کہ جس رکاوٹ کی وجہ سے خالق کے اُس عرش کے پاس ہی مخلوق کے حسابِ اعمال کا کوئی وسیع میدان نہیں بن سکے گا ، اگر جنت و جہنم بن سکتی ہے تو ایسا میدان کیوں نہیں بن سکتا جس میں محشر میں جمع ہونے والے اُن اہلِ محشر کا حساب ہوسکے ، یہ تو اُس عرش کی بھی کُھلی توہین ہے اور اُس عرش والے کی بھی ایک کُھلی توہین ہے ، بہر حال اِس عرش سے مراد اللہ کے بیٹھنے کا تخت نہیں ہے بلکہ اُس کا ایک دفترِ عمل ہے اور اُس کے ساتھ اُس دفترِ عمل کے اُن محافظوں کا ذکر ہے جو اُس دفترِ عمل کے آس پاس اُس دن موجُود ہوں گے جیساکہ متنِ اٰیات کے مفہوم میں بھی ہم نے واضح کر دیا ہے ، اِس سُورت کا پہلا مضمون انسان کا زندگی سے موت کی طرف جانا ہے جو اِن اٰیات میں بیان ہوا ہے جب کہ اِس کا دُوسرا مضمون انسان کے اعمال کا مُرتب ہو کر اُس کے سامنے آنا ہے اور اِس کا تیسرا مضمون یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں اِس کتاب نے جو بتایا ہے وہی اِس عالٙم کا پہلا آخری سچ ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558645 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More