#العلمAlilm سُورٙةُالحاقة ، اٰیت 19 تا 37 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فاما من
اوتی کتٰبہ بیمینہ
فیقول ھاوؑم اقرءوا
کتابیة 19 انی ظننت انی
ملٰق حسابیة 20 فھو فی عیشة
راضیة 21 فی جنة عالیة 22 قطوفھا
دانیة 23 کلوا و اشربوا ھنیئا بما اسلفتم فی
الایام الخالیة 24 و اما من اوتی کتٰبہ بشمالہ فیقول
یٰلیتنی لم اوت کتٰبیة 25 ولم ادر ما حسابیة 26 یٰلیتھا
کانت القاضیة 27 ما اغنٰی عنی مالیة 28 ھلک عنی سلطٰنیة
29 خذوہ فغلوہ 30 ثم الجحیم صلوہ 31 ثم فی سلسلة ذرعھا
سبعون ذراعا فاسلکوہ 32 انہ کان لا یوؑمن باللہ العظیم 33 ولا یحض
علٰی طعام المسکین 34 فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم 35 ولا طعام الا من
غسلین 36 لا یاکلہ الا الخٰطوؑن 37
پھر جس انسان کے دٙستِ سعادت سے جس کے انسان کے دٙستِ سعادت میں اُس کے
اعمالِ سعادت کی کتابِ سعادت دی جاتی ہے تو وہ نہال ہو کر کہتا ہے کہ یہ لو
، اٙب تُم بھی میرے اعمالِ سعادت کی یہ کتابِ سعادت پڑھ لو ، مُجھے پُورا
یقین تھا کہ اِس حسابِ عمل کے دن میرے سارے اعمالِ سعادت کی ساری جمع
پُونجی مُجھے مل جائے گی اور اِس کار وائی کے بعد وہ اُس اٙعلٰی جنت کی اُس
اعلٰی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نعمتیں اُس کی طرف لٙپک رہی ہوتی
ہیں اور اُس سے کہا جاتا ہے کہ اٙب تُم کشادہ دلی کے ساتھ یہاں پر اللہ کی
کشادہ روزی کھاتے پیتے رہو لیکن جس انسان کے دٙستِ شقاوت سے جس انسان کے
دٙستِ شقاوت میں اُس کے اعمالِ شقاوت کی کتابِ شقاوت دی جاتی ہے تو وہ کہتا
ہے کہ کاش کہ مُجھے موت سے اِس زندگی میں لا یا ہی نہ جاتا اور میرے اعمالِ
شقاوت کی یہ کتاب مُجھے دی ہی نہ جاتی اور میں اپنی اِس داستانِ رُوسیاہی
کو کبھی جان ہی نہ سکتا تو یہی میرے لئے بہتر ہوتا ، افسوس کہ میرے مال نے
مُجھے کوئی نفع نہ دیا اور میری غفلت نے میرا سارا غلبہ و جلال بھی مُجھ سے
چھین لیا اور اُس کے اِس اعتراف کے بعد حُکم ہوتا ہے کہ اٙب اِس کو جہنم کا
طوق پہنادیا جائے اور ایک ایک لمبی زنجیر کے ساتھ جکڑ کر جہنم میں ڈال جائے
، اِس کا پہلا بڑا جُرم یہ ہے کہ یہ اللہ کی ذات کا انکار کرتا تھا اور
دُوسرا بڑا جُرم یہ ہے کہ یہ کسی بُھوکے کو کُچھ کھلانے کا روا دار بھی
نہیں تھا اِس لئے آج یہ بد کار تنہا ہے اور اِس بٙد کار کے کھانے کے لئے
بھی وہی خوراک ہے جو بٙد کاروں کی بدی سے بنی ہے اور بد کاروں کے لئے بنی
ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی پہلی اٰیات میں سے اِس سُورت کی آخری اٰیت کا آخری مضمون یہ
تھا کہ قیامت کے روز خُدا کے اُس خُدائی دفترِ عمل میں قائم ہونے والے اُس
دفترِ عمل میں انسان کا جو اجتماعی حسابِ عمل ہو تا ہے اُس اجتماعی حسابِ
عمل کے نتیجے میں جس جس انسان کا جو جو بھی کیا دٙھرا ہوتا ہے وہ سب کا سب
ہی سب کے سامنے آجاتا ہے اور موجُودہ اٰیات کے اِس موجُودہ مضمون میں قُرآن
نے جو حیرت انگیز انکشاف کیا ہے اُس حیرت انگیز انکشاف کا مُختصر پس منظر
یہ ہے کہ انسانی جسم میں ایک تو وہ ظاہری انسان مُتحرک بالعمل ہوتا ہے جو
اپنے ظاہری ماحول میں سنائی دینے والی آوازوں کو اپنے ظاہری کانوں سے کو
سُنتا ہے ، اپنے ظاہری ماحول میں دکھائی دینے والے رنگوں اور صورتوں کو
اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنے ظاہری مُتحرک بالعمل قدموں سے چل
کر ایک جگہ سے دُوسری جگہ پر جاتا اور آتا رہتا ہے جب کہ اسی انسانی جسم
میں وہ دُوسرا باطنی انسان بھی موجُود ہوتا ہے جو باطنی انسانی جسم کے
ظاہری اعضائے جسم میں نظر آنے والے مُتحرک بالعمل انسان کو کانوں سے اپنی
پسند کی آوازیں سُننے کا حُکم دیتا ہے ، اُس کی آنکھوں کو اپنی پسند کی
چیزیں دیکھنے پر آمادہ کرتا ہے اور اُس کے قدموں کو اپنی پسند کی جگہوں پر
جانے اور آنے کا حُکم دیتا ہے اور انسان کے اِن ظاہری اعضائے جسم سے کام
لینے والا وہ ظاہری انسان قیامت تک نہیں جان سکتا کہ اِس کے باطن میں وہ
کون چُھپا بیٹھا ہے جو اپنی مرضی کی باتیں اُس سے سُنواتا ہے ، جو اپنی
مرضی کے مناظر اُسے دکھاتا ہے اور جو اپنی مرضی کے مقامات پر اُسے کبھی لے
کر جاتا ہے اور کبھی واپس لے کر آتا ہے ، اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت میں اِن
ہی دو انسانوں کی اُس مُلاقات کا وہ منظر اُجاگر کیا ہے جس منظر میں پہلی
بار وہ دو انسان اُس وقت ایک دُوسرے کے آمنے سامنے آتے ہیں جب اِن دونوں کی
حفاظت پر مامور کیئے گِے خُدا کے وہ دو خُدائی نمائندے { کراما کاتبین }
اِن کا اعمال نامہ سعادت و شقاوت لے کر اِن کے پاس آتے ہیں جو اُن کے جسم
کے ظاہری انسان اور اِن کے جسم کے باطنی انسان کی الگ الگ طور پر حفاظت کا
فریضہ بھی اٙنجام رہتے تھے اور الگ الگ طور پر اُن دونوں کے اعمالِ خیر و
شر بھی لکھتے رہتے تھے ، اٰیت ہٰذا میں دو غائب ضمائر کے ساتھ جن دو
انسانوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی دو انسان ہیں جن میں سے ایک کے دٙستِ
سعادت میں خُدا کے اُس خُدائی نمائندے کے ذریعے اُس کا اعمال نامہِ سعادت
دیا جاتا ہے اور دُوسرے کے دٙستِ شقاوت میں بھی خُدا کے اُسی خُدائی
نمائندے کے ذریعے اُس کا اعمال نامہِ شقاوت دیا جاتا ہے ، ہر چند کہ
عُلمائے روایت و تفسیر نے انسان کے اِس دٙستِ { یمین } سے انسان کا سیدھا
ہاتھ مُراد لیا ہے اور انسان کے اِس دٙستِ { شمال } سے انسان کا اُلٹا ہاتھ
مُراد لیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ جنت میں جانے والے اُس جنتی انسان کو اِس
بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اُس کا اعمال نامہ اُس کے سیدھے میں دیا گیا ہے
یا اُس کے اُلٹے ہاتھ میں دیا گیا ہے اور یا پھر سرے سے دیا ہی نہیں گیا ہے
کیونکہ اُس نے یہ اعمال نامہ دکھا کر تو جنت میں نہیں جانا ہوتا بلکہ اُس
نے خُدا کے اُن خُدائی کارندوں کے ساتھ جنت میں جانا ہوتا ہے جو اُس وقت
اُس کی اسی خدمت پر مامور ہوتے ہیں ، اسی طرح ایک جہنمی انسان کو بھی اِس
بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُس کا اعمال نامہ اُس کے اُلٹے ہاتھ میں دیا
گیا ہے یا اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا ہے یا پھر سرے سے دیا ہی نہیں گیا
ہے کیونکہ اُس کو بھی جہنم کا وہ پروانہِ راہ داری ہاتھ میں لے کر جہنم میں
نہیں جانا ہوتا بلکہ اُس کو بھی خُدا کے اُن ہی خُدائی کارندوں کے ساتھ
جانا ہوتا ہے جو اُس وقت اُس کام پر مامور کیئے ہوئے ہوتے ہیں اِس لئے اِس
مُفرد اٰیت کے اِس مُجمل بیان اور اِس کی مُتعلقہ اٰیات کے مُفصل بیان میں
جو حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے وہ حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ انسانی جسم
کے اُس ظاہری انسان اور انسانی جسم کے اُس باطنی انسان کے درمیان یہی وہ
پہلی مُلاقات ہو تی ہے جو اِس طرح پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی کا جو محافظ
نمائندہ جس انسان کی حفاظت کے ساتھ اُس کے اعمالِ خیر و شر لکھنے پر مامور
ہوتا ہے وہ اُس روز اللہ تعالٰی کے حُکم پر اُس انسانی جسم میں رہنے والے
سعادت مند انسان کو اُس کی کتابِ عمل دیتا ہے اور اُس انسانی جسم کا وہ
باطنی انسان جسمِ انسانی کے ظاہری انسان کو اپنے وہ اعمالِ سعادت دکھاتے
ہوئے کہتا ہے کہ آج میرے یہ اعمالِ سعادت تُو بھی دیکھ لے تاکہ تُجھے بھی
معلوم ہو جائے کہ میں نے تُجھے اللہ تعالٰی کے قانون کے خلاف کوئی بات
سُننے کا کوئی حُکم نہیں دیا ہے ، میں نے تُجھے اللہ تعالٰی کے قانون کے
خلافِ کوئی حرکت و عمل دیکھنے پر بھی آمادہ نہیں کیا ہے اور میں نے تُجھے
اللہ تعالٰی کے قانون کے خلاف کہیں آنے جانے پر مجبور بھی نہیں کیا ہے ، آج
مُجھے اپنے اسی عمل کے اپنے سامنے آنے کا یقین تھا اِس لئے آج تُو بھی خوش
ہے اور میں بھی خوش ہوں کہ ہم دونوں کو اللہ تعالٰی سے نجاتِ اٙبدی کا
پروانہ مل گیا ہے بخلاف اِس کے کہ جس انسان کے محافظِ جان و کاتبِ عمل کے
پاس اُس کے اعمالِ شقاوت ہوتے ہیں وہ اُس کے دٙستِ شقاوت میں اُس کی وہی
کتابِ شقاوت دیتا ہے جس کو دیکھ کر وہ کہتا ہے کاش کہ مُجھے میری موت کے
بعد میری اِس زندگی میں لایا ہی نہ جاتا اور مُجھے میرے اعمالِ شقاوت کی یہ
کتابِ شقاوت دی ہی نہ جاتی تو آج میں اپنی اِس رُوسیاہی کو جان کر اپنی اِس
شر مندگی سے بچا رہتا جس کا سامنا کر کے میری رُوح تک لرز رہی ہے کہ میرا
مال میرے کسی کام نہیں آیا ہے اور میری غفلت نے میرا غلبہ و اقتدار بھی
مُجھ سے چھین لیا ہے !!
|