امنگوں، امیدوں اور روشنیوں کا
شہر بضد ہے کہ اندھیروں کو مات دے کر دم لے گا۔ کراچی نے کیا ٹھان لی ہے،
کچھ نہیں کھلتا۔ لوگ مایوس ہوکر کہتے ہیں کہ شہر بے ذہن ہوگیا ہے۔ زندگی
بسر کرنے کے نام پر شب و روز کی چھلنی سے گزرتے رہنا معمول بن گیا ہے۔
نجومیوں کے اشتہارات میں جس سنگ دِل کو قدموں میں ڈالنے کے دعوے ہم پڑھتے
آئے ہیں، شاید کراچی نے اُسی سنگ دِل محبوب کو شرمندہ کرنے کے لیے ناز
نخروں کی سطح بلند کردی ہے! وطنِ عزیز میں سیاسی نجومیوں کی کمی نہیں۔ قدم
قدم پر پیش گوئیوں کا بازار گرم ہے مگر کوئی نہیں بتاتا کہ روٹھے ہوئے
کراچی کے سامنے ”من جا، من جا“ کی رٹ کب تک لگائی جاتی رہے گی؟ کراچی کی
اُلجھی ہوئی لَٹ سُلجھانے کا یارا کسی میں نہیں۔ نجومیوں کے روایتی سنگ دل
محبوب کا تو صرف دِل پتھر کا تھا، کراچی پورے کا پورا پتھر کا ہو چلا ہے
اور یہ تماشا دیکھ کر دِل ہے کہ پانی ہوا جاتا ہے۔ قرار آئے تو کیونکر؟
سُکون میسر ہو تو کیسے؟ کس سے کہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے سمجھائیں کہ
کیوں ہو رہا ہے؟
ہم بھی کیا سادہ ہیں کہ رمضان المبارک کی آمد پر یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب
قتل و غارت کے خوگر بھی کچھ دن شرم کے پردوں میں لپٹے رہیں گے؟ اُمید سی
بندھی تھی کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے بندوں کا کچھ خیال آ جائے گا، مگر
ہمیں یاد نہیں رہا تھا کہ رمضان کے تقدس کا احساس انسانوں کو ہو سکتا ہے،
خون آشام درندوں کو نہیں۔ سوال سرشت کا ہے۔ جن کے منہ کو خون لگ جائے وہ دو
پیروں پر چلنے والے ہوں یا چار پیروں پر، ہوتے حیوان ہیں! جو معاشرے کو
منظم انداز سے زندہ اور توانا رکھے وہی حکمران ہے۔ اِسی طرح جس میں سفاکی،
درندگی اور بوٹی بوٹی نوچ کھانے کی سرشت اُبھر آئے وہ حیوان ہے، خواہ
اِنسان دِکھائی دیتا ہو!
ہاں! درندوں اور انسانی درندوں میں ایک نمایاں فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ
درندوں کے چند اُصول ہوتے ہیں! جن اِنسانوں نے درندوں کو پیچھے چھوڑنے کی
قسم کھا رکھی ہے اُن کی زندگی کسی اُصول اور قاعدے کی محتاج نہیں۔ یہ وہ
بدمست درندے ہیں جو بھرے پیٹ بھی، محض دل پشوری کے لیے، گردنوں میں دانت
گاڑتے پھرتے ہیں۔ انجام اور عواقب کی اِنہیں چنداں فکر یا پروا نہیں۔
یہ کون ہیں جو انسانوں کی دنیا کے کسی اُصول کو نہیں مانتے؟ یہ کون بے حِس
ہیں جو کسی بھی حِس کو ماننے کے لیے تیار نہیں؟ عقل اندازہ لگانے سے قاصر
ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی عقل کو زحمتِ کار دینے کا سوچتے بھی نہیں؟
ساحل پر آباد شہر میں موجیں مارتے، قتل و غارت کے سمندر کا بھی کوئی کنارا
ہے کہ نہیں؟ یقیناً ہوگا مگر نظر تو نہیں آتا! ہم اس معاملے میں یہ دعویٰ
نہیں کرسکتے کہ ہماری کوتاہ بینی ہمیں کچھ دیکھنے نہیں دے رہی! اگر قتل و
غارت کی کوئی حد ہوگی تو یقیناً نظر بھی آئے گی۔ سر دست صرف لاشے گننے کا
شغل رہ گیا ہے! جس ماہِ مبارک میں رحمت نازل ہوا کرتی ہے، کرم برسا کرتا ہے
اس میں ہم بھیگ تو رہے ہیں مگر صرف خون میں! یہ بس نصیب کی بات ہے اور نصیب
بھلا اعمال کے ناگزیر نتیجے کے سوا کیا ہے! پیشانی پر جب ندامت کا عرق
ضَوفشاں نہ ہو تو خون میں شرابور ہونا ہی مقدر ٹھہرتا ہے! اور شہرِ قائد کے
ساکنوں کا یہی مقدر ٹھہرا ہے!
طاقت کے بازار میں دہشت کے سِکے کا چلن ایسا عام ہوا ہے کہ لوگ اپنے ہی گھر
میں خوف کی چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ اپنی ہی چار دیواری غیر محفوظ لگتی ہے۔ جس
طرح سنیما یا ٹی وی کی اسکرین پر پلک جھپکتے میں منظر بدل جاتا ہے، بالکل
اُسی طرح ہماری زندگی اور ہمارے شہر میں سببھی کچھ بدل گیا ہے۔ اب اگر
ہمارے بس میں کچھ رہ گیا ہے تو لمحہ بھر کو حیران رہ جاتا! ہم اپنے تمام
حواس کے ساتھ تیزی سے ”نارمل“ ہو جاتے ہیں۔
حیرت کی منزل سے ہم کب کے گزر چکے۔ اب تو صرف حزن و یاس کا آستانہ رہ گیا
ہے جس پر ہم سر بسجود ہیں۔ اب کچھ بھی ایسا نہیں جو ہمیں چونکائے۔ گل ترکے
قصے کل کی باتیں ہیں، اب تو بس چشمِ تر کی پوچھیے۔ مگر خیر، چشمِ تر بھی
کہاں؟ اب تو آنکھیں بھی خشک ہوئیں۔ دل کی بنجر زمین دیدئہ ترکو ترستی ہے۔
گلزارِ ہستی عجیب موسم سے دوچار ہے۔ دیدہ بینا اب صرف چشمِ تماشا ہے۔ وقت
جو دکھائے، ناچار دیکھنا ہی پڑتا ہے۔
چاروں طرف موت کا برہنہ رقص جاری ہے اور ساتھ ساتھ عید کو گلے لگانے کا
اہتمام بھی ہو رہا ہے۔ بات عجیب سی لگتی ہے مگر زندگی کے دریا کی یہی روانی
ہے جس پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے۔ دشمن اپنا ہو یا پرایا، ہمارے جسم سے
کہیں زیادہ ہماری روح کو زخم دینا چاہتا ہے۔ چند سو یا چند ہزار افراد کو
ختم کر کے باقی لاکھوں یا کروڑوں کو جیتے جی مار دینا ہر دشمن کا بنیادی
ہدف ہوا کرتا ہے۔ یہ نفسی موت ہی ہمارے قومی وجود کے لیے زہر بن سکتی ہے۔
جن کے دِلوں میں رحم نام کی کوئی چیز نہیں، اُن پر یہ جتانا لازم ہے کہ
ہمارے سینوں میں عزیمت نے دم نہیں توڑا، اولوالعزمی نے ساتھ نہیں چھوڑا اور
حواس اب تک توانا ہیں۔
کراچی میں اندھا دھند فائرنگ بھی ہوئی ہے۔ اغواءکی وارداتیں بھی ہوئی ہیں
اور لوگوں کو قتل کرکے بوری میں ڈال کر پھینکا بھی گیا ہے مگر پھر بھی شہر
رکا نہیں، زندگی کے بازار کی رونق ماند نہیں پڑی۔ موت کو سِکہ رائج الوقت
بنانے کی کوششیں اب تک مکمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکیں۔ لوگ اب بھی
اہلِ خانہ کے ساتھ گھر سے باہر آتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور عید کی خریداری
کرتے ہیں۔ شہر کے بازاروں میں زندگی چل پھر رہی ہے۔ لاشیں گر رہی ہیں اور
لوگ عید کے استقبال کی تیاری بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تو کھلا تضاد
لگتا ہے۔
سرسری سوچ اِسے بے حسی قرار دے گی۔ لمحہ بھر کو آپ بھی مکمل اتفاق کرتے
دکھائی دیں گے مگر ذرا اپنے دِل سے پوچھیے۔ کیا سب کو خوفزدہ ہوکر گھروں
میں مقید رہنا چاہیے؟ کیا ایسا کرنے سے ہماری مشکلات ختم یا کم ہو جائیں
گی؟ مشکلات تو خیر کیا کم ہوں گی، ہمارے خون کے پیاسوں کی آنکھوں میں
کامیابی کی چمک ضرور بڑھ جائے گی۔ اُن کی خواہش، سازش اور مقصد یہی ہے کہ
ہم خوف کے غلام ہو رہیں اور اعتماد و جرات کی دولت سے محروم ہونا گوارا
کرلیں!
گولیوں کی گھن گرج میں جن لوگوں نے صوم و صلوٰة کو فراموش اور نظر انداز
نہیں کیا اُن کا عید پر بھی حق ہے اور برحق ہے۔ اُن کی ہمت کو سلام ہے جو
ناطاقتی کے باوجود موت کے ماحول کو منہ دے کر زندگی کی محفل کو بے رونق
ہونے سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ماہِ صیام تمام برائیوں سے محفوظ رہنے کے عہد
پر کاربند رہنے کے لیے ہوتا ہے اور جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے برائیوں سے
مجتنب رہیں اُن کا عید پر پورا حق ہے۔ آتشیں اسلحہ اور موت کا خوف اِس
حقیقی مسرت کو مٹانے کی سکت رکھتا ہے نہ صلاحیت۔
بازاروں میں عید کے لیے خریداری کرنے والوں میں نمایاں ترین جوش و خروش
بچوں کا ہوتا ہے۔ عید ویسے بھی ہر روزہ دار کی ہوتی ہے یا پھر بچوں کی۔
کپڑوں، جوتوں اور کھلونوں کے لیے والدین سے فرمائشیں کرنے اور بضد ہو کر
اپنی بات منوانے والے بچے اجڑتے ہوئے ماحول میں زندگی کی واحد امید اور
اساس ہیں۔ بڑوں میں تو اب عید منانے کا جگرا رہا نہیں۔ ایسے میں بچے ہی
زندگی کا سامان کریں تو دلوں کو قرار آئے۔ کاش ہم بچوں سے کچھ سیکھ سکیں!
موت سے اٹے ماحول میں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا اہتمام کرنے والے زندگی کے
حقیقی علم بردار ہیں۔ ہر وقت گریاں کناں رہنا مشکلات کے تدارک کا درست
طریقہ نہیں۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانا اور جینے پر کمر بستہ
رہنا ہی زندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ زندگی کے بھرے میلے میں موت کی منڈی
لگانے والے ہمارے جسموں کو گولیوں سے داغ کر دراصل ہمارے اجتماعی اعتماد کو
چھیدنا چاہتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کو ثابت کرنا ہے کہ شیطان کے چیلے وقتی
اُٹھان ہیں، ابدی حقیقت نہیں۔
رمضان المبارک کے دوران جو کچھ اہلِ کراچی پر گزری ہے وہ قنوطیت ضرور پیدا
کرتی ہے مگر اس بات کی متقاضی بھی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں، اپنے فکر و
عمل کو تبدیل کریں اور خود کو نئی زندگی کے لیے تیار کریں۔ ماحول میں خون
کی بُو بسی ہوئی ہے۔ ایسے میں عید بھی پھیکی پھیکی سی معلوم ہوتی ہے مگر
بگڑے ہوئے حالات ہی ہم سے یہ تقاضا کررہے ہیں کہ ہم زندگی کی رونقوں سے منہ
موڑ کر، گریہ و ماتم میں غلطاں ہوکر پاک سر زمین کے دشمنوں کو فتح کا جشن
منانے کا موقع نہ دیں۔ جو کسی نہ کسی طرح عید منانے کا اہتمام کر رہے ہیں
وہ مبارک باد کے لائق ہیں۔ اگر سبھی دل گرفتہ ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیں
تو دُنیا چل چکی اور زندگی ہوچکی! ماتم ہی نہیں، سیکھنے کے دِن بھی یہی
ہیں! |