غذائی بحران: زرعی اجناس کی بڑھتی قیمتیں اور قلت کی اصل وجوہات کیا ہیں؟


تحریر:ذوالقرنین ہندل /گوجرانوالہ
دنیا بھر میں غذائی اجناس کے بحران خاص کر گندم کی قلت سے لوگ فاقہ کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایسے ممالک جو غذائی اجناس درآمد کرتے ہیں شدید بحران سے دو چار ہیں۔’ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 34کروڑ کے لگ بھگ افراد فاقہ کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں،اس وقت45ممالک میں 5کروڑ کے قریب افراد غذائی قلت سے آگے بڑھ کر قحط کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں‘۔روس اور یوکرین تنازعہ کی وجہ سے گندم کی درآمدات متاثر ہوئیں ہیں،دونوں ملک گندم کے بڑے برآمد کنندہ ہیں۔بھارت کی زرعی اجناس کی برآمدات سے متعلق سخت پالیسی نے دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔بھارت دنیا میں گندم کی پیدوار کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔پوری دنیا میں غذائی اجناس کی قلت اس وقت اولین مسئلہ بن چکی ہے۔
پاکستان بھر میں سیلاب کی وجہ سے حالات تباہ کن ہیں۔ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔’ایکسپریس ٹربیون پر شائع ایک اندازے کے مطابق8.3ملین ایکڑ پر محیط فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے‘۔ آئیندہ گندم کی کاشت کے لئے سیلاب زدہ رقبے کو کاشت کے قابل بنانا اور فصل پر اخراجات کے لئے وسائل کا حصول کسانوں کے لئے بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان جو زرعی لحاظ سے خودکفیل ملک ہے،گندم کے بحران کا شکار ہے۔گندم اور آٹے کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔سرمایہ کار اسٹاک مال میں من چاہی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔گزشتہ سیزن سابق حکومت نے ملکی غذائی ضرورت کو مد نظر نہیں رکھا اور گندم کو دیگر ممالک میں برآمد کیا۔جس کی وجہ سے گندم کا بحران پیدا ہوا اور حکومت کو 2ملین ٹن گندم درآمد کرنا پڑی تھی۔
گزشتہ سال پاکستان میں گندم کی قیمت خرید بڑھنے کے باوجود بھی پیدوار میں کمی واقع ہوئی۔ حکومتی سطح پر جس کی بڑی وجہ بڑھتی گرمی میں پانی کی قلت کو قرار دیا گیا۔’گلوبل زرعی معلومات کے نیٹ ورک کے مطابق پاکستان کو 2022-23میں 2.5ملین ٹن گندم درآمد کرنے کی توقع ہے۔‘آخر!ایک زرعی ملک زرعی اجناس کی درآمد پر مجبور کیوں ہوا؟آخر گندم کی قلت میں اضافہ کیوں؟اس کا اندازہ لگانا اتنا بھی آسان نہیں۔کیوں کہ اس سے وابسطہ ہر فریق کی رائے مختلف ہے۔ حکومت کے نزدیک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔محققین کے مطابق پیداوار میں کمی کی بڑی وجہ نت نئی تحقیق کا فقدان ہے۔صارفین کے نزدیک ڈیلر اور اسٹاک کرنے والے سرمایہ کار غذائی قلت کو فروغ دے رہے ہیں۔لیکن کسانوں کے نزدیک بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے فصلوں سے منسلک اخراجات کابڑھ جانا ہے۔اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے کاشت کاری میں مسائل در پیش ہیں۔وسائل کا فقدان اور منافع کی سکڑتی شرح کے باعث کھیتی باڑی میں چھوٹے کسانوں کی دلچسپی معدوم ہو رہی ہے۔کسان دیگر شعبوں میں محنت کو ترجیح دے رہے ہیں،تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔سارے نقطے اہم ہیں۔لیکن سب سے بڑا چیلنج کسانوں کی اپنے شعبے میں کم ہوتی دلچسپی ہے۔چھوٹے کسان اپنے بچوں کے اس شعبے سے وابستگی بارے زیادہ پراعتماد نہیں ہیں۔وہ کم منافع کھیتی کی بجائے اپنے بچوں کو شہر یا بیرون ممالک مزدوری کی تلقین کرتے ہیں۔تا کہ اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایک معیاری زندگی کی داغ بیل ڈال سکیں۔
اس سیزن کسانوں کے حالات بہتری کا عندیہ دے رہے ہیں۔دھان کی فصل کی قیمتیں کافی بہتر ہیں۔حکومت سندھ نے حالیہ گندم کے بحران سے نمٹنے اور گندم کی آئندہ کم پیدوار کے خدشے کو بھانپتے ہوئے گندم کی قیمت خرید بڑھا کر 4000روپے فی من مقرر کر دی ہے۔اسی طرح پنجاب حکومت نے 3000 روپے فی من مقرر کی ہے۔کسانوں کے لئے یہ خوشی کا باعث ہے،اور انہیں اپنے ویران کھیتوں میں دلچسپی ہونے لگی ہے۔
’اسد اللہ ارشدشیخوپورہ کے نواہی علاقہ نارنگ منڈی کا رہائشی کسان ہے۔قیمتوں کے بڑھنے بارے ان سے جب سوالات کئے تو ان کا کہنا تھا گزشتہ برس دھان کی فصل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے اس پر خرچ اور محنت کا دل ہی نہیں چاہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی فضول کام میں اپنی محنت ضائع کر رہے ہیں۔اس سیزن ریٹ مناسب ہونے کی وجہ سے سارے کسان فصل پر خرچ کر رہے ہیں۔آپس میں زیادہ پیداوار کی شرطیں لگی ہوئی ہیں‘۔
’حسنین نصر گوجرانوالہ کے نواحی علاقہ واہنڈو کے زرعی ادویات کے ڈیلر ہیں۔جب ان سے کسانوں کے زرعی رجحان کے بارے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دھان کی فصل کی قیمتیں بہتر ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زرعی ادویات کے استعمال کی طرف توجہ بڑھی ہے۔گزشتہ چند برس انہیں زرعی ادویات کی فروخت کے لئے خاصی محنت کرنا پڑی۔اس سیزن صورتحال کافی بدل چکی ہے اور یہ سب کے لئے خوش آئند ہے‘۔
فصلوں کی مناسب قیمت سے زراعت سے وابسطہ لوگوں کا روزگار بڑھے گا۔یہ سیزن کسانوں کے لئے امید کی نئی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔
جہاں کسان اس دفعہ پر امید اور خوش دکھائی دے رہے ہیں وہیں عام دیہاڑی دار،نوکری پیشہ اور نچلے درمیانے طبقے کے لوگ گندم،چاول،جو،مکئی اور دیگر زرعی اجناس کی بڑھتی قیمتوں سے خاصے پریشان ہیں۔پیٹرول، بجلی اور گھی کی مہنگے دام ہونے کی وجہ سے گھر کا بجٹ پہلے ہی الٹ چکا ہے ایسے میں آٹا، چاول، دالیں اور چینی کی قیمتوں کا بڑھنا پریشانی میں اضافے کا باعث ہے۔
’جودت قریشی گوجرانوالہ کے ایک چھوٹے کاروبار سے منسلک ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں نے پہلے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، اوپر سے آٹا اور چاول بھی مہنگا ہورہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ بچوں کو معیاری غذا کھلائیں یا معیاری تعلیم فراہم کریں‘۔
سیلاب متاثرین جو پہلے ہی اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں، ان کے لئے بڑھتی مہنگائی میں متواتر زندگی میں واپسی کٹھن ہو چکی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہاں ساٹھ فیصد کے قریب لوگوں کا زریعہ معاش براہ راست یا بالواسطہ زراعت کے شعبے سے ہے۔ فصلوں کی کم اور غیر مستحکم قیمتیں ان کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔اور درمیانے طبقہ کے لوگ بھی پینتیس فیصد کے قریب ہیں،جن کے لئے زرعی اجناس کی بڑھتی قیمتیں فاقوں کے مترادف ہیں۔ ایسے میں حکومت کے لئے دونوں فریقین کے مسائل کا حل ایک بڑا چیلنج ہے۔
سندھ اور پنجاب حکومت کے گندم کی خرید کا فرق سرمایہ کاروں کو اسٹاک کا موقع فراہم کرے گا۔جس سے حکومت کا گندم کی خریدکا کورم پورا کرنا مشکل ہو جائے گا، اور گندم کی غیر مستحکم قیمتوں کے ساتھ بحران کا خدشہ بھی سر پر منڈھلاتا رہے گا۔اس سے بہتر ہے حکومت نے جو فائدہ دینا ہے وہ کسانوں کو براہ راست دے۔تاکہ کسان فصل کی بہتر پیداوار کے حصول کی کوشش کریں اورہم آئندہ گندم کی برآمد سے بھی بچ سکیں۔
صوبوں سمیت وفاقی حکومت کو مل بیٹھ کر کوئی درمیانہ حل تلاش کرنا چاہئے، جس سے کسان بھی بچ جائے اور عام آدمی پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑے۔
حکومت اور حکومتی اداروں کو زراعت میں دلچسپی کو بڑھانا ہوگا۔ اور تمام عوامل پر بہتری کے لئے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔جیسے زرعی ادویات کی بڑھتی قیمتوں کو قابو میں رکھنا یا سبسڈی دینا۔مہنگے ڈیزل سے بچانے کے لئے سولر ٹیوب ویل فراہم کرنا۔ تحقیق کے زریعے ایسے معیاری بیج کو متعارف کروانا ہوگا۔ جس سے فصلوں کی پیدوار میں اضافہ ہو۔کسان کو براہ راست فصل کی مناسب قیمت سمیت آسان اور بلا سود قرض کی شفاف فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔موسمیاتی تبدیلوں کو بھانپتے ہوئے، کاشتکار کو بروقت آگاہی فراہم کرنا ہوگی۔ ہر سیزن میں فصلوں کی پیدوار کو مانیٹر کرنا اور غلطیوں پر کسانوں کی اصلاح کرنا ہوگی۔یہ سب اقتدامات فوٹو سیشن کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئیں۔تاکہ پاکستان کسی بھی بڑے غذائی بحران سے بچنے کے ساتھ اپنے ملک کی غذائی کھپت کوپورا کرسکے۔اورزرعی اجناس کی بہتر پیداوار کے حصول سے برآمدات بھی بڑھا سکے۔ جس سے نہ صرف ملکی معیشت بہتر ہوگی، بلکہ لاکھوں گھروں کے چولہے جلیں گے۔ورنہ معاشی پسماندگی سمیت غذائی بحران ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ذرا سوچئے!
لکھاری سماجی،سیاسی اور سائنسی عنوانات پر متعدد مضامین لکھ چکے ہیں۔سال2019میں توانائی کی درجہ بندی میں آگاہی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔
Ch Zulqarnain Hundal
About the Author: Ch Zulqarnain Hundal Read More Articles by Ch Zulqarnain Hundal: 129 Articles with 117172 views A Young Pakistani Columnist, Blogger, Poet, And Engineer
Member Pakistan Engineering Council
C. E. O Voice Of Society
Contact Number 03424652269
.. View More