ہماری ساری ترقی معکوس ہے

ہم ہر میدان میں خوامخواہ بھارت سے اپنا مقابلہ کرتے ہیں۔خود کو ہر معاملے میں بھارتیوں سے برتر سمجھتے اور جانتے ہیں۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے لوگ ہر معاملے میں ہم سے بہت آگے ہیں۔چوری، سینہ زوری، بدمعاشی ، ڈاکو سرپرستی، طاقتور کے سامنے آنکھیں بچھانا اور کمزور پر بغیر کسی وجہ پڑھائی کر دینا یہ پورے برصغیر کا کلچر ہے لیکن پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے ایسی بہت سی خامیوں پر قابو پا لیا ہے۔ وہ اپنے سیاستدانوں کو بھی کافی حد تک کنٹرول میں رکھتے ہیں اس کی وجہ ان کے ہاں تعلیم کا بہتر فروغ ہے۔ہماری سیاست سرمایے کا کھیل ہے۔ یہاں عام آدمی سیاست میں نعرے بازی سے بڑھ کر کوئی جگہ بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔بھارت میں بڑی معمولی حیثیت کے لوگ آسانی سے سیاست میں جگہ بنا لیتے ہیں۔بھار ت کا وزیر اعظم مودی اس کی زندہ مثال ہے۔ آپ کو اس سے اختلاف اپنی جگہ مگر آج بھی اس کی ماں بازار میں سبزی خود خریدتی نظر آتی ہے۔ اس کا بہنوئی بس کنڈکٹر تھا اور اب بھی ہے۔گو وہاں حرام خوروں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے مگر یہ نہیں کہ ہماری طرح سارے کا سارا آوہ ہی بگڑا ہو۔ان کی تعلیم اخلاق اور تربیت کا بہترین امتزاج ہے ، جب کہ ہماری تعلیم ایسے معاملے میں مکمل بانجھ ہے ، ہم بچوں کو سکھاتے ہی نہیں۔

میں امرتسر میں صبح سڑک پر جا رہا تھا۔ہر سڑک پر بچے ایک قطار میں زمین پر بیٹھے یا کھڑے تھے۔ بس آئی،بچے اسی ترتیب سے بڑی آرا م کے ساتھ بس میں بیٹھے۔ بس میں گنجائش ختم ہوئی تو سارے اسی ترتیب سے واپس اپنی جگہ بیٹھ گئے اور اگلی بس کا انتظار کرنے لگے۔کوئی دنگا مشتی ، کوئی ہلڑ بازی ، کوئی فسادی صورت نظر نہ آئی، بچوں میں حد سے زیادہ نظم و ضبط تھا ، یقیناً اچھی تعلیم کا اثر تھا۔میں دہلی میں تھا تو برادرم جہانگیر بدر بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ واجپائی صاحب نے ان کو دہلی کے سات تارہ ہوٹل میں دعوت دی ہوئی تھی۔ان کے کہنے پر میں اور میرے دیگر سات ساتھی بھی اس دعوت میں شریک ہونے ہوٹل میں موجود تھے۔ کھانے کا اعلان ہوا تو میرے ساتھی بھاگ کر کھانے کی میز پر پہنچے۔ وحشیوں کی طرح کھانے کے پہاڑ پلیٹوں میں سجائے فاتحانہ انداز میں اپنی میزوں کو لوٹے تو دیکھا کہ سب بھارتی قطار بنائے کھڑے ہیں اور بڑے اطمینان سے ایک ایک کرکے کھانا لیتے اور اپنی میز پر چلے جاتے ہیں، بہترین تعلیم ہی ایسے آداب سکھاتی ہے۔ اپنے ساتھیوں کی حالت پر مجھے شرمندگی اور افسوس ہو رہا تھا مگر وہ مزے سے اپنے حال میں مست کھانے میں مصروف تھے۔وہ تعلیمی کمی جس کی وجہ سے ایسی جہالت ہمارا کلچر بن چکی ہے ، سب نے اسی کا مظاہرہ کیا تھا تو شرم کیسی۔شرم کے لئے بھی تو کچھ جاننااور ماننا بھی تعلیم ہی کا محتاج ہے۔

ہماری قومی زبان اردو ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں سے ماں بولی کے حوالے سے روز مطالبہ کیا جاتا ہے کہ تعلیم پنجابی میں ہو، سندھی میں ہو، سرائیکی ، پشتو، بلوچی یا دوسری کسی مقامی زبان میں ہو۔ افسوس ہم قومی زبان کو قومی نہیں سمجھتے۔ملک کی یکجہتی کے لئے ضروری ہے کہ ایک زبان اپنائی جائے جو نہ صرف تعلیم کی ضروریات پوری کرے بلکہ تمام علاقوں کے لوگوں کوایک لڑی میں پرونے کا کام بھی کرے۔بھارت میں ہر سو میل کے فاصلے پر زبان بدل جاتی ہے۔ اور ان سو میل میں بھی جگہ جگہ لہجے کا فرق صاف نظر آتا ہے۔کونسی زبان اپنائی جائے اور کیسے اپنائی جائے اس لئے وہ مقامی زبان پر بات ہی نہیں کرتے۔ وہ لوگ جو اپنی مقامی زبان پر کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ملک کی بہت سی یونیورسٹیاں سہولتیں فراہم کرتی ہیں مگر اسے پڑھانے کا مقصد زبان کی بقا ہوتا ہے ، زبردستی قوم پر مسلط کرنا نہیں۔ بھارت والوں نے پڑھانے کے لئے انگریزی میڈیم اپنایا ہے۔ انگریزی ایک بڑی، وسیع اوربین الاقوامی زبان ہے۔ان کے سکولوں کے بچے بھی بڑی روانی سے انگریزی بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارتی عالمی روزگار مارکیٹ کو ہم سے بہت زیادہ مردان کار دے رہا اور اس کا صلہ پا رہا ہے۔جب کہ ہم ماں بولی ، اردو اور انگریزی کی جنگ میں بیچ بچاؤ کرانے میں ابھی تک ناکام ہیں۔
 
پاکستان میں سیاست ایک انڈسٹری ہے لوگ اس میں سرمایہ کاری کرتے اور پھرنفع سمیت بہت ساری رقم وصول کرتے ہیں۔ عام آدمی اتنی اسطاعت ہی نہیں رکھتا کہ کوئی الیکشن لڑ سکے۔بھاتی انتخابات میں دہلی اور پنجاب میں عام آدمی پارٹی جیتی ہے اس کے اکابرین بہت معمولی لوگ ہیں ۔ان معمولی لوگوں نے الیکشن لڑا، حکومت بنائی اور آج راج کر رہے ہیں ۔ مودی کی پارٹی کے بھی زیادہ تر لوگ بھی مودی سمیت بہت معمولی بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی عام آدمی جس کے پاس معمولی سرمایہ ہے الیکشن کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کرپشن بھارت میں بھی ہے مگر وہاں کے ادارے بڑے متحرک اور ہماری نسبت بہت آزاد ہیں۔ وہاں کے ججوں کا مزاج بھی بہت مختلف ہے۔ میں ایک روز پہلے دیکھ رہا تھا کہ پٹنہ بھارت کا ایک جج ، یہ جان کر کہ اس کی عدالت میں بیان ریکارڈ کرانے والی بوڑھی عورت سیڑھیاں چڑھنے سے معذور ہے اور مجبوری میں پہلی سیڑھی پر بیٹھی ہے۔ جج عدالت سے اٹھ کر نیچے آیا اور اس عورت کے قریب اسی طرح سیڑھیوں میں بیٹھ کر اس کا بیان قلمبند کیا۔ ہمارے جج رعونت کی انتہا پر ہیں۔ وہ ایسی حرکت اپنی توہین سمجھتے ہیں اور توہیں عدالت کے قانون نے انہیں احساس برتری کی وہ پروازعطا کی ہے کہ وہ زمیں پر اترنے کا تصور ہی بھول گئے ہیں۔

ہمارا ہر شعبہ اور ہر ادارہ بگاڑ کی طرف گامزن ہے اوراس بگاڑ کی بنیادی وجہ ہماری ناقص نظام تعلیم ہے۔ ہمارا نظام تعلیم اخلاقی قدروں کی اساس پر تعمیر ہی نہیں۔ ہمیں اچھے اور برے ، جائز اور نا جائز، حلال اور حرام کی تمیز ہی نہیں کیونکہ ہمارا نظام ہمیں یہ سب کچھ بتانے کو تیار ہی نہیں۔ ہماری ساری ترقی معکوس ہے ۔ ہم باتیں بہت کرتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ عمل کے بغیر تعلیم مکمل ہی نہیں ہوتی۔ہمارا ہر قدم پیچھے کو اٹھ رہا ہے مگر ہم احساس سے عاری ہیں۔یہ تعلیمی بے حسی ہی کا سبب ہے کہ آج پاکستان تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑا ہے کہ خدا نہ کرے اس کی بقا خطرے میں ہے۔ یہ حس اور یہ احساس بھی تعلیم ہی دیتی ہے مگر افسوس کہ ہمارے سیاستدان تعلیم کی پاتال سے باہر نکل ہی نہیں پاتے، احساس اور سوچ کہاں سے آئیں گے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444641 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More