جمعہ شعائرِاسلام میں سے ہے، فی زماننا اس کا مظہر اور
بھی ضروری ہو گیا ہے،مادیت نے لوگوں کے دلوں سے اس کی عظمت و اہمیت کم کر
دی، انجام یہ ہوا کہ خود مسلمانوں کی اہمیت کم ہونے لگی۔ سال کے بارہ
مہینوں میں سے کسی مہینے میں، مہینے کے تیس دنوں میں سے کسی دن میں اور دن
کے کسی حصے میں فی نفسہٖ اللہ تعالیٰ نے حلال روزی کمانے سے منع نہیں کیا،
بلکہ دیگر بنیادی فرائض کے بعد کسبِ حلال کو ایک فریضہ قرار دیا،صرف جمعے
کے دن، وہ بھی خاص اذان سے نماز تک ذرا سی دیر کاروبار چھوڑنے کا حکم دیا،
لیکن ہم اس پر بھی سرِ تسلیم خم کرنے کو راضی نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے حال
پر رحم فرمائے۔آمین
ارشادِ خداوندی
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى
ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ
تَعْلَمُوْنَ﴾[الجمعۃ]اے ایمان والو ! جب جمعے کے دن نماز کے لیے پکارا
جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو، اور خریدو فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے
بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔
حُرمت کا تعلق پہلی اذان سے
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جمعے کے دن تجارت حرام
کردی گئی، پہلی اذان سے لے کر اقامت تک اور امام کے نماز سے فارغ ہونے تک،
کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا
نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ، الآیۃ﴾۔[درِ منثور]حنفیہ کے نزدیک قولِ اصح اور
مختار- اور اسی کو شمس الائمہ نے اختیار کیا ہے- یہ ہے کہ ممانعت پہلی اذان
کے بعد سے ہے، جو منارے پر ہوتی ہے اور اسی اذان کے وقت جمعے کے لیے سعی
کرنا واجب ہوتا ہے، اسی کو حسن نے امام ابو حنیفہؒ سے روایت کیا ہے،جب کہ
وہ اذان زوال کے بعد ہو۔ اس کی توجیہ انھوں نے یہ کی ہے کہ اطلاع اور خبر
دینا اسی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، نیز اگر وہ منبر کے پاس والی اذان کا
انتظار کرے تو سنت کی ادایگی اور خطبے کا سننا رہ جائے گا، بسا اوقات جمعہ
بھی چھوٹ سکتا ہے، جب کہ اس کا گھر جامع مسجد سے دور ہو۔[الموسوعۃ الفقہیۃ
الکویتیۃ] مختصر یہ کہ جمعے کی اذانِ اول کے بعد بیع و شرا مکروہِ تحریمی
ہے، ایسی بیع سے توبہ اور اس کا فسخ دیانۃً واجب ہے، قضاء ً نہیں، بیعِ
فاسد قضاء ً بھی واجب الفسخ ہوتی ہے۔[احسن الفتاویٰ]
نماز کے سوا سب کچھ چھوڑ دیا جائے
ابن جریجؒکہتے ہیں کہ میں نے عطاؒسے کہا: کیا آپ خریدو فروخت کے سوا کسی
ایسی چیزکو جانتے ہیں جو پہلی اذان کے وقت حرام ہوجاتی ہے؟ تو عطا نے کہا:
جب پہلی اذان ہوجاتی ہے تو لہو ولعب اور خریدو فروخت حرام ہوجاتی ہے، تو
سارے کاروبار خریدو فروخت اور سونے کے قائم مقام ہیں کہ آدمی اپنی بیوی کے
پاس آئے یا کچھ لکھنے لگے۔ پھر میں نے کہا: جب پہلی اذان ہوجائے کیا اسی
وقت نماز کی طرف چلنا واجب ہے؟اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ، الآیۃ﴾، انھوں نے
کہا: ہاں! اس وقت ہر چیز کو چھوڑدے اور جمعے کی نماز کی طرف چل دے۔[درِ
منثور]
کاروبار کے متعلق خاص تنبیہ
آیتِ کریمہ میںاول تو یہ ارشاد فرمایا کہ جب جمعے کے دن نمازِ جمعہ کے لیے
پکارا جائے یعنی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔ نمازِ جمعہ
سے پہلے جو خطبہ ہوتا ہے اسے ذکر اللہ سے تعبیر فرمایا ہے اور اس کو سننے
کے لیے دوڑ جانے کا حکم دیا ہے، دوڑ جانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ بھاگ کر
جاؤ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جمعے کی حاضری میں جلدی کرو اور خطبہ سننے کے لیے
حاضر ہوجاؤ۔ ﴿وَ ذَرُوا الْبَيْعَ ﴾ اور خریدو فروخت کو چھوڑ دو ۔ خرید
فروخت بہ طور مثال فرمایا ہے، کیوں کی تاجر لوگ اپنے سوداگری کے دھندوں کی
وجہ سے جمعے کی اذان سن کر مسجد کی حاضری دینے میں کچّے پڑجاتے ہیں اور
دنیوی نفع سامنے ہونے کی وجہ سے خریدو فروخت میں لگے رہتے ہیں اور کاروبار
بند کرنے کے لیے طبیعتیں آمادہ نہیں ہوتیں، اس لیے تنبیہ فرمائی۔ دنیوی
نفع حاصل کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ جمعے میں حاضر نہیں ہوتے اور بہت سے
لوگ صرف آدھا تہائی خطبہ سن لیتے ہیں، اس لیے صاف صاف اعلان فرما دیا:
﴿ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾یہ جمعے کی حاضری
تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔ نزولِ قرآن کے وقت صرف ایک ہی اذان تھی
جو امام کے منبر پر چڑھنے کے بعد دی جاتی تھی، اس زمانے کے لوگ رغبت سے
نماز کے لیے پہلے سے حاضر رہتے تھے، کوئی اِکّادُ کّارہ گیا تو اذان سن کر
حاضر ہوجاتا تھا، حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓکے عہد میں ایسا ہی رہا، پھر جب
نمازیوں کی کثرت ہوگئی تو خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓنے اذانِ خطبہ سے پہلے
ایک اور اذان جاری کردی، جو مسجد سے ذرا دور بازار میں مقامِ زَورا پر ہوتی
تھی، اس وقت سے یہ پہلی اذان بھی جاری ہے۔ علما نے فرمایا کہ کاروبار چھوڑ
کر جمعے کے لیے حاضر ہونا اب اسی اذانِ اول سے متعلق ہے۔ حضرت عثمانؓچوں کہ
خلفاے راشدین میں سے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے علیکم بسنتی وسنة الخلفاء
الراشدین المھدیین فرمایا ہے، اس لیے ان کا اتباع بھی لازم ہے۔ [تفسیر
انوار البیان]
استثنائی صورت
فقہا نے حرمت سے ایسی چیز کی بیع کا استثنا کیا ہےجس چیز کی ضرورت نمازِ
جمعہ کے لیے ہو، جیسے پانی۔ علامہ دسوقیؒلکھتے ہیں: بیع تب حرام ہوگی، جب
کہ اس کا وضو باقی ہو اور اس کو پانی خریدنے کی ضرورت نہ ہو، ورنہ پانی کی
خریداری جائز ہوگی۔پھر آپ نے علامہ ابو الحسنؒکا یہ قول نقل کیا ہے: ’کیوں
کہ بیع و شرا سے ممانعت نماز کی بنا پر ہے اور پانی کی خرید و فروخت اس وقت
نماز کے لیے ہی ہوگی، اسی وجہ سے یہ جائز ہے‘۔[الشرح الکبیر]بعض احناف نے
اس صورت کا استثنا کیا ہے جب کہ عاقدین جمعے کے لیے چلتے چلتے بیع کریں،
کیوں کہ اس سے سعی میںخلل نہیں آتا، لیکن اس میں بھی فتاویٰ مختلف ہیں،
لہٰذا کسی شدید ضرورت کے بغیر اس سے احتیاط اولیٰ ہے۔[فقہ البیوع]
باری باری جمعہ پڑھ لینا کافی نہیں
بعض تاجروں کی عادت یہ ہے کہ جمعے کی اذان کے بعد وہ دکانوں کو بند نہیں
کرتے اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک دکان کے متعدد افراد مختلف جگہوں پر
مختلف اوقات میں جمعے کی نماز ادا کر لیتے ہیں، اس طرح جمعے کی نماز ان سے
نہیں چھوٹتی، ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ناجائز ہے، اس لیے کہ دکان کھلی رکھنے
کی وجہ سے خریداروں کو اذان کے بعد بھی خریدنے کا اختیار ہوتا ہے، حتی کہ
سعی میں خلل آنے کی وجہ سے جن کے لیے خریداری جائز نہیں ہے وہ بھی خرید
سکتے ہیں، اور فقہا نے ذکر کیا ہے کہ اس صورت میںعاقدین میں سے ہر ایک گنہ
گار ہوگا۔[فقہ البیوع]
اجتماعی سطح پر خرید و فروخت بند ہو
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں: بندے کے رائے یہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾ میںبیع کی ممانعت صرف انفرادی
عمل کی نہیں ہے، بلکہ اجتماعی سطح پر اس وقت بیع و شرا کا دروازہ بند کرنا
مقصود ہے، کیوں کہ جمعہ شعائرِ اسلام میں سے ہے، لہٰذا اس کا عام مظہر بھی
ہونا چاہیے، اور جن پر جمعہ واجب نہیں- ان کے لیے جن حضرات نے بیع کی اجازت
دی ہے- وہ انفرادی سطح پر مستثنیات میں سے ہے، اس کو اصل نہیں قرار دیا جا
سکتا، اور نہ بازاروں کو کھلا رکھنے کی اجازت ہوگی، خواہ باری باری ہی کیوں
نہ ہو۔[فقہ البیوع]حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم بھی فرماتے ہیں کہ
نمازِ جمعہ کے وقت کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے ہر ایک کا جمعہ پڑھ لینا
کافی نہیں، بلکہ کاروبار بند رکھنا ضروری ہے۔[محمود الفتاوی]
مسجد کے دروازے پر خریدو فروخت
آج کل مسجدوں کے دروازوں پر یا قرب و جوار میں جمعے کے دن اذان کے بعد بھی
بہ طور خاص عطر ؍ٹوپی وغیرہ خریدنے بیچنے کا عام رواج ہو گیا ہے، یہ جمعے
کی ’ضرورت‘ میں شامل نہیں ہے، اور حنفیہ نے صراحت کی ہے کہ مسجد کے دروازے
پر یا مسجد میںاذانِ اول کے وقت - جو زوال کے بعد ہو- بیع کرنے کا گناہ،
جمعہ کے لیے چلتے ہوئے بیع کرنے کے گناہ سے بڑھا ہوا ہے۔[الموسوعۃ الفقہیۃ
الکویتیۃ]
قابلِ اصلاح
آخری بات یہ کہ ہندستان کی اکثر مساجد میں آدھ گھنٹہ، پون گھنٹہ یا
دیہاتوں میں ایک گھنٹہ پہلے اذانِ اول ہوتی ہے، یہ طریقہ صحیح نہیں، کیوں
کہ جمعے کی اذانِ اول کے بعد خرید و فروخت کرنا یا کوئی اور کام کرنا ممنوع
ہے، لیکن عام طور پر لوگ جمعے کی اذانِ اول پر کاروبار ترک کرکے نماز کے
لیے روانہ نہیں ہوتے ہیں، کیوںکہ ان کو معلوم ہے کہ تاخیر کرنے سے ہماری
نماز فوت نہیں ہوگی، جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو کاروبار بند کر کے مسجد کا
رخ کرتے ہیں اور اذانِ اول کے بعد خرید و فروخت یا کوئی اور کام کرنے کی
وجہ سے گنہ گار ہوتے ہیں، اس میں (صرف) لوگوں کا قصور نہیں، بلکہ ہماری
مسجدوں کا موجودہ نظام قصوروار ہے کہ ہم بہت پہلے اذانِ اول دے کر لوگوں کو
گناہوں میںمبتلا کرتے ہیں۔[آبِ حیات]
[مضمون نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]
|