زندگی میں آپ کے ساتھ ہونے والی خوش قسمت ترین چیزوں میں
سے ایک خوشگوار بچپن ہے. اور اسکی خوشگوار یادیں آپکو تمام عمر یاد رہتی
ہیں۔ بزرگوں کے ساتھ گزارے لمحے یاد رہتے ہیں۔ بچپن کا زمانہ ایک نایاب اور
انمول خزانہ ہے جس کے کھو جانے کا زندگی بھر افسوس رہتا ہے ۔ بچپن خوبصورت
یادوں ، معصوم شرارتوں اور بے فکری کی زندگی کا دور ہوتا ہے ۔ بچپن نانا
اور نانی کی گود سے دیومالائی کہانیوں سننے اور آنگن میں آنے والی تتلیوں
کا پیچھا کرتے گزر جاتا ہے والدین کے چہروں پر بچوں کی معصوم شرارتیں
مسکراہٹ کا باعث بنتی ہیں ۔ کہنے کو بچپن کا لفظ صرف چار حروف پر مشتمل ہے
لیکن حقیقت میں ایک ایسا سنہری دور ہے جو اپنے اندر دلکش اور دلربا یادیں
لیے ہوئے ہوتا ہے۔میرے خیال میں ہم وہ لاسٹ جنریشن ہیں جنہوں نے اپنے بچپن
کے قیمتی دن مختلف کھیلوں اور مٹی میں کھیل کے گزارے ہیں۔ اور ساتھ ہی
بزرگوں سے کہانیاں سن سن کے اپنا وقت گزارا ہے۔ ہم ہی وہ لاسٹ جنریشن ہیں
جنکو رشتوں کی اہمیت کا پتہ ہے اپنے بزرگوں کی اہمیت کا پتہ ہے۔ دیکھا جائے
تو آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں ہم اپنی وہ بچپن کی قیمتی یادیں لیئے
پھنس کے رہ گئے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ وہ وقت واپس آ جائے جب ہم خوش ہوا کرتے
تھے۔ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ نا کوئی ٹینشن نا کوئی کام بس سارا دن کھیل
کود میں گزرتا تھا۔ وہی دور بہت اچھا تھا۔ اس دور کے لوگ بھی اچھے تھے آج
کے دور کی نسبت۔ دکھ اس بات کا ہے کہ آج کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں زندگی
بسر کرنے کے لیے منافقت اور دھوکہ دہی سیکھنی پڑتی ہے۔ دیکھنے کو تو ہم
مسلمان ہیں مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ ہمیں کسی
رشتے کی اہمیت معلوم نہیں۔ کسی کی برائی یا غیبت کر کے ہمیں خوشی ملتی ہے،
کسی اپنے کو نیچا دکھانے میں خوشی ملتی ہے۔ اب تو اس دور سے خوف آتا ہے کہ
ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ اپنے آنے والی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ آج کے
بچوں کو دیکھا جائے تو موبائل فون کے علاؤہ انکی کوئی زندگی ہی نہیں،
والدین کو نہیں معلوم کہ وہ اپنے بچوں کو کس گندے کوئیں میں دھکیل رہے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ آج کل کے بچے جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہیں۔ انکو
اپنے سے بڑوں یا چھوڑں کا کوئی ادب واحترام نہیں۔ سب سے اہم بات اسی فون کی
وجہ سے ہماری آنے والی نسل ڈپریشن کا شکار ہے۔ کیونکہ اسی عادت کی وجوہات
کے باعث، بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ اسکے نشے کی وجہ سے ہمیں اپنے
مستقبل کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی تباہ ہو کے رہ گیا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مزید تباہی کی طرف جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو ان
نئی سہولیات کے ساتھ ساتھ تمام رشتوں کی اہمیت سکھائیں، بزرگوں کی اہمیت
بتائیں۔ ہمارے بزرگ ہمارے لئیے قیمتی اثاثہ ہیں۔ اور اس بات کا ہمیں انکے
بعد پتا چلتا ہے۔ جب صرف انکی یادیں رہ جاتی ہیں۔ لکھنے اور کہنے کو اور
بھی بہت کچھ ہے بس یہی کہ کر بات ختم کروں گا کہ اپنے بچوں سے انکے بچپن کی
قیمتی یادیں نا چھینیں، انکو ٹائم دیں، انکے ساتھ کھیلیں۔ اپنی اس نئی نسل
کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپکے بچے ڈپریشن کا شکار ہیں۔ انکے ساتھ بیٹھیں
بات کریں تا کہ وہ باہر کسی کے ساتھ اپنا دکھ شئیر کر کے مزید ڈپرس نا ہوں۔ |