شب قدر کی عظمت وفضیلت
ماہِ رمضان المبارک اور اس کی ستائیسویں شب یعنی” شب قدر“کی عظمت و فضیلت
اور اہمیت امت مسلمہ میں ہمیشہ سے مسلّم رہی ہے اور کیوں نہ رہتی کہ یہ رات
تو گناہ گاروں کی مغفرت اور مجرموں کی جہنم سے نجات کی رات ہے۔یہ رات تو
عبادت و ریاضت، تسبیح و تلاوت ، درود و سلام، توبہ و استغفار،کثرتِ
نوافل،صدقات و خیرات، عجزو نیاز مندی اور مراقبہ و احتساب عمل کی رات ہے۔
خاص رب کی عطا لیلتہ القدر ہے
بخششوں کی صدا، لیلتہ القدر ہے
آسماں سے فرشتے بھی نازل ہوئے
نعمت بے بہا، لیلتہ القدر ہے
شب ِقدر کی وجہ تسمیہ
شبِ قدر!فضیلت وبرکت والی رات ہے۔ اس رات کو” شب قدر “ ا س لئے کہتے ہیں کہ
اﷲتعالیٰ نے اس رات میں ایک بڑی قدرو منزلت والی کتاب، بڑی قدرو منزلت والے
رسول ﷺ پر اور بڑی قدرو منزلت والی امت کیلئے نازل فرمائی اور یہ بھی کہا
گیا ہے کہ چونکہ اس شب میں اعمالِ صالحہ مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ رب
العزتمیں ان کی بڑی قدر کی جاتی ہے، اس لئے اس شب کو ”شبِ قدر“ کہتے ہیں۔
شب قدر وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا، یہ رات اپنی قدرومنزلت
کے لحاظ سے، اس کام کے لحاظ سے جو اس رات میں انجام پایا، ان
خزانوں،نعمتوں،سعادتوں اوربرکتوں کے لحاظ سے جو اس رات میں امت محمدیہ کے
صاحبانِ ایمان میںتقسیم کئے جاتے ہیں اورحاصل کئے جاسکتے ہیں، ہزارمہینوںسے
بہتر ہیں۔ جو خوش نصیب انسان اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ،توبہ
واستغفار کرے، اس کو سارے گناہوں کی بخشش ومغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ ہر
رات کی طرح اس رات میں بھی وہ مبارک اورسہانی گھڑی ہے جس میں دعائیں قبول
کی جاتی ہیں اوردین ودنیا کی جوخیروبھلائی اللہ پاک سے مانگی جائے عطاکی
جاتی ہے۔
شب قدر:ہزار مہینوں سے بہتر
اﷲتعالیٰ کا یہ بہت ہی بڑاانعام ہے کہ اس نے امت محمد ﷺ کوشب ِقدرکی صورت
میں ایک بہت عظیم اور بے پایاں نعمت عطا فرمائی ہے۔ لیلتہ القدر کی عظمت و
فضیلت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کی قدرو منزلت میں قرآنِ مجید کی ایک
پوری سورت ”سورة القدر“ کے نام سے نازل کی گئی ہے۔
اس مبارک و مقدس رات کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشادِ خداوندِ قدوس ہے:
اِنَّااَنزَلنٰہُ فِی لَیلَةِ القَدرِo وَمَااَدرٰکَ مَالَیلَةُ
القَدرِoلَیلَةُ القَدرِخَیرمِّن اَلفِ شَھرٍo تَنَزَّلُ المَلٰئِکَةُ
وَالرُّوحُ فِیھَا بِاِذنِ رَبِّھِم مِّن کُلِّ اَمرٍoسَلاَم ھِیَ حَتّٰی
مَطلَعِ الفَجرِo
ترجمہ: ”بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ نے کیاجانا
کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر!ہزار مہینوں سے بہتر(رات) ہے۔اس (رات) میں فرشتے
اور روح (یعنی جبرائیل امین) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر (خیر) کیلئے
اترتے ہیں، یہ (رات) طلوع فجر ہونے تک سراسر سلامتی ہے “۔
(سورةالقدر:آیت 1تا 5)
83سال4ماہ کی عبادت
اس سورت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں (83 سال
اور4 ماہ) کی عبادت سے کہیں بہتر و افضل ہے۔ یہ اس امت محمدیہ ﷺ پر اﷲ
تعالیٰ کا کتنا بڑااحسانِ عظیم ہے کہ مختصر سے وقت میں زیادہ سے زیادہ
اجروثواب حاصل کرنے کیلئے اتنی عظیم رات عطافرمائی ہے۔رمضان المباک کے آخری
عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات ”شبِ قدر“ کہلاتی ہے، جو بہت ہی برکتوں،
رحمتوں نعمتوں اور سعادتوں کی رات ہے۔ قرآنِ پاک میں اس رات کو ہزار
مہینوں(30ہزار راتوں) سے بھی افضل و اعلیٰ قرار دیا گیا ہے۔
وہ شخص جس کو اس عظیم رات کی معرفت اورحاضری نصیب ہوجائے اور وہ اس رات کو
اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی میں گزاردے توگو یا کہ اس نے تراسی سال اور
چار مہینوں سے بھی زیادہ زمانہ عبادت و ریاضت میں گزاردیا ہے اور اس زیادتی
کا بھی حقیقی حال معلوم نہیں کہ ہزار مہینوں سے کتنا افضل ہے۔
لیلتہ القدر کا شانِ نزول
لیلتہ القدر کا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے اپنی
امت کے لوگوں کی طبعی عمروں کو مختصر پایا اور خیال ہوا کہ وہ اس مختصر سی
عمر میں اتنے اعمالِ صالحہ نہ کرسکےں گے جتنے کہ پہلی امتوں کے صالحین اور
عبادت گزار بندوں نے اپنی طویل عمروں میں کئے تھے ،پس اﷲتبارک و تعالیٰ نے
اپنے آخری رسول ﷺ کو ”شب قدر“ عطا فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتراورافضل
رات ہے اور فرمایا کہ جوشخص اس عظیم الشان رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت
وبندگی کرے گا تو اس کو تراسی سال اور چار ماہ کی عبادت کے برابر اجروثواب
دیا جائے گا۔اس رات کی خیر و برکات ہزار ماہ کی عبادات سے افضل وبر تر ہیں۔
ساری رات فرشتوں کی آمداور اللہ تعالیٰ کی بے حدو بے حساب رحمتوں، نعمتوں،
برکتوں اور نوازشوں کے نزول کا سلسلہ جاری رہتا ہے اورصاحبانِ ایمان کو
بخشش ومغفرت اورنجات کی بشارتیں دی جاتی رہتی ہیں۔
اﷲتعالیٰ نے فرزندانِ اسلام کو متعدد مقدس اور مبارک راتیں عطا فرمائی ہیں
مثلاً شب میلادُ النبیﷺ، شبِ معراجﷺ، شبِ برات اور شبِ قدر، یہ سب ہی قدرو
منزلت کی راتیں ہیں، ان راتوں کو اﷲتبارک و تعالیٰ نے مختلف قسم کے انعام و
اکرام سے نوازا ہے۔ یوں تو کوئی لمحہ اس کی عطا سے خالی نہیں، اگر اس کی
عطا نہ ہو تو سارا عالم ہی ویران ہو جائے مگر اس کی نوازشوں اور انعام و
اکرام کا جو انداز” شبِ قدر“ میں ہوتا ہے وہ کسی اور رات میں نظر نہیں آتا۔
اس رات میں اس نے اپنا کلام اتارا اور اس نعمت سے کتنی مزید نعمتوں کے
دروازے کھلتے ہیں یعنی زبانِ انسان، نطقِ یزداں کی محافظ بنی۔سینہ بشریت
،لاہوتی اسرار کا محرم (رازدار) اور پیکر آب و گل میں وحی الٰہی کے فانوس
روشن ہو گئے۔اس رات کے مجاہدوں پر غروب آفتاب سے طلوعِ فجر تک نور برستا
رہتا ہے، رحمتیں ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس رات کا منظر دیکھنے کیلئے فرشتے
آ سمانوں سے قطار در قطار اترتے ہیں اور جب انسان کی عبادتوں کے شکوہ اور
ریاضتوں کے جلال پر ان کی نگاہ پڑتی ہے تو برسوں کے مان ٹوٹ جاتے ہیں اور
لاکھوں سال کی عبادتوں پر ناز کرنے والے قدسیوں کو اس رات کے عابدوں پر
سلام بھیجنا پڑتا ہے۔
(مقالاتِ سعیدی،علامہ غلام رسول سعیدی،فریدبک اسٹال لاہور)
شب قدر کی عظمت وفضیلت
اس عظیم الشان رات کی عظمت و فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل ا ﷲﷺنے ارشاد فرمایا کہ:
”جب شب قدر آتی ہے تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام فرشوں کی جماعت کے
ساتھ زمین پر آتے ہیں اور ملائکہ کا یہ گروہ ہر اس بندے کیلئے دعائے مغفرت
اور التجائے رحمت کرتا ہے جو کھڑے یا بیٹھے ہوئے اﷲتعالیٰ کے ذکر اور عبادت
میں مشغول رہتا ہے۔ جب کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ فرشتے ان بندں سے
مصافحہ بھی کرتے ہیں“ ۔ کتنا خوش نصیب اور بلند اقبال ہے وہ بندہ! جو اس
رات کو اپنے پروردگار کی یادمیں بسرکرتا ہے۔ جبرائیل امین اور فرشتے اس کے
ساتھ مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرنے کیلئے آسمان سے اتر کر اس کے پاس آتے
ہیں او ر اس کی مغفرت و بخشش کیلئے دعائیں مانگتے ہیں۔(تفسیرضیاءالقرآن:
جلد 5صفحہ 620)
Oعلامہ ابوعبداللہ محمد بن احمدمالکی قرطبی (متوفی668ھ) حضرت کعب احبار سے
روایت کرتے ہیں کہ ”بنی اسرائیل کے زمانہ میں ایک بادشاہ تھا،اللہ تعالیٰ
نے اس زمانے کے نبی کو وحی کی کہ اس بادشاہ سے کہیں کہ وہ کوئی تمنا
اوردعاکرے تواس نے یہ تمنا کی کہ میں اپنے مال،اولاد اور اپنے جسم و جان کے
ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کروں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک
ہزار بےٹے عطافرمائے۔ اُس نے اپنے مال اور اولاد کے ساتھ ایک لشکرتےارکیا
اور اپنے مال اوراولادکولے کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں چل پڑا، وہ ہر ماہ
جہادکرتا اور اس کا ایک بیٹا شہید ہوجاتا تو وہ دوسرے بےٹے کو میدانِ جہاد
میں لے آتا، اسی طرح ہر ماہ اس کا ایک ایک بیٹاشہید ہوتارہا اور وہ اس کے
باوجود دن بھرروزہ رکھتا اور رات کوقیام (عبادت) کرتارہتاتھا، یہاں تک کہ
ہزار مہینوںمیں اس کے ہزار بےٹے اللہ کی راہ میںشہیدہوگئے۔پھر وہ خود آگے
بڑھا اور کفا رسے جہادکیااور بالآخروہ خود بھی شہید ہو گےا۔لوگوں نے یہ سن
کرکہا:”اس شخص کی طرح تو کوئی بھی عبادت نہیں کر سکتا؟“۔ تو اللہ تعالیٰ نے
یہ آےت مبارکہ”لیلة القدرخیرمن الف شھر“ یعنی شب قدر کی عبادت اس بادشاہ
ایسی ہزارماہ کے صیام وقیام اور جہاد کی عبادتوں سے بھی افضل واعلیٰ ہے“۔
(الجامع لاحکام القرآن: جز20ص132،مطبوعہ دارالفکر بیروت1415ھ)
Oام المومنین حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کیلئے خصوصی اہتمام فرماتے تھے اور آپ ﷺکا یہ
معمول تھا کہ جب رمضان کاآخری عشرہ شروع ہوتاتھاتوآپ ﷺاپنا تہہ بندمضبوطی
سے باندھ لیتے اور راتوں کوذکرخداوندی سے زندہ کرتے اور اپنے اہل وعیال کو
بھی عبادت کے لئے جگاتے۔حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یَجتَھِدُ فِی العَشرِالاَوَاخِرِمَالَایَجتَھِدُ
فِی غَیرِہ۔
ترجمہ: ” رسول اللہﷺ (عبادت الٰہی میں)جتنامجاہدہ( کوشش) اس آخری عشرہ میں
فرماتے تھے، کسی دوسرے وقت میں ایسا مجاہدہ نہیںفرماتے تھے۔
(صحیح مسلم،مشکوٰة المصابیح باب لیلة القدر)
Oحضرت سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ: ”لیلتہ
القدر میں زمین کا کوئی ٹکڑا ایسا نہیں ہوتا جہا ں فرشتے سجدے یا قیام کی
حالت میںمومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعانہ مانگ رہے ہوں۔ فرشتے تمام رات
مومن مردوں اور عورتوں کیلئے دعا مانگتے ہیں۔حضرت جبرائیل علیہ السلام تما
م مومنین سے مصا فحہ کرتے ہیں اور سلام کہتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اگر
تم اطاعت گزار ہو تو تم پر قبولیت اور احسان کے ساتھ سلام ہو۔ اگر تم
گناہگار ہو تو تم پر بخشش کے ساتھ سلام ہو....اگر تم سوئے ہوئے ہو تو تم پر
رضاءالٰہی کے ساتھ سلام ہو.... اگر تم قبر میں ہو تو تم پر خوشی اور خوشبو
کے ساتھ سلام ہو ....اس بات کی طرف اﷲتعالیٰ کے ارشاد ”من کل امرٍ سلام“میں
اشارہ ہے۔( غنیہ الطالبین: صفحہ 471)
رحمت ومغفرت کی رات
لیلتہ القدر! وہ رات ہے جو صاحبان ایمان کیلئے مغفرت و رحمت اور بخشش کا
پیغام لے کر آتی ہے۔وہ رات جو رزق مانگنے والوں کو رزق، عافیت چاہنے والوں
کو عافیت، صحت کی تمنا کرنے والوں کو تندرستی، خیروبھلائی کے طلبگاروں کو
خیروبھلائی، اولاد کے خواہشمندوں کواولادکی نعمت،مغفرت کے متلاشیوں کو بخشش
عطا کرجاتی ہے۔ وہ رات جو سراسر امن کی پیغامبر اور سراپا سلامتی ہی سلامتی
ہے۔وہ لو گ کتنے سعادت مند اور خوش نصیب ہیں، جو اس مبارت رات کو اﷲ وحدہ
لا شریک کی عبادت و بندگی کر تے ہیں اور سچی توبہ و استغفار کر کے اپنے ربِ
کریم کو راضی کرتے ہیں اور رزقِ حلال مانگ کر خزانہ غیب سے مالا مال ہوتے
ہیں ۔ بیماریوں اورمصیبتوں سے پناہ مانگ کر ان سے خلاصی حاصل کرتے ہیں ۔ اس
رات اﷲ جل شانہ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ
روح پر وَر اور ایمان افروز کیفیت غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ فجر ہونے تک
برابر جاری رہتی ہے۔
اس عظیم الشان رات کی عبادت اور اجروثواب کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور سید عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
﴾ مَن قَامَ لَیلَةُ القَدرِ اِیمَانًا وَّاحتِسَابًاغُفِرَلَہ
مَاتَقَدَّمَ مِن ذَنبِہ۔ ﴿
ترجمہ: ”جو شخص لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ اور اجروثواب کی نیت سے
(نماز میں)قیام کرتاہے، تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں“۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہو ا کہ شب قدر کی اصل عبادت”قیام اللیل“ یعنی
نمازہے۔ اس لئے اس رات کوجتنا ہو سکے رب کی بارگاہ میںکھڑے ہو کر نماز(
چاہے وہ فرض نمازہو،واجب ہو یا نفل ہو) پڑھنی چاہئے، بلکہ میرے خیال میں اس
رات زیادہ سے زیادہ قضائِ عمری پڑھنی چاہئے کیونکہ قضا شدہ نمازوں کی
ادائیگی ہم پرواجب (فرض)ہے ،جبکہ نوافل پڑھنامستحب ہیں، اسی لئے اس رات
زیادہ سے زیاد ہ قضا نمازیں ادا کریں،اگراس رات کی کوئی بھی ایک عبادت اللہ
کی بارگاہ میں قبول ہوجائے تو بندہ کا بیڑا پار ہو جائے گااوراس کی آخرت
سنور جائے گی۔
نمازاورنوافل کی ادائیگی،تلاوت قرآن کریم، ھدیہ درودوسلام کے علاوہ انسان
خوب توبہ استغفار کرے اوراپنے تمام صغیرہ وکبیرہ اوردانستہ ونادانستہ
گناہوں ، خطاﺅں اورلغزشوںپراللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صدقِ دل سے توبہ و
استغفار کریںاورخوب روروکراورگڑگڑا کردعائیں مانگ کر اپنے رب کریم کو راضی
کرنے کی کوشش کریں۔
شب قدر کی تعیین
اب رہا یہ سوال کہ یہ عظیم الشان اور بابرکت وسلامتی والی رات کس مہےنے کی
ہے اور کس تاریخ کو آتی ہے۔ مہینے کا فیصلہ تو خودقرآن مجیدنے فرمادیا کہ
”شَھرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُرانَ“ یعنی” رمضان المبارک وہ
مہینا ہے جس میں قرآن مجید (لوحِ محفوظ سے آسمان دنیاتک یکبارگی)نازل کیا
گےا“۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ مبارک رات رمضان المبارک ہی کی کوئی رات ہے۔ تاریخ
کے تعین کے بارے میں علماءکرام کا اختلاف ہے اور اس میں چالیس کے قریب
اقوال منقول ہیں ۔
ایک صحیح حدیث مبارک میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ:
( تَحَرَّوا لَیلَةَ القَدرِ فِی الوِترِمِنَ العَشرِالاَوَاخِرِمِن
رَمَضَانَ)
ترجمہ: شب قدرکو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو“۔
(صحیح بخاری،مشکوٰة المصابیح باب لیلة القدر)
علاوہ ازیںمسند امام احمد اور سنن ابی داﺅدمیں ایک حدیث مبارک خاص
طورپر27ویںشب کے بارے میں بھی وار دہوئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بنعمر رضی
اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایاکہ :
” جو شخص لیلة القدرکو تلاش کرنا چاہے تو وہ اس کو(رمضان المبارک کی)
ستائیسویں شب میں تلاش کرے“۔جبکہ سنن ابی داﺅدمیںروایت ہے کہ ”شب قدر
(رمضان المبارک کی)27ویں شب کوہوتی ہے“۔
(مسندامام احمد:رقم الحدیث4808/سنن ابی داﺅد:رقم الحدیث1386)
صحابی رسول حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور جمہور علماءکرام کا یہ نظریہ
ہے کہ شب قدررمضان المبارک کی ستائیسویں(27ویں)شب ہے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد ”طاق “ہے
اور طاق اعدادمیں”سات“کاعددزیادہ پسندہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں
اور سات آسمان بنائے۔ہفتے کے سات دن بنائے۔ طواف کے سات چکر،سات
اعضاءپرسجدہ،انسانی تخلیق کے سات مراحل ہیں اور جب یہ ثابت ہوگےا ہے کہ سات
کاعدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات بھی رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی
ساتویں رات ہونی چاہیے۔
امام فخرالدین رازی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے یہ بھی روایت
کیا ہے کہ ” لیلة القدر“کے حروف”نو“ہیں اور یہ لفظ قرآن پاک میں ”تین “ بار
آےا ہے، جن کا مجموعہ ”ستائیس“ بنتا ہے، پس یہ رات بھی ستائیسویں ہی ہونی
چاہئے۔
(بحوالہ شرح صحیح مسلم،ازعلامہ غلام رسول سعیدی)
شب قدر کی علامت
غنیتہ الطالبین“ میں مرقوم ہے کہ لیلتہ القدر کی علامت یہ ہے کہ یہ رات بڑی
معتدل ہوتی ہے، نہ گرم اور نہ ٹھنڈی ہوتی ہے۔کہا گیا ہے کہ اس رات کتوں کے
بھونکنے کی آوازیں نہیں آتیں اور آنے والی صبح کا سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے
کہ اس کی شعاعیں نہیں ہوتےں اور وہ ایک ”تھال“ کی مانند ہوتا ہے اور اﷲ
تعالیٰ اپنے مومن بندوں میں سے جن اہل ِ دل ، اولیائِ کرام اور عبادت گزار
لوگوں کیلئے چاہتاہے، ان کے مراتب، احوال اور منازل، قرب کے اعتبار سے ان
پر اس رات کے انوار و تجلیات اور عجائبات منکشف فرمادیتا ہے۔
فرشتوں کا سلام
مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ شبِ قدر میں عبادت کرنے والے انسان کو جس وقت روح
الامین (حضرت جبرائیل فرشتوں کے ساتھ)آکر سلام کرتے ہےں اور اس سے مصافحہ
کر تے ہےں تو اس پر خوفِ الٰہی کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یادِ
الٰہی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور خشیتِ الٰہی سے بدن کا
رُواںرواں کھڑا ہو جاتا ہے۔امام رازی فرماتے ہیں کہ فرشتوں نے آکر حضرت
ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا تھا تو ان پر نمرود کی جلائی ہوئی آگ
سلامتی کا باغ بن گئی تھی اور شبِ قدر کے عبادت گزاروںپر جب اس رات لا
تعداد فرشتے آکر سلام کرتے ہیں تو کیوں نہ یہ امید کی جائے کہ جہنم کی آگ
ان پر سلامتی کا باغ بن جائے گی۔(شرح صحیح مسلم)
فرشتوں کی عید
صاحب” مکاشفة القلوب“ لکھتےہیںکہ منقول ہے کہ آسمان میں فرشتوں کی رات میں
دوعیدیں ہوتی ہیں جےسے مسلمانوں کی زمین پر دوعیدیں(عیدالفطر اور
عیدالاضحی) ہوتی ہیں....فرشتوں کی ایک عیدکی رات ”شب برات“ ہوتی ہے (جو
شعبان المعظم کی ۵۱ویںشب میں آتی ہے) اوردوسری عیدکی رات ”شب ِقدر“ ہے جو
رمضان المبارک میں آتی ہے،اس لئے شب قدرکوفرشتوں کی عیدکی رات کا نام دیا
گےا ہے۔ (مکاشفة القلوب:صفحہ682)
شب ِقدر کی خاص دعائ
یوں توقبولیتِ دعا کی خصوصی گھڑی ہر شب آتی ہے، لیکن شب قدر میں اس گھڑی کا
رنگ اوراندازہی کچھ اور ہوتا ہے، اس کی شان اور تاثیر ہی جدا ہوتی ہے۔ اس
رات کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس رات جو دعا بھی مانگی جائے وہ قبول ہوتی
ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ وہ بڑی سرگرمی اور ذوق و شوق سے رمضان المبارک
کے آخری عشرے کی خصو صاً پانچ طاق راتوں کو بےدار رہے اور اﷲتعالیٰ کی
عبادت کرتے ہوئے گزاردے اور جب دعاءمانگے تو ایسی جامع دعا مانگے کہ پھر
کوئی حسرت باقی نہ ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا کہ:یا رسول ﷲﷺ
لیلتہ القدر نصیب ہو تو میں کیا دعا مانگوں ؟۔ حضور سید عالمﷺ فرمایا کہ
یوں دعا کیا کرو۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّ تُحِبُّ العَفوَفَاعفُ عَنِّی
یَاغَفُورُیَاغَفُورُیَاغَفُورُ
یعنی: ”اے اﷲتعالیٰ! تو بہت درگزر کرنے والا ہے، تو درگزر کو بہت پسند کرتا
ہے، پس تو میرے گناہوں سے بھی در گزر فرما دے “۔(جامع ترمذی،سنن ابنِ ماجہ
،مشکوٰة المصابیح)
شب قدر کے افضل ترین اعمال
شب قدر کے افضل ترین اعمال میں غروبِ آفتاب سے لے کر صبح صادق تک رات بھر
عبادت و ریاضت کرنا، نوافل ادا کرنا قرآن مجید کی تلاوت کرنا، صدقہ و خیرات
کرنا،ذکر و اذکار کرنا، اپنے گناہوں سے توبہ کرنا، اپنے لئے، اپنے ماں باپ
کیلئے، اپنے عزیز و اقارب، اپنے اساتذہ کرام اور تمام مسلمانوں کیلئے
اﷲتبارک و تعالیٰ سے رحمت و مغفرت کی دعائیں کرنا، ترقی رزق وروزگار، امن و
سلامتی اور دین اور دنیا کی خیرو بھلائیاں مانگنا اور حضور نبی کریم ﷺ پر
ہدیہ درود و سلام بھیجنا، وغیرہ خصوصیت سے شامل ہیں۔
چونکہ یہ رات بڑی بابرکت اور مقبولیت کی رات ہے، اس لئے اﷲتعالیٰ کی رضا
اور اس کے انوارو تجلیات کے حصول کیلئے جس قدر ہوسکے اﷲ تعالیٰ کے حضوررورو
کر اورگڑگڑا کراپنے گناہوں سے توبہ کی جائے۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب اور
سعادت مند ہیں جو اس مبارت رات کو اﷲ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کرتے ہیں اور
توبہ و استغفار کر کے اپنے رب کریم کو راضی کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کا
بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور رزقِ حلال مانگ کر خزانہ غیب سے مالا مال ہوتے ہیں۔
بیماریوں اورمصیبتوں سے پناہ مانگ کر ان سے خلاصی حاصل کرتے ہیں۔اس رات اﷲ
تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے اور سب کی
مغفرت ہو جاتی ہے۔
شب قدر کے نوافل کا طریقہ
O دو رکعت نفل ادا کرے، ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک بار،اناانزلناایک بار
اور سورة الاخلاص تےن بار پڑھے، اس کو شب قدرکاثواب حاصل ہو گا۔
O جوشخص چار رکعت پڑھے ہررکعت میںسورئہ فاتحہ کے بعدالھٰکم التکاثراور سورة
الاخلاص(قل ھواللہ احد)تین تےن بار پڑھے ۔موت کی سختی اس پر آسان ہو گی،
عذابِ قبر اٹھ جائے گا، اس کوجنت میں چار ستون ملیں گے۔ جن کے ہر ستون پر
ہزار محل ہوں گے۔
O جوشخص ستائیسویں شب رمضان کو چار رکعت پڑھے۔ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک
بار،اناانزلناتےن بار،قل ھواللہ احدپچاس مرتبہ پڑھے اورنماز ختم کرنے کے
بعد”سبحان اللہ والحمدللہ ولاالٰہ الااللہ واللہ اکبر“پڑھے اورپھرجو
دعامانگے قبول ہوگی۔
O جوشخص ستائیسویں شب رمضان کو چار رکعت پڑھے۔ ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ ایک
بار،اناانزلناتےن بار،قل ھواللہ احدستائیس مرتبہ پڑھے ، گناہوں سے ایسا پاک
ہو جاتا ہے گویا ابھی پیدا ہواہے اور اس کے جنت میں ہزار محل ملیں گے۔
O حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شب قدرمیں عشاءکی نمازکے بعد سات
مرتبہ سورة القدر(اناانزلنا)پڑھے ہر مصےبت سے نجات ملے ، ہزار فرشتے اس کے
لئے جنت کی دعا کرتے ہیں۔
(غنیة الطالبین،نزہة المجالس،فضائل الایام والشہور)
شب قدراورہررات کے خصوصی عملیات
حضور اقدس ﷺنے ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ارشاد فرمایا: ”اے علی!
ہررات کو پانچ کام کرکے سویا کرو“۔
(۱) چارہزار دینارصدقہ دے کر سویا کرو۔
(۲) ایک قرآن شریف پڑھ کرسویا کرو۔
(۳) جنت کی قیمت دے کرسویا کرو۔
(۴) دولڑنے والوں میں صلح کراکر سویا کرو۔
(۵) ایک حج کرکے سویا کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ!یہ امورمحال (ناممکن)
ہیں، مجھ سے کےسے ہو سکیں گے؟حضور سید عالم ﷺ نے ارشادفرمایا کہ:
۱۔ چار مرتبہ سورة الفاتحہ(الحمد) پڑھ کرسویا کرو،اس کاثواب چارہزار
دےنارصدقہ کے برابر تمھارے نامہ اعمال میںلکھا جائے گا۔
۲۔ تےن مرتبہ قل ھواللہ احدپڑھ کرسویا کرو،ایک قرآن مجید پڑھنے کے
برابرثواب ہو گا۔
۳۔ دس مرتبہ درود شریف پڑھ کر سویاکرو، جنت کی قیمت ادا ہوگی۔
۴۔ دس مرتبہ استغفار(اَستَغفِرُاللّٰہَ رَبِّی مِن کُلِّ ذَنبٍ وَّاَتُوبُ
اِلَیہِ)پڑھ کر سویاکرو، دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کرنے کاثواب ہو گا۔
۵۔ چار مرتبہ تےسراکلمہ (سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُلِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَرُوَلَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ
العَلِیِّ العَظِیم) پڑھ کر سویاکرو، ایک حج کا ثواب ملے گا۔پھر حضرت علی
رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”یارسول اللہﷺ! اب تو میں روزانہ یہی عملیات کرکے
سویا کروں گا“۔
صلوٰة التسبیح کی فضیلت
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رواےت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ جوشخص
صلوٰة التسبیح پڑھے گا تواللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے ، دانستہ ونادانستہ
چھوٹے بڑے تمام گناہ معاف فرما دیتاہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر
ممکن ہو تو اس نماز کوروزانہ پڑھاکرو یا ہر جمعہ کو پڑھ لو یا مہینہ میں
ایک بار پڑھ لو یا سال میں ایک بار پڑھ لو اور یہ بھی نہ ہو سکے تو کم سے
کم زندگی میں ایک بار ضرور پڑھ لیں۔
(سنن ابوداﺅد،سنن ابن ماجہ،جامع ترمذی،سنن بیہقی،مشکوٰة المصابیح)
صلوٰة التسبیح پڑھنے کا طریقہ
چار رکعت صلوٰة التسبیح کی نےت باندھ کر ”سُبحٰنَکَ اللّٰھُمَّ“ پڑھیں، پھر
15مرتبہ تےسرا کلمہ (سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَااِلٰہَ
اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَرُوَلَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ
العَلِیِّ العَظِیم) پڑھیں ۔پھر سورئہ فاتحہ اورکوئی سورت پڑھیں ،پھر 10
بار رکوع میں”سبحان ربی العظیم“ کے بعد 10باریہی کلمہ،پھر قومہ میں(تسمیع
وتحمید کے بعد)10بار،پھرپہلے سجدے میں ”سبحان ربی الاعلیٰ“ کے بعد 10
بار،پھر جلسہ میں10 بار،پھردوسرے سجدے میں10بار یہی کلمہ پڑھیں۔اس طرح ایک
رکعت میں75بار یہ کلمہ پڑھاجاتا ہے۔ پھر اسی طرح دوسری رکعت، تےسری اور
چوتھی رکعت میں کھڑے ہو کرپہلے 15 بارتسبیح پڑھیں اورپھر الحمد اور سورت
پڑھ کر اسی ترتےب سے باقی تسبیحات اوررکعتےںپڑھیں۔ اس طرح ہررکعت میں
پچھہتر (75) بار پڑھنے سے چاروں رکعتوںمیں کل تسبیحات 300بار پڑھی جائیں
گی۔
خصوصی نوٹ:
صلوٰة التسبیح کی چاروں رکعتوں میں کوئی بھی سورت پڑھی جا سکتی ہے اور
آسانی کے لیے چاروں قل پڑھ لیں.... اور یہ کہ اگر کسی رکن(مثلاً رکوع
،سجدہ) میں تسبیح پڑھنا بھول جائیں تو اگلے رکن میں اتنی بار زیادہ پڑھ
لیں.... یہ نماز مکروہ وقت کے علاوہ کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے، البتہ
زوال کے بعداور نمازِ ظہرسے پہلے پڑھنا مسنون ہے اور زیادہ اجروثواب
ملتاہے....ان تسبیحات کوگننے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ اپنی حالت پر
رکھاہو اہو اور صرف انگلیاں اٹھا کر گنتے رہیں، لیکن زبان سے ہرگزنہ گنیں ،
ورنہ نماز ٹوٹ جائے گی۔
دُعاءہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم ﷺکے صدقے وطفیل ہم سب کو شب قدر کی
معرفت اوراس کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے او رہم سب کی جملہ عبادات
،نیک تمناﺅں اوردعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین بجاہ سید الانبیا والمرسلینﷺ |