دہشت گردی اور اسلام کا تصور ذہن میں ویسے
ہی ہے جیسے دن اور رات کا ،جس طرح رات کو دن پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ،یا
دن کے حکم کو رات پر نافذ کرنا درست نہ ہوگا ،ہوبہومعاملہ شریعت اسلامیہ
اور دہشت گردی کا ہے ۔بالفرض !اگر کوئی مثبت کے بجائے منفی فکر کا حامل ہو
تو اس کی سوچ یاتو تحکم پر مبنی ہوگی یاپھر حماقت پر ۔
اسکی تعریف میں عصر جدید کے مشہور نقاد ،معتبر محقق اور ممتاز دانشور ڈاکٹر
عبد المغنی اپنی کتاب ’’دہشت پسندی اور اسلام “میں لکھتے ہیں :”درحقیقت
اردومیںلفظ” دہشت پسندی “انگریزی لفظ ”Terrarism “کا ترجمہ ہے ۔”ٹیرر“کا
معنی ہے بہت زیادہ ڈر خطرہ اور دہشت ۔اور ”ازم “ کا ترجمہ پسندی ہے ۔دوسرے
لفظوں میں اپنے خواہشات اور مقاصد کے لئے غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر
انسانی حرکات کا مظاہر ہ کرنا بھی دہشت گردی ہی ہے ۔
خیر !آج چہار دانگ عالم میں دہشت !دہشت !دہشت!ہرجا،ہرطرف اسی کی گونج
اوراسی کی گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی ہے اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑکر
بایں طور پیش کیا جارہا ہے کہ جس زاویے سے بھی دیکھا جائے بظاہر اسلام کی
شکل ڈراؤنے اور خوفناک دہشت گردی کی معلوم ہوتی ہے حالانکہ حقیقت اس کے پرے
ہے ادنیٰ شعور والا شخص بھی جس کی نظر سے اسلامی تعلیمات گزری ہوں گی یااسے
کم ازکم اسلامی سوسائٹی میں گزربسر کا موقع بھی ملاہوگا وہ اس بات کو
بجاطور پر محسوس کرسکتا ہے کہ اسلام کس حد تک دہشت گردی کا حمایتی اور اس
کا خواہاں ہے ۔
سینکڑوں صدیاں گزرگئیں مگر اب بھی واقعات محفوظ اپنی حقانیت کو بیان کررہے
ہیں ۔کہ سچ ہی توہے کہ اسلام کے جلوے میں داخل ہونے سے پہلے درندگی میں لت
پت انسان ایک جان کے عوض سینکڑوں جان کا خون بہانا مباح سمجھتے تھے بارہا
ایسا ہوتا کہ ایک فرد کی جان کی قیمت پورے خاندان کو چکانی پڑتی جس سے فرد
اور قوم وملت سبھوں کا چین وسکون غارت ہوجاتا ۔جانتے ہیں کیوں ؟چونکہ جور
ظلم ،دہشت گردی اور انتہاپسندی ان کی رگ وپے میں سرایت کرچکی تھی اور وہ اس
حد تک گہرائیوں میں اترچکے تھے کہ حقیقت اور خرافات کے درمیان ایساکوئی خط
امتیاز باقی نہ تھاجس کے ذریعہ خیر وشر ،ظلم وانصاف اور امن ودہشت کے
درمیان حدود متعین کی جاتیں۔
لیکن اسلام کی نشاة ثانیہ نے تمام برائیوں کا خاتمہ کیا ۔ولقد کرمنا بنی
آدم کے ذریعہ مجروح انسانیت محترم قرار پائی درند صفت لوگوں کو انسانیت کا
درس ملا ،حسب ونسب کے فخر پاؤں تلے روند دیے گئے ،نفرتوں اور عداوتوں کی
کھائیاں پاٹی گئیں ۔ظلم وبربریت اور ناانصافی کی مضبوط جڑیں اکھیڑدی گئیں ،رب
کا فرمان ہے ”ان اللہ یامرکم بالعدل والاحسان “کا اعلان ہونا تھا کہ عدل
ومساوات اور حق وانصاف کی حالت قائم ہوگئی ۔ولایقتلون النفس التی حرم اللہ
الا بالحق “کے نزول نے سابقہ تمام باطل اصولوں کو توڑتے ہوئے ناحق خون
بہائے جانے کو حرام قرار دیا۔پھر تحفظ انسانیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ
وعید وتنبیہ ”من قتل نفسا بغیرنفس اوفسادافی الارض فکانما قتل الناس
جمیعا“بھی نازل کی گئی ”لااکراہ فی الدین“کے زریں اصول نے دین کے معاملے
میں جبر اکراہ کو سرے سے ہی خارج کردیا اور ولاتسبواالذین یدعون من دون
اللہ“کے ذریعہ اتنا مہتمم بالشان دفعہ قائم کیا گیا کہ اس کے رو سے کسی بھی
مذہب کے مقتدی ٰ اور پیشوا کو برا بھلاکہنا رواتوکیا جائز بھی نہیں ،چونکہ
یہی وہ سارے اسباب ہیں جو انسانی جذبات کو مشتعل کرتے ہیں نتیجة انسان ،انسانوں
کے صف سے نکل کردرندوں کے صف میں جاکھڑ ا ہوتا ہے اور اسی کا ردعمل آج ہمہ
دہشت گردی کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ۔غور کیجئے !کسی نفس کو ناحق قتل مت
کرو!زمین میں فساد مت پھیلاؤ!غیراللہ کی عبادت کرنے والوں اور ان کے
مقتداؤں کو گالیاں مت دو!کیا امن سکون کی بحالی کا نسخہ اس سے بہتر اورکوئی
مذہب دے سکتاہے ؟ہرگز نہیں !چونکہ یہ الٰہی قوانین ہیں اور امن شانتی اور
صلح وآشتی کا صحیح لطف اس کی پناہ میں آکر اٹھایاجاسکتاہے ۔
باوجود اس کے آج اسلامی امن کو چیلنج اور خطرہ ہے استعماری قوتیں اور پرنٹ
میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک بھی بڑی تندہی کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام
کے خلاف اپنے ناپاک منصوبوں میں سرگرم عمل ہیں مذہبی تشدد کا ننگا کھیل
کھیل رہے ہیں جس کے شواہد کے لئے رنگیلا رسول ،ستیارتھ پرکاش ،لجاّ ،الفرقان
الحق ،The real face of Islam ہتک آمیز فوٹو کی اشاعت ،ہالینڈ میں
Submission نامی فلم میں اسلامی حکایات کا مذاق اور ڈچ لیڈر ’ولڈرس ‘کے
اہانت آمیز بیانات ہی کافی ہیں ۔
یہاں ایک سوال پیداہوتا ہے کہ آخر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہی وقفہ وقفہ
سے اس طرح کی زہر افشانیوں اور ہرزہ گوئیوں کا دہانہ کیوں کھولا جاتا ہے ؟اور
نام نہاد جہادی تنظیموں’حرکة المجاہدین اور لشکر طیبہ ‘وغیرہ (جو دراصل
صہیونی لابی کے زیر اثر مصروف عمل ہیں )کو اسلام سے جوڑکر دہشت گردی کو
اسلام کے سرمنڈھاجاتاہے حالانکہ ایسی دوسری تنظیمیں بھی ہیں جن کو دنیا
دہشت گرد تسلیم کرچکی ہے اور وہ بلاشبہ دہشت گرد ہیں بھی ،مثال کے طور پر
’باسک فادر لینڈ اینڈ لابی ‘’پاپولر فرنٹ فاردی لبریشن ‘اور آئرش پبلک آرمی
‘مشہور دہشت گرد امریکی تنظیمیں ہیں ۔اسی طرح یہودی کی Stern اورHagaunah
تنظیمیں ہیں ۔پھر LTTE ماؤ وادی ،آرایس ایس ،بجرنگ دل ،شیوشینا اور وشوہندو
پریشد جیسی انتہا پسند اور فرقہ پرست ہندوستانی تنظیمیں ہیں ۔
ٓٓآخر انہیں یا ان کے مذہب کے بارے میں کیوں نہیں کہا جاتاکہ یہ یہودی ہندو
دہشت گرد تنظیم ہے ؟اور یہ کہ یہودی یا ہندو مذہب ایک دہشت گرد مذہب ہے ؟چونکہ
ایسا کہناسراسر غلط اور ناروا بات ہوگی ۔مذہب کوئی بھی ہو تشدد یانفرت کی
تعلیم قطعی نہیں دیتا۔وہ سراپامحبت اور امن کا داعی ہوتاہے اوریہ حقیقت
ہے۔مگر افسوس !دنیا کی فرقہ پرست قومیں اس کا انطباق اسلام پر نہیں
کرتیں،وجہ صاف ہے۔
مشہور امریکی مصنف ’فوکویاما‘اپنی کتاب ”The end of history“میں مذکورہ
بیان کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”سوویت یونین کے زوال کے بعد صرف امریکہ
کی بالادستی کو سب سے زیادہ جس چیز سے خطرہ ہے ،وہ ہے اسلام اور مسلم
دنیا۔علمائے مغرب اور دانشور وں کاایک بڑا طبقہ اس صدی میں اسلام اور مسلم
دنیا کو مغرب اورامریکہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج بنا کرپیش کرنے میں
مصروف ہیں ۔یہی وجہ ہےکہ جس ا مریکہ امغرب اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد
قرار دے کر ان کا استحصال کررہے ہیں “۔
اس گھناﺅ نی سازش کو بایں طور سمجھاجاسکتاہے کہ گلوبلائزیشن کے نام پر
امریکہ نے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کو مسلم دنیاکے خلاف کھل کر
استعمال کیا ،اور اب تک کررہا ہے۔یہی نہیںبلکہ 61سے زائد ممالک پر اقتصادی
پابندی بھی عائد کی جاچکی ہے۔جن میں بیشتر مسلم ممالک ہیں۔یہ ہے بے لگام
امریکہ کی داداگری ، جسے وہ احترام انسانیت کانام دیتا پھر رہاہے ۔ذیل میں
مختصر ملاحظات نقل کئے جارہے ہیں ،جن کے ذریعہ ہر ذی شعور شخص یہ موازنہ کر
سکتاہے کہ دہشت گردی کو اسلام کے سر تھوپنے والاامریکہ اور اس کے اعوان
ومددگار ،امن دوست ہیں یا امن دشمن ؟
1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک فلسطینی عوام کا قتل ،در حقیقت اس
کے پس پردہ امریکہ کا ’اسٹیٹ ٹیر رزم ‘ ہی کام کر رہاہے۔
1945سے 1974کے دوران ویت نام کے 25سے 30لاکھ شہری امریکی دہشت گردی کا
نشانہ بنے۔
1993میں صومالیہ میں قحط زدہ عوام کو روٹی کے بدلے امریکی فوج میزائیل اور
گولی کھلانے لگی ۔
1957سے 1973تک امریکہ کی دہشت گردی نسل کشی میں ’لاﺅس ‘کے تقریباََ 5لاکھ
عوام مارے گئے ،امریکی فضائیہ نے’لاﺅس ‘ کی عوام پر 20لاکھ ٹن بم برسائے ۔
رہی بات افغانستان وعراق اور فلسطین کی تو اس کی داستان تو اور بھی طویل ہے
۔ ناجائز ہتھیار کے نام پر عراق کی تباہی ،طالبان اور القاعدہ کاہوا
کھڑاکرکے افغانستان کو نیست ونابود کرنا، بر صغیر ہندوپاک میں جھانک کر
دیکھیں تو یہاں بھی دہشت ہی دہشت کی گھٹاہے۔بھاگل پور کاخونی واقعہ ،سانحہ
بابری مسجد ،کشمیر امرناتھ یاتریوں پر حملہ ،اکشردھام اور جموں کے مندروں
پر کی گئی غیر انسانی درندگی ،لال قلعہ اور ہندوستانی پارلیمان کاروح فرسا
منظر ،کولکاتہ امریکن سینٹر پر حملہ ،گودھراریل حادثہ ،گجرات کی ہندو نواز
بربریت ،مکہ مسجد بم دھماکہ،چینی لابی کے ذریعہ رچاگیا لال مسجد کاخونی
کھیل ،نندی گرام کالرزہ خیز واقعہ ،بے نظیر بے نظیر بھٹو کاقتل ،راج ٹھاکرے
کی بہاریوں اور مراٹھیوں کے درمیان منافرت کی آگ بھڑکا کر اقتدار حاصل کرنے
کی گندی اور گھٹیا سیاست،ممبئی تاج پر حملہ اور اس میں عامر اجمل قصاب
کا(مشکوک)رول ، فلسطینی عوام کی تنگ زندگی اور اسرائلیوں کا بڑھتاہواظلم
وجبر، عالمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے ایبٹ آباد میں اسامہ
پر کارروائی اور لیبیائی عوام کو معمر قذافی کی ڈکٹیٹر ی سے نجات دلانے کے
نام پر نیٹو کی بربریت اور اب تو قذافی کی جان پر بھی آ بنی ہے ۔ وہ
فراربتلائے جاتے ہیں اور ان کے 2بیٹے باغیوں کے قبضے میں ہیں ۔ آگے کیا ہو
گا وہ اللہ جانے ،ایک لمبی داستان ہے ، جس کے لئے یہ مختصر تحریر نہیںبلکہ
لکھوکھے درکار ہیں۔
بہر حال ! ان تاریخی واقعات اور عالمگیر صداقتوں پر غور کر نے سے ادنیٰ
شعور والاانسان بھی یہ حکم لگانے سے خوف نہیں کھائے گا کہ اصل دہشت گرد ہے
کون؟اسلام ہے یا پھر اسلام کے سر دہشت گردی کا اتہام باندھنے والا امریکہ
اور اس کے اتحادی ہیں۔جس کی نکیل بباطن اسرائیل کے ہاتھ میں ہے ۔اور اگر
ایسا نہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسرائیل اپنی انسانیت سوز درندگی سے بازنہیں
آرہا ،اور عالمی عدالت بھی اس پر قابو پانے میں ناکام ہے ۔
اس کھلی داستان کے باوجود ’الجزائر ،ایران،عراق ،لیبیا ،شام ،لبنان ،صومالیہ
،انڈونیشیااور سوڈان جیسے کتنے ایسے ممالک ہیں،جو دنیا بھر میں اسلامی دہشت
گردی کےلئے مطعون ومعتوب کئے جارہے ہیں،اور اس میں بھی اسلام دشمن میڈیا
خوب سے خوب تر کردار نبھارہی ہے ،جس کا کام ہی دراصل جھوٹ اور فریب کو
حقیقت کاخول چڑھا کر پیش کرنا ہے ۔ اس سے بڑی بے لجگی اور بے حیائی کیا
ہوگی کہ خود ہی امن دشمن اور خود ہی دہشت گردی کے خلاف چوٹ کررہا ہے ، مطلب
واضح ہے” چور مچائے شور والا “جو چکر ہے ۔
ایسی صورت میںجب کہ پوری دنیا کے امن اور خصوصاََ اسلام کے امن کو خطرہ ہے
، استعماری طاقتیں زہر آلود خنجر لئے پے درپے اسلام پر ناگہانی وار بھی کئے
جارہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تشدد کی بجائے عدم تشدد وانتہا پسندی سے
ہٹ کر دوست پسندی اور امن پسندی کے ہر ممکنات کو یکجا کرکے اسلام کی روشن
تعلیمات کو دنیا کے چپے چپے اور گوشے گوشے میں عام کیا جائے !! جب ہی سسکتی
،بلکتی انسانیت کے درد کا مداوا ہو سکتاہے ۔ |