#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙةُالمُدثر ، اٰیت ، 31 تا 56
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ما جعلنا
اصحٰب النار
الا ملٰئکة و ما
جعلنا عدتہم الا
فتنة للذین کفروا
لیستیقن الذین اوتوا
الکتٰب و یزداد الذین اٰمنوا
ایمانا ولیقول الذین فی قلوبھم
مرض والکٰفرون ما ذا اراداللہ بھٰذا
مثلا کذٰلک یضل اللہ من یشاء و یھدی
من یشاء و ما یعلم جنود ربک الا ھو و ما
ھی الا ذکرٰی للبشر 31 کلا والقمر 32 والیل اذا
ادبر 33 والصبح اذا اسفر 34 انھا لاحدی الکبر 35
نذیر للبشر 36 لمن یشاء منکم ان ہتقدم او یتاخر 37 کل
نفس بما کسبت رھینة 38 الا اصحٰب الیمین 38 فی جنٰت
یتساءلون 40 عن المجرمین 41 ماسلککم فی سقر 42 قالوا
لم نک من المصلین 43 ولم نک نطعم المسکین 44 و کنا نخوض
مع الخائضین 45 و کنا نکذب بیوم الدین 46 حتٰی اتٰنا الیقین 47
فما تنفعھم شفاعة الشٰفعین 48 فمالکم عن التذکرة معرضین 49 کانھم
حمر مستنفرة 50 فرت من قسورة 51 بل یرید کل امری منھم ان یوؑتٰی
صحفا منشرة 52 کلا بل لا یخافون الاٰخرة 53 کلا انہ تذکرة 54 فمن شاء
ذکرة 55 و ما یذکرون الا ان یشاء اللہ ھو اھل التقوٰی و اھل المغفرة 56
دوزخ و آتشِ دوزخ پر 19 نگران فرشتوں کی جو تعداد ہم نے بیان کی ہے اُس میں
اہلِ انکار کے لئے وہ فکری خیالی آزمائش ہے جس سے اُن کے قلبی خلجان کو ایک
اٙنگیخت ملے گی تو اہلِ کتاب کے لئے اُس میں وہ علمی و تحقیقی آزمائش ہے جس
سے اُن کے علمی رُجحان کو بھی ایک تقویت ملے گی اور اہلِ ایمان کے لیئے اُس
میں وہ علمی و عملی آزمائش ہے جس سے اُن کے اُس ایمان و یقین میں اضافہ ہو
گا جو ایمان و یقین اُن کو محمد علیہ السلام پر نازل ہونے والی تنزیل سے
حاصل ہوا ہے ، پھر جس کے دل میں مرضِ جہل کا غلبہ ہو گا تو وہ اِس تعداد پر
اعتراض کرے گا ، جس کے دل میں غرضِ علم کا غلبہ ہو گا تو وہ اِس پر غور و
فکر کرے گا اور جس کے دل میں فرضِ ایمان کا غلبہ ہو گا اُس کو یقین ہو گا
کہ جو انسان دل سے دل کی ہدایت چاہتا ہے وہ اپنی چاہت کے مطابق اللہ سے
توفیق پاتا ہے اور جو انسان دل سے دل کی گُم راہی چاہتا ہے وہ اپنی اُس
چاہت کے مطابق اللہ سے گم راہی کی توفیق پاتا ہے لیکن جہاں تک اُن فرشتوں
کی تعدادا کا تعلق ہے تو وہ اُس کے اُن نادیدہ لشکروں کی ایک تمثیل ہے جو
اُس کے حُکم کے مطابق اُس کے مُختلف جہانوں میں مُختلف خدمات اٙنجام دیتے
ہیں اور اِس تمثیل میں اصل چیز تو اِس کتابِ عمل کی عملی یاد دھانی ہے جس
کو انسان نے یاد رکھنا ہے اِس لیئے میں تُم کو یقین دلاتا ہوں کہ جس طرح
فطرت کے ایک ضابطے کے مطابق چاند چڑھتا اور ڈھلتا ہے اور جس طرح فطرت ہی کے
ایک ضابطے کے مطابق شب دبے قدموں سے آتی اور واپس جاتی ہے اور ماحول پر
دھیرے دھیرے دن کی روشنی چھاجاتی ہے اسی طرح اِس کارگہِ عمل میں جس انسان
نے اس خُدائی ضابطے کے مطابق آگے بڑھنا ہے وہ آگے بڑھ جاتا ہے اور جس نے
پیچھے رہنا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ ہر انسان اپنے اُس عمل کی قید
میں ہے جو عمل اُس انسان کو آگے کی طرف بھی بڑھاتا ہے اور پیچھے کی بھی طرف
ہٹاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ قیامِ قیامت کے بعد جب اہلِ جنت اہلِ جہنم سے یہ
سوال کریں گے کہ تُمہارے ساتھ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ تُم ایک خوش حال
زندگی گزارنے کے بعد اٙب اِس تباہ حال زندگی میں داخل ہو گئے ہو جس کا وہ
یہ جواب دیں گے کہ ہم نے اللہ کے قانونِ کفالت کو تسلیم نہیں کیا تھا اور
ہم نے اُس قانونِ کفالت کے مطابق معاشرے کے مسکین طبقے کے لئے آب و دانے کا
اہتمام بھی کبھی نہیں کیا تھا بلکہ ہم تو عمر بھر خُدا کی اُس نادار مخلوق
کے خلاف مٙنفی باتیں کرتے رہے تھے یہاں تک کہ اسی حال میں ہم کو موت نے
دبوچ لیا تھا جس کے بعد ہم اِس جگہ پر آپُہنچے ہیں جس کی ہم تکذیب کیا کرتے
تھے مگر افسوس کہ جن ہستیوں کو ہم اپنا شفاعت کار سمجھتے تھے اُن میں سے
کوئی بھی ہمارے کام نہیں آئی اور یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے سامنے دُنیا میں
دینِ حق پیش کیا جاتا تھا تو یہ اُس سے اس طرح بدک کر بھاگتے تھے جس طرح
گدھا شیر سے بدک کر بھاگتا ہے اور آج اِن میں سے ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ
اِس کو بھی اہلِ نجات کی طرح ایک پروانہِ نجات مل جائے حالانکہ اہلِ زمین
کے لئے قُرآن کے سوا کوئی بھی پروانہِ ہدایت و نجات نہیں ہے لیکن یہ بھٹکے
ہوئے لوگ تو اِس سے اسی وقت فائدہ اُٹھائیں گے جب اِس کے اٙحکام پر عمل
کرنا چاہیں گے اور اللہ سے اِس کی توفیق پائیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآن کی پہلی وحی کے پہلے اٙحکام کے پہلے سلسلہِ کلام کے بعد بیان کیا
جانے والا یہ دُوسرا مضمون ہے جس کا مُفصل مفہوم اٰیاتِ بالا کے تحت تحریر
کی گئی سطور میں آگیا ہے اور جس کی کُچھ تفصیلات آنے والی سطور میں آرہی
ہیں ، اِس سُورت کے پہلے مضمون کا آغازِ کلام سیدنا محمد علیہ السلام کے
اعلانِ نبوت اور آپ کی دعوتِ حق سے ہوا تھا اور اِس سُورت کا یہ دُوسرا
مضمون سیدنا محمد علیہ السلام کی اُس دعوتِ حق کو قبول کرنے یا قبول نہ
کرنے والوں کے اٙنجامِ نیک و بد کے بارے میں ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی
ایسا مُختصر سا مضمون نہیں ہے کہ جس کی کوئی ایک جہت یا ایک ہی سمت ہو جس
سمت کو آسانی سے سر کر لیا جائے بلکہ اِس کے بر عکس یہ دُنیا سے آخرت تک
پھیلے ہوئے ایک کثیر الجہات مضمون کی مُتعدد سمتوں اور مُتعدد پٙرتوں پر
پھیلا ہوا ایک وسیع الجہات مضمون ہے تاہم اِس کی اِن جہتوں کا مرکزی و
مقصدی مضمون اہلِ جنت و اہلِ جہنم کا وہ فکر انگیز مکالمہ ہے جس مکالمے سے
انسان کی نجات و عدمِ نجات کا وہ معاملہ سامنے آتاہے جس سے اِس اٙمر کا
ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارے اِس جہانِ عمل میں ماضی میں جو کُچھ ہوتا
رہا ہے ، حال میں جو کُچھ ہو رہا ہے اور مُستقبل میں جو کُچھ ہوناہے اُس کا
مرکز و محور انسان کا وہ قُرآنی نظامِ حیات ہے جس کا محور حیات بذاتِ خود
وہ حیات ہے جس حیات کو رزقِ حیات ملے گا تو وہ حیات قائم رہے گی اور وہ
حیات قائم رہے گی تو اُس میں انسان سے وہ عملِ خیر و شر ہو گا جس کی بُنیاد
پر انسان کی نجات و عدمِ نجات کا فیصلہ ہو گا ، چنانچہ جب ہم اہلِ جنت و
اہلِ جہنم کے اِس مکالمے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ
جہنم میں جائیں گے وہ اِس اٙمر کا اعتراف کریں گے کہ اُن کے اِس اٙنجام کا
بُنیادی سبب یہ تھا کہ وہ اہلِ حیات سے اُن کے وسائلِ حیات چھین کر اُن
وسائلِ حیات پر اِس طرح قبضہ جما کر بیٹھ جاتے تھے کہ جس طرح وہ اپنی اِس
زندگی کے خود ہی خالق و مالک ہیں اور اُن کی زندگی پر کبھی موت وارد نہیں
ہونی اور اُنہوں نے اپنی دُھونس دھاندلی سے زندگی کے جو وسائلِ زندگی زندہ
انسانوں سے چھین کر اُن کو زندہ در گور کردیا ہے وہ بھی اُن کا وہ حق ہے جو
اُنہوں نے اپنی اُس طاقت و لیاقت سے حاصل کیا ہے جو اُن کے پاس موجُود ہے
اور جن لوگوں سے اُنہوں نے یہ وسائلِ حیات زبر دستی حاصل کیئے ہیں وہ کم
زور ہیں اور اُن کو زندہ رہنے کا حق بھی صرف اِس لئے ہے کہ وہ اُن کے چاکر
بن کر رہیں اور قُرآن کے اِس مضمون میں یہ اہلِ جہنم یہ بات بھی تسلیم کرتے
ہیں ہیں کہ اُن کے پاس اللہ تعالٰی کے اٙنبیاء و رُسل کے ذریعے اللہ تعالٰی
کا وہ قانونِ معاش بھی آیا تھا جس کی رُو سے زمین کے وسائل اہلِ زمین کی
اجتماعی ملکیت تھے اور اُس قانون میں یہ سہولت بھی دی گئی تھی کہ اگر زمین
کے طاقت ور لوگوں نے زمین کم زور لوگوں کے مال و اٙسباب پر تو قبضہ نہیں
کیا ہے بلکہ اُنہوں نے اپنی علمی و عملی محنت و صلاحیت سے اتنا مال و زر
جمع کر لیا ہے کہ جس سے اُن کے اُس معاشرے میں عدمِ توازن پیدا ہوسکتا ہے
تو اِس صورت میں اُن کو اتناہی مال رکھنے کا حق ہے جو اُن کی ضروریات پوری
کرنے کے لیئے ضروری ہے اور اُس سے جو زائد مال ہے اُس پر اُن دُوسرے کم زور
اہلِ معاشرہ کا حق ہے جو اُن لوگوں کی ناجائز امارت کی وجہ سے غربت و افلاس
کا شکار ہوئے ہیں لہٰذا اِن اہلِ دولت پر لازم ہے کہ وہ اپنی زائد دولت
رضاکارانہ طور پر خود ہی اُن کم زور اہلِ معاشرہ کے سپرد کردیں جو اِس کے
قُدرتی حق دار ہیں ، وہ اہلِ جہنم کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اُس خُدائی قانون
کو مانتے تھے اور نہ ہی اُس قانون کے مطابق انسانی معاشرے کے مُفلس و نادار
لوگوں کے آب و دانے کا کوئی بند و بست کرتے تھے بلکہ جو لوگ ہمیں اِس کارِ
خیر کی طرف کبھی متوجہ بھی کرتے تھے تو ہم اُن کا تمسخر اُڑاتے تھے اور یہ
ہمارے اُسی غیر انسانی عمل کا ایک منطقی نتیجہ ہے کہ آج ہم اِس جہنم میں
پڑے ہوئے ہیں جس جہنم کی ہولناکیوں سے اِس جہنم کو خود بھی ہول آتا ہے ،
قُرآن کی اِس پہلی وحی کے اِس پہلے حُکم کی رُو سے انسان کا انسانی معاشرے
میں معاشی عدمِ توازن پیدا کرنا اُن بڑے اور قابلِ مواخذہ جرائم میں سب سے
بڑا اور سب سے زیادہ قابلِ مواخذہ جرم ہے جن جرائم کی سزا دائمی جہنم ہے
اِس لیئے اِس جرم کی سزا بھی جہنم ہے ، قُرآن کے اِس حُکم سے معلوم ہوتا ہے
کہ دین و ایمان کی عمارت دین کے اُس مضبوط معاشی نظام پر کھڑی ہے جس میں
وسائلِ حیات جُملہ اہلِ حیات کی اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں اور جس دین میں
وسائلِ حیات کی نفی پر وظیفہِ صبر کی تلقین کی جاتی ہے وہ خُدا کا دین نہیں
بلکہ وہ اُن معاشرتی چوروں اور اُچکوں کا خود ساختہ دین ہے جو دینِ حق کے
مُقدس نام پرخُدا کو اور مخلوقِ خُدا کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ، قُرآن کا
یہ بیان اِس اٙمر کا بھی متقاضی ہے کہ زمین پر جن لوگوں کو غلبہ حاصل ہوتا
ہے تو اُن لوگوں پر لازم ہو جاتا ہے کہ جب اُن کو زمین پر غلبہ حاصل ہو تو
وہ اُس زیرِ غلبہ زمین پر وہ قوانین بنائیں جو قوانین انسانی معاشرے میں
معاشی عدمِ تفاوت کو ختم کر کے اُس میں توازن لائیں ، اگر وہ ایسا نہیں
کریں گے تو وہ لوگ بھی اُسی جہنم میں جائیں گے جس جہنم کا قُرآن کے اِس
مضمون میں ذکر ہوا ہے اور جن لوگوں نے اِس آیات سے نماز کا حُکم نکالا ہے
اُنہوں نے خطا کی ہے کیونکہ اِس مقام پر صلٰوة ایک اسمِ موصول ہے جس کا صلہ
وہ طعامِ مسکین ہے جو صلٰوة کو اُس عالمی نظام کے طور پر متعارف کراتا ہے
جس عالمی نظام میں طعامِ مسکین کا اجتماعی نظام جاری ہوتا ہے اور نماز
بذاتِ خود اپنی عملی ہیت کے اعتبار سے نان بائی کا وہ پکوان خانہ تو نہیں
ہے کہ جس پکوان خانے کے نان بائی کو اُس پکوان خانے سے باہر آتے ہی طعامِ
مسکین کا حُکم دے دیا جائے اور اگر وہ اِس حُکم پر عمل نہ کرے تو اُس کو
ایک دائمی جہنم میں ڈال دیا جائے !!
|