یکم اکتوبر کو چین بھر میں قومی دن کی تقریبات انتہائی
جوش و خروش سے منائی جا رہی ہیں۔گزشتہ 73برسوں میں چین کی ترقی کا جائزہ
لیا جائے تو دنیا چین کی کامیابیوں کو ایک معجزہ قرار دیتی ہے۔اس عرصے کے
دوران چین کے اہم کارناموں کا تذکرہ کیا جائے تو صدر شی جن پھنگ کی قیادت
میں مسلسل جدوجہد کے بعد ، چین نے اقوام متحدہ کے 2030کے پائیدار ترقیاتی
اہداف میں شامل انسداد غربت کے ہدف کو دس برس قبل ہی مکمل کرتے ہوئے ایک
غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا ہے اور تخفیف غربت میں پائیدار ترقی کی
ہے۔مجموعی طور پر چین نے 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو غربت سے نجات دلائی ہے۔
ملک سے غربت کے مکمل خاتمے کے بعد چین میں ایک جامع خوشحال معاشرے کی تعمیر
مکمل ہو چکی ہے۔چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا نظام موجود ہے
جو ایک ارب سے زائد لوگوں کا احاطہ کرتا ہے۔چینی عوام کو جدید ترین طبی
سہولیات تک بلا معاوضہ اور با آسانی رسائی حاصل ہے۔دورافتادہ اور دشوار
گزار علاقوں میں رہنے والے باشندوں کو نئے مقامات پر منتقل کرتے ہوئے انھیں
جدید سہولیات سے آراستہ رہائش گاہیں فراہم کی گئی ہیں۔
اقتصادی میدان میں مضبوط قیادت اور دانشمندانہ پالیسیوں کی بدولت آج چین
دنیا کی دوسری بڑی معیشت کہلاتا ہے۔آج چین کی جی ڈی پی ایک سو ٹریلین یوان
کی حد پار کر چکی ہے ۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ عالمگیر وبا کے باعث عالمی
معاشی بد حالی کے باوجود چین نے معاشی ترقی کا اہم سنگ میل عبور کیا ہے جو
یقیناً چین کی مضبوط معاشی پالیسیوں کا عمدہ مظہر ہے۔
آج 73برسوں بعد چین سائنسی و تکنیکی تعلیم کی بنیاد پر ایک جدید اور
اختراعی صلاحیتوں سے مالا مال ملک بن چکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے
وابستہ جدید تصورات مثلاً آرٹیفیشل انٹیلی جنس ،روبوٹکس ،ٹیلی مواصلات
،ڈرون ٹیکنالوجی وغیرہ میں چین دنیا میں سرفہرست ہے۔دنیا اسپیس ٹیکنالوجی
میں چین کی تیز رفتار ترقی پر حیرت زدہ ہے اور چین کے تاریخی مریخ مشن
،چاند پر تحقیق ، خلائی اسٹیشن کی تکمیل کی کوششوں کو بے حد سراہتی ہے۔چین
نے سپر کمپیوٹر اور کوانٹم مواصلات میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
ملک کے تمام دیہی اور شہری علاقوں تک ٹیکنالوجی کی رسائی کو یقینی بنایا
گیا ہے۔ چین میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ایک ارب سے زائد ہو چکی ہے ۔یوں
دنیا میں سب سے بڑا ڈیجیٹل معاشرہ وجود میں آیا ہے۔ چین میں نئے ڈیجیٹل
رجحانات کو بھی بھرپور انداز سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ان میں ای کامرس
،ڈیجیٹل معیشت ، آن لائن ڈیلیوری ،آن لائن روزگار،آن لائن طبی سروس اور آن
لائن تعلیم جیسی خدمات قابل زکر ہیں۔
تحفظ ماحولیات کے تناظر میں بھی چین دیگر دنیا کے لیے ایک قابل تقلید مثال
ہے۔چین نے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ 2060 تک کاربن نیو ٹرل کا ہدف حاصل کرے
گا۔ آج چین قابل تجدید توانائی کے استعمال کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا
ملک بن چکا ہے۔ چین نے صنعتی ڈھانچے کی ترتیب ، توانائی کی بچت و موئثر
استعمال اور کاربن کے کم اخراج پر مبنی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ تحفظ
ماحول کی خاطر چین اس وقت بھی سرسبز ترقی کے نظریے پر عمل پیرا ہے اور
اعلیٰ معیار کی حامل "گرین توانائی" اور "گرین صنعتوں" کو فروغ دے رہا
ہے۔زراعت کے میدان میں قابل کاشت رقبے میں اضافہ ، روایتی زرعی اصولوں کو
ترک کرتے ہوئے جدید مشینری کا استعمال ، زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل
اضافہ ،زرعی مصنوعات کی فروخت کے لیے ای کامرس سمیت نقل و حمل کی سہولیات
کی فراہمی ،زرعی تعلیم کا فروغ اور کاشتکاروں کی تربیت جیسے امور کی بدولت
چین میں گزشتہ اٹھارہ برسوں سے شاندار فصلیں جسے ہم "بمپر کراپس" کہہ سکتے
ہیں ، حاصل ہو رہی ہیں۔چین کی اناج کی پیداوار میں خود کفالت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اناج کی مجموعی سالانہ
پیداوار 650ارب کلو گرام سے زائد چلی آ رہی ہے۔
حقائق کے تناظر میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت نے دل و جان سے خود کو
عوام کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے ، اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ عوام کے مفادات
کو اولین ترجیح دی ، معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ عوام کے معاش کو بہتر
بنایا ، غربت ، قدرتی آفات ، وبائی امراض اور دیگر چیلنجز کا ڈٹ کر مقابلہ
کیا اور کبھی بھی مشکلات کو غالب نہیں آنے دیا گیا ہے۔ آج چینی شہری نہ
صرف آمدنی میں زبردست اضافے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں بلکہ شہری ترقی کے
دیگر ثمرات بھی انہیں حاصل ہیں۔ آج چینی شہریوں کو بہتر تعلیم تک رسائی
،جامع طبی نگہداشت اور محفوظ ماحول میسر ہے۔ چین نے ہمیشہ اصلاحات ، ترقی
اور استحکام کے مابین ربط کو اہمیت دی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہر چینی شہری کے
دل میں اطمینان ، خوشی اور سلامتی کا ایک مضبوط احساس موجود ہے۔ قانون کے
تابع گورننس کو آگے بڑھانے اور "محفوظ چین" کی تعمیر جیسی کوششوں کے ذریعے
چین کو دنیا بھر میں محفوظ ترین ممالک میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا
ہے۔ آج کا چین اہم عالمی و علاقائی امور میں نمایاں اثر و رسوخ کی حامل
ایک مضبوط قوت میں ڈھل چکا ہے۔چین کی باہمی تعاون ، اشتراک اور باہمی
مفادات پر مبنی سوچ اُسے دنیا کی دیگر طاقتوں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی چین
کی ترقی و کامرانی کا کھلا راز ہے۔
|