#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُرسلات ، اٰیت 29 تا
50 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
انطلقوا
الٰی ما کنتم بہ
تکذبون 29 انطلقوا
الٰی ظل ذی ثلٰث شعب 30
لا ظلیل و لا یغنی من اللّھب 31
انھا ترمی بشرر کالقصر 32 کانہ جمٰلت
صفر 33 ویل یومئذ للمکذبین 34 ھٰذا یوم
لا ینطقون 35 و لا یوذن لھم فیعتذرون 36 ویل
یومئذ للمکذبین 37 ھٰذا یوم الفصل جمعنٰکم و الاولین
38 فان کان لکم فکیدون 39 ویل للمکذبین 40 ان المتقین
فی ظلٰل و عیون 41 و فواکہ مما یشتھون 42 کلوا و اشربوا
ھنیئا بما کنتم تعملون 43 انا کذٰلک نجزی المحسنین 44 ویل یومئذ
للمکذبین 45 کلوا و تمتعوا قلیلا انکم مجرمون 46 ویل یومئذ للمکذبین
47 و اذا قیل لھم ارکعوا لا یرکعون 48 ویل یومئذ للمکذبین 49 فبایّ حدیث
بعدہ یومنون 50
جب جہان و اہلِ جہان پر قیامت کا وہ آخری انقلاب آجائے گا تو مُنکرینِ
قیامت سے کہا جائے گا کہ اٙب تُم آگ کے اُس تین شاخہ دھویں کے سائبان کی
طرف بڑھو اور اُس تباہی کا سامنا کرو جس کو تُم جُھٹلایا کرتے تھے ، یہ وہ
آتشیں سائبان ہے جو تُم کو شعلوں کی تپش سے نہیں بچا سکتا کیونکہ اُس
سائبان کے سائے تُم پر بڑے اونٹوں جتنے بڑے بڑے آگ کے گولے بھی گرا رہے ہیں
، اٙب تُم یہ دیکھو اور یہ سوچو کہ اِس دن کے جُھٹلانے والوں کے لئے اِس دن
میں کتنی بڑی تباہی ہے ، اُس دن کے اُس موقعے پر کسی مُجرم سے اقرارِ جُرم
کرانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی کیونکہ ہر انسان کے ہر جُرم کے وہ سارے شواہد
خود ہی سامنے آچکے ہوں گے کہ کسی کے لئے لٙب کشائی کی کوئی گُنجائش ہی نہیں
رہے گی اور اُس دن اُس دن میں اُس دن کی تکذیب کرنے والوں کے لئے بہت بڑی
تباہی ہوگی ، اُس دن اُس آتشیں سائبان میں داخل ہونے والوں سے کہا جائے گا
کہ اِس سائبان میں تُم اکیلے نہیں ہو بلکہ تُمہارے پہلو میں تُم سے پہلے وہ
مُنکر بھی موجُود ہیں جو تُمہاری طرح اِس دن کا انکار کیا کرتے تھے اور تُم
سب جو ہمارے اِس یومِ حساب سے بچنے کی بڑی بڑی تدبیریں کیا کرتے تھے اگر
تُمہاری کوئی تدبیر رہ گئی ہے تو وہ بھی آج کر کے دیکھ لو لیکن اِن مُجرموں
کے بر عکس جو لوگ یومِ قیامت کا یقین رکھتے ہوں گے اور جو اپنے اعلٰی اعمال
کے ساتھ وہاں پُہنچے ہوں گے اُن سے کہا جائے گا کہ تُمہارے لئے یہاں آب و
دانے کی کوئی تنگی نہیں ہے کیونکہ تُم اِن سب نہروں کے وارث اور اِن سارے
باغات کے مالک ہو جو یہاں پر موجُود ہیں اِس لئے تُم کشادہ دلی کے ساتھ
یہاں پر ہر روز اللہ کی عطا کی ہوئی یہ کشادہ روزی کھاو ، جو لوگ سلیقے کی
زندگی گزارتے ہیں ہم اُن کو اسی طرح اپنی نوازشات سے نوازتے ہیں ، تُمہارے
لئے یہاں پر کسی چیز کی کوئی بھی تنگی نہیں ہے کیونکہ اِس زمین پر صرف اُن
لوگوں کے لئے تنگی ہوتی ہے جو دُنیا سے اپنی تنگی کا سامان اپنے ساتھ لے کر
آتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کو اٙحکامِ حق کے سامنے جُھکنے کا کہا جاتا
تھا تو یہ اُن اٙحکامِ حق کا انکار کیا کرتے تھے اور یہ نہیں سوچتے تھے اِس
کتاب کے اٙحکام سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے جس پر ایک انسان ایمان لا
سکتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے اِس دُوسرے اور آخری مضمون میں قیامت کا جو ذکر کیا گیا ہے
اُس ذکر میں قیامت کے اُن مُختلف النوع مناظر میں سے ایک منظر اُجا گر کیا
گیا ہے جو مناظر قیامت کے مُختلف ابتدائی اور ارتقائی مراحل میں انسانی
نگاہ کے سامنے ظاہر ہوں گے ، اٰیاتِ بالا میں اُن مُختلف بدلتے مناظر میں
سے جو ایک قابلِ ذکر منظر اور نظارا یہاں پر اُجاگر کیا گیا ہے وہ تین
شاخوں والے آتشیں دھویں کا وہ آتشیں سائبان ہے جس سائبان میں اُس روز خُدا
کے اُن مُجرموں کو داخل ہونے کا حُکم دیا جائے گا جن کا جُرم اُس سائبان
میں داخل ہونے سے پہلے ہی اُن پر ثابت کیا جا چکا ہو گا اِس لئے اُن کے اُس
سائبان میں داخل ہوتے ہی اُن کے اُس ثابت شدہ جرم کی جاری ہونے والی سزا پر
عمل درآمد ہونا شروع ہو جائے گا ، وہ جو کہا جاتا ہے تو ٹھیک ہی کہا جاتا
ہے کہ کانوں سنی حقیقت آنکھوں دیکھی حقیقت کی طرح نہیں ہوتی اِس لئے اُس
آتشیں سائبان کے بارے میں کوئی فیصلہ کُن بات کہنا کسی بھی انسان کے لئے
مُمکن نہیں ہے ، قُرآن میں اُس سائبان کا جُو اُسلوبِ بیان ہے اُس اُسلوبِ
بیان سے بظاہر تو اُس آتشیں سائبان کی وسعت کو ظاہر کرنا ہی نظر آتا ہے
کیونکہ جس دھویں کا مُحرک جتنا بڑا ہوتا ہے اُس کے پسِ پردہ مُحرک کی تحریک
بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے ، اُس کا حجم بھی اتنا ہی وسیع ہوتا ہے اور اُس کی
حٙدِ نظر تک نظر آنے والی شاخیں بھی اتنی ہی طویل و عریض ہوتی ہیں لیکن دٙر
حقیقت اِس منظر کا نظارہ کیا ہو گا اِس کا کوئی اندازہ لگانا اِس دُنیا میں
خارج از بحث ہے لیکن اِس منظر کے ضمن میں کہی گئی پہلی بات جو اُس دھویں
میں بڑے بڑے شعلوں کی بات ہے تو وہ بات اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ آتشیں
دھواں آتشِ جہنم سے اُٹھنے والا ہی ایک دھواں ہو گا ، دُوسری بات جس کا اسی
پہلی بات سے اندازہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے روز جس مقام پر یہ آتشیں
منظر ظاہر ہو گا وہ مقام جہنم کے قرب و جوار میں ہی کہیں پر موجُود ہو گا
اور تیسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو دھویں کے اِس دائرے میں داخل ہونے کا
حُکم دیا جائے گا اُن کے جہنم میں داخل ہونے کا وہ ایک طے شدہ وقت ہو گا جس
وقت انسانی نگاہ پر یہ منظر اُجاگر ہوگا لیکن اِن سارے اندازوں سے زیادہ
اہم بات یہ ہے کہ قیامت کے اِس ذکر میں جن لوگوں کے داخلِ جہنم ہونے کا ذکر
ہوا ہے اُن کا جُرم قیامت کا انکار ہے اور قیامت کے انکار کا سبب قُرآن کا
انکار ہے کیونکہ اگر اُنہوں نے قُرآن کا انکار نہ کیا ہوتا تو وہ قیامت کا
بھی کبھی انکار نہ کرتے اور جہاں تک قُرآن کے انکار کا تعلق ہے اِس کی ایک
صورت تو یہ ہے کہ جن لوگوں کے سامنے قُرآن نازل ہوا ہے اور اُن لوگوں نے
اُس پر ایمان لانے کے بجائے اُس کا انکار کیا ہے ، دُوسری صُورت یہ ہے کہ
بعد کے جس زمانے کے جن لوگوں نے قُرآن پر ایمان لانا قبول کیا ہے تو اُنہوں
نے قُرآن کے اٙحکام پر عمل نہیں کیا ہے ، اِن میں سے پہلے لوگ جو قُرآن کے
زبانی مُنکر ہیں وہ پہلے درجے کے مُنکر ہیں اور دُوسرے لوگ جو قُرآن کے
عملی مُنکر ہیں وہ دُوسرے درجے کے مُنکر ہیں اور اِن دونوں قسم کے منکرینِ
قُرآن کی سزا قُرآن نے مُختلف مقامات پر بیان کی ہوئی ہے لیکن قُرآن کے
مُنکروں کی یہ تیسری قسم وہ ہے جس نے قُرآن کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ
اقرار کیا ہے اور اِس نے قُرآن کے ساتھ محض بے عملی کا مظاہر نہیں کیا ہے
بلکہ اِس نے اِس بد عملی کا مظاہر کیا ہے کہ اِس نے اپنی جس زبان سے قُرآن
کو اللہ کی سچی کتاب کہاہے اُسی زبان سے قُرآن کے خلاف فتوے اور فیصلے دے
کر اپنے اُن عملی فیصلوں کے ذریعے قُرآن کی تکذیب کی ہے ، یہ لوگ جو قُرآن
کے خلاف فتوے اور فیصلے صادر کرتے رہے ہیں یہ لوگ قُرآن کے بدترین مُجرموں
قُرآن کے سب سے بدترین مُجرم ہیں اور سُوئے اتفاق یہ ہے کہ قُرآن کے یہ
مُنکر صرف مُسلم مُمالک اور مُسلم اقوام میں ہی پائے جاتے ہیں ، کسی اور
مُلک یا کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے ، عجب نہیں ہے کہ قیامت کے روز اُن
تین آتشیں سائبانوں سے گزر کر جو لوگ جہنم میں جائیں وہ یہی مُنکر و بد
نصیب لوگ ہوں !!
|