کیا بات ہے جی ۔۔۔کیا بات ہے ۔۔۔ اور واہ واہ کرتے
خوشامدیوں کا ایک جھرمٹ ہے جو سرکاری محکموں میں بیٹھے افسران کا ہر وقت
گھیراؤکئے رہتا ہے لفظوں کے یہ جادو گر اپنی میٹھی گفتگو سے تعریفوں کے وہ
پُل باندھتے ہیں کہ اچھے بھلے آدمی کی بھی مت ماری جاتی ہے چنانچہ انتظامی
افسران کی ساری تعلیم و تربیت عقل و فہم اور قابلیت جواب دے جاتی ہے عاجزی
و انکساری کے دعوے کرنے والوں پر دیکھتے ہی دیکھتے ’’ خبط ِ عظمت ‘‘کا جادو
سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے آئینے میں اپنا سراپا اور اخبارات و سوشل میڈیا پر
گلدستے وصولتے ہوئے تصویریں بھلی لگتی ہیں اس خودشامد کلچر کا نتیجہ یہ ہے
کہ انتظامی افسران کے دروازے ٹاؤٹوں اور ان ’’ماہر عملیات‘‘کے لئے تو کھلے
ہیں لیکن عوام الناس کے لئے ان افسران کے دفاتر میں داخلہ تک ممکن نہیں
ہوتا وہ سفارش کے بغیر اپنا مدعا تک بیان کرنے کے قابل نہیں ہیں،ہر طرف
شکایات کا انبار لگا ہوا ہے ، لوگ جھولیاں اُ ٹھا اُٹھا کر حکمرانوں کو
بدعائیں دے رہے ہیں ، پیسے ہاتھ میں پکڑے لائنوں میں لگے دھکے کھاتے پھر
رہے ہیں انہیں آٹا چینی گھی تک نہیں ملتا ، وفاقی اور صوبائی حکومت میں
کوئی نہیں جو عوام کا سوچے ، کسی منڈی میں کسی مارکیٹ میں اور کسی پرچون کی
دوکان پر کوئی شے سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ،پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا
کردار ختم ہو چکا ہے ، یوٹیلیٹی سٹور ز پر عوام کے لئے مطلوبہ سبسڈائز
سامان کی شدید قلت ہے، پچھلے دنوں بجلی کے بلوں کی’’ بمباری ‘‘ کے دوران
اچھے کھاتے پیتے گھرانو ں کے لوگوں کو بھی بلوں کی دردستگی کے لئے فریادیں
کرتے اور مارے مارے پھرتے دیکھا سرکار کے کسی دفتر میں کوئی شنوائی نہیں
تھی ، گوجرانوالہ کی انتظامیہ نے شہریوں کی تفریح کے نام پر گلشن پارک بڑی
سکرین پر کرکٹ میچ دکھانے کا انتظام کیا اندازہ ہوا کہ ان افسران کی عوامی
مسائل اور معاملات سے ناواقفیت ہے یا بے حسی کہ انکی ترجیحات میں حقیقی
عوامی مسائل شامل ہی نہیں ہیں ، آلتو فالتو کی ڈرامے بازیاں ، جلعی
کارروائیاں ڈالنے والے افسران کو اصل مسائل کیوں دکھائی اور سنائی نہیں
پڑتے ، کیاچیف ٹریفک آفیسر کو تجاوزات میں گھرے گوجرانوالہ شہر اور پورے جی
ٹی روڈ پر قابض مافیا نظرنہیں آتا یا وہ کبھی یہاں سے گزرے نہیں،پورے روڈ
پر ڈیوائیڈر لائن ٹوٹ پھوٹ چکی ہے تعلیمی اداروں میں چھٹی کے اوقات میں جی
ٹی روڈ پر ٹریفک کا حال دیکھیں توہائی وے نہیں کسی گاؤں کے میلے کا منظر
معلوم ہوتا ہے شہر بھر میں جہاں یوٹرن اشد ضروری ہے وہاں بنداور جہاں غیر
ضروری ہیں وہاں کھلے رکھے ہوئے ہیں ، شہر کے تھوڑے سے حصے میں پانچ پھاٹک
شہر کے حاکموں ، فیصلہ سازوں اور ارباب اختیار کے منہ پر زناٹے دار طمانچے
کی طرح ہیں شہریوں کا آدھا دن تو ان پھاٹکوں پر ذلیل ہوتے گزر جاتا ہے ،
چاند گاڑیوں اور رکشاؤں کو چلانے والے نو عمر لڑکے سارا دن جہاں چاہے الٹے
ہاتھ دوڑاتے چلے آتے ہیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ، اعلیٰ ٹریفک افسران
کی سر پرستی میں تجاوزات کرنے والے دوکانداروں ، ریڑھیوں ،چھابڑیوں اور
جعلی پارکنگ سٹینڈز والوں سے مہینہ وصول کرنا معمول ہے ، گرین بیلٹ پر
لوگوں نے باقاعدہ ہوٹل بنا رکھے ہیں ، آٹو ورکشاپس چل رہی ہیں ،انتظامی
بھونڈے پن اور سیاستدانوں کی غلامی کا نتیجہ ہے کہ جناح سٹیڈیم میں جلسوں
کے انعقاد نے اسکا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ، ہر طرف عام لوگ رُل رہے ہیں
مہنگائی بے روزگاری اورلوُٹ مار کا ریٹ بڑھ رہا ہے ، تھانوں میں رشوت اور
سفارش کے بغیر کوئی عام آدمی کو منہ لگانے کو بھی تیار نہیں ہوتا ، تھانے
کچہری سے واسطہ پڑ جائے تو جمع پونجیاں اور رہی سہی متاع بھی لٹ جاتی ہے
مگر انصاف نہیں ملتا ، عوام کے لئے صحت تعلیم کی سہولیات کا شدید فقدان ہے
ڈی ایچ کیو اسپتال میں پرچی پر لمبی لائینیں سب اچھا کہنے اور بتانے والوں
کی حقیقت بیان کر رہی ہوتی ہیں ، خوشامدیوں کا جگراکتنا بڑا ہو گا جو
حکمرانوں کے ظلم اور انتظامی افسران کی بے حسی ، عوامی مسائل پر عدم توجہی
اور منصب کے ساتھ ناانصافی پر انہیں تعریفی القابات سے نوازتے ہوئے تھکتے
نہیں ہیں ،اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کوئی محکمہ ایسا ہے جہاں
سہولیات اور عوامی خدمت کے معیار کو دیکھ کر ہم خوشی سے سرشار ہو سکیں ، سچ
پوچھیں اپنا تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔آٹے میں نمک کی طرح موجود بعض اچھے
افسران بھی ناانصافی اوربے حسی پر مبنی اس استحصالی نظام میں فالتو پرزے
جیسے ہیں۔ایسے میں زبان سے ۔۔۔ کیا بات ہے جی کیا بات ہے ۔۔۔جیسے الفاظ ۔۔۔آخرکیسے
نکل سکتے ہیں۔
|