#العلمAlilm سُورَةُالنازعات ، اٰیت 27 تا 46 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ءانتم
اشد خلقا ام
السماء بنٰہا 27
رفع سمکھا فسوٰھا
28 و اغطش لیلھا و
اخرج ضحٰھا 29 والارض
بعد ذٰلک دحٰہا 30 اخرج منہا
ماء ھا و مرعٰہا 31 والجبال ارسٰہا
32 متاعالکم والانعامکم 33 فاذاجاءت
الطامة الکبرٰی 34 یوم یتذکر الانسان ما سعٰی
35 وبرزت الجحیم لمن یرٰی 36 فاما من طغٰی 37
و اٰثرالحیٰوة الدنیا 38 فان الجحیم ھی الماوٰی 39 واما
من خاف مقام ربهٖ ونھی النفس عن الھوٰی 40 فان الجنة ھی
الماوٰی 41 یسئلونک عن الساعة ایان مرسٰہا 42 فیم انت من ذکرٰہا
43 الٰی ربک منتھٰہا 44 انما انت منذر من یخشٰہا 45 کانھم یوم یرونھا
لم یلبثوا الا عشیة او ضحٰہا 46
اے ہمارے رسول ! قیامت کے مُنکروں سے کہیں کہ تُم خوب سوچ سمجھ کر بتاؤ کہ
اللہ کے لئے تُمہاری تخلیق کا عمل کارِ عظیم تھا یا اُس آسمان کی تخلیق کا
عمل کارِ عظیم تھا جس آسمان کو پہلے اُس نے ایک عظیم وجُود بخشا ہے ، پھر
اُس آسمان کے اُس عظیم وجُود کو اُس نے اُس کے مقامِ تخلیق سے اُوپر
اُٹھایا ہے ، پھر اُس کی اُس چھت میں ایک توازن قائم کیا ہے ، پھر اُس
آسمان کو رات کی ایک سیاہ چادر سے ڈھانپ دیا ہے ، پھر اُس سیاہ چادر پر دن
کا روشنی کا ایک خول چڑھا کر دونوں کو ایک ترتیب کے ساتھ حاضر و غائب ہونے
کا پا بند بنا دیا ہے ، اِس کے بعد اُس نے اُس آسمان کے سائے میں زمین کا
جو فرش بچھایا ہے تو اُس فرش سے اُس نے تُمہارے پینے کے لئے پانی اور
جانوروں کے کھانے کے لئے چارہ نکالا ہے اور پھر تُمہاری اور تُمہارے
جانوروں کی گزر بسر کے لئے اُس میں بڑے بڑے پہاڑ بھی گاڑ دیئے ہیں اِس لئے
لازم ہے کہ وہ خالقِ ارض و سما اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق تُمہاری اِس
اقامت گاہ پر قیامت کا وہ گواہ زمانہ بھی لائے جس زمانے کے ذریعے تمام اہلِ
زمین کا وہ تمام کیا دَھرا تمام اہلِ زمین کے سامنے لائے جس کے نتیجے میں
ہر سر کش کی سزاۓ جہنم اُس کے سامنے لائی جائے اور جس کے ذریعے ہر سرنگوں
کو اُس کی جزاۓ جنت بھی دے دی جاۓ اِس لئے جو لوگ آپ سے اُس یومِ قیامت کے
آنے کے وقت بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ اُن کو بتادیں کہ نبی کا منصبِ
رسالت تعلیمِ رسالت ہے جس میں یومِ قیامت آنے کی یہ خبر بھی شامل ہے جو تُم
کو سنا دی گئی ہے لیکن جہاں تک اُس قیامت کے برپا ہونے کے وقت کا تعلق ہے
تو وہ صرف اللہ کے دائرہِ علم و اختیار میں ہے اور جب اُس کے حُکم پر وہ
قیامت قائم ہوجائے گی تو یہ سارے لوگ یوں محسوس کریں گے کہ وہ دن کے پہلے
پہر یا پچھلے پہر کے ایک پہر میں ہی کُچھ دیر کے لئے اُس دُنیا میں رُکنے
کے بعد اُس دور میں داخل ہو گئے ہیں جس کا نام قیامت ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ہر پہلے زمانے کی پہلی قوم اور اِس آخری زمانے کی اِس آخری قوم کا یہ ایک
ہی خیالی و خوابی المیہ رہا ہے کہ جس انسان نے اُن کے سامنے اپنی نبوت و
رسالت کا دعوٰی کیا ہے اُس انسان کے اِس دعوے کے سچے ہونے کی ایک ہی دلیل
رہی ہے کہ اگر وہ اللہ کا سچا نبی ہے تو اُس کو عالَمِ غیب کی ہر بات کا
علم ہونا چاہیئے اور اُس قیامت کا بھی علم ہونا چاہیئے جس قیامت کے زمین پر
آنے کی وہ اہلِ زمین کو خبر دے رہا ہے اور یہی وہ خیال ہے جس خیال کے تحت
ہر قوم اپنے زمانے کے ہر نبی سے قیامت کے آنے کے بارے میں سوال کرتی رہی ہے
اور زمین کی اِس آخری قوم نے بھی اپنے آخری نبی سے یہی سوال کیا ہے جس کا
ایک اصولی جواب تو قُرآن کے ہر اُس مقام پر دیا گیا ہے جس مقام پر قیامت کا
ذکر آیا ہے لیکن اِس سُورت کی اٰیت 42 و 43 اور اٰیت 44 و 45 میں جو علمی و
عقلی جواب دیا گیا ہے وہ جواب علمی و عقلی اعتبار سے ایک ایسا فیصلہ کُن
جواب ہے کہ اُس کے بعد کسی سوال و جواب کی گُنجائش ہی نہیں رہتی لیکن جس
سوال کا ذکر کیا گیا ہے اِس سوال کا تعلق اللہ تعالٰی کے علمِ غیب کے ساتھ
نہیں ہے بلکہ اُس کے رسول کے اُس علمِ غیب کے ساتھ ہے جو علمِ غیب اُس نے
اپنے اُس رسول کو دیا ہے اِس لئے قُرآن نے اِس مقام پر اِس سوال کا جو عقلی
و منطقی جواب دیا ہے اُس کا ما حصل یہ ہے کہ مُطلق علمِ غیب کا عالِم تو وہ
اللہ تعالٰی ہی ہے جس نے پہلے اِس عالَم کو پیدا کیا ہے ، پھر اِس عالَم
میں انسان کو پیدا کیا ہے اور پھر اِس عالَم میں انسان کے لئے اپنے اَنبیاء
و رُسل کے ذریعے رُشد و ہدایت کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اِس لئے یہ بات تو
بہر طور طے ہے کہ عالَم کے ہر اَمرِ غیب کا عالَم صرف اللہ تعالٰی ہے جس نے
اپنے جس نبی اور اپنے جس رسول کو انسانی ہدایت کے لئے اپنے عالَمِ غیب سے
جو علمِ غیب دیا ہے وہ کسی غیر نبی اور غیر رسول کو ہر گز نہیں دیا ہے اِس
لئے کسی انسان کے پاس وہ علمِ مطلوب بھی نہیں ہے کہ جس کی بنا پر وہ یہ
فیصلہ کر سکے کہ اللہ نے اپنے کس نبی کو اور اپنے کس رسول کو کتنا علم دیا
ہے اِس لئے انسان کا یہ خیال بذاتِ خود غلط ہے کہ جو انسان اللہ کا نبی اور
رسول ہوتا ہے اُس کے لئے اللہ تعالٰی کے سارے علم کا عالِم ہونا لازم ہوتا
ہے کیونکہ اگر اِس خیال کو ایک لَمحے کے لئے بھی درست مان لیا جائے تو پھر
اللہ تعالٰی کے علم اور اُس کے رسول کے علم میں کوئی فرق ہی نہیں رہے گا
کیونکہ اِس جاہلانہ خیال کے مطابق تو اللہ کا نبی اور رسول بھی اللہ کا
شریک فی العلم ہو کر اللہ کا شریکِ علم و عمل ہو جاۓ گا اسی لئے اِس سُورت
کی اٰیت 43 میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کی زبان سے قیامت کے بارے میں
سوال کرنے والوں کو جو جواب دلایا ہے وہ جواب یہ ہے کہ { فیم انت من ذکرٰہا
} یعنی آپ کا بَھلا اِس سوال سے کیا تعلق ہے جو اِس جہان کے بارے میں نہیں
ہے جس جہان میں آپ موجُود ہیں بلکہ یہ اُس جہان کے بارے میں ہے جس میں آپ
موجُود ہی نہیں ہیں اِس لئے اِس سوال کے ساتھ بھی آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے
اور اِس سوال کے اِس جواب کے ساتھ بھی آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ اِس
سوال کا آپ کے علمِ رسالت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اِس طے شدہ ضابطے
سے قطع نظر سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر ایک مسلمان برسبیلِ اعتقاد نہیں بلکہ
بر سبیلِ تذکرہ ہی کسی نبی و رسول کے علمِ غیب کی بات کر رہا ہے تو اُس کے
اُس تذکرے کی حدُود کیا ہیں اور اُس کو برسبیلِ تذکرہ کتنی بات کرنے کا
کتنا اختیار ہے کہ اُس کی اُس بات سے اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ شرک بھی
لازم نہ آئے اور اُس سے توہینِ نبوت کا ارتکاب بھی نہ ہو ، فرض کریں کہ ایک
مسلمان کسی بھی نبی یا رسول کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ اُن کو عالَمِ غیب
کا کوئی علمِ غیب حاصل نہیں تھا تو وہ دَر اصل اُس نبی اور اُس رسول کے
علمِ غیب کی ہی نہیں بلکہ اُس نبی اور رسول کی نبوت و رسالت کی بھی نفی کر
رہا ہے کیونکہ ہر نبی و رسول کو جو علمِ نبوت و رسالت حاصل ہو تا ہے وہ
عالَمِ غیب کا وہ علمِ غیب ہی ہوتا ہے جو اُس کو حاصل ہوتا ہے اور اُسی
علمِ غیب پر اُس کی نبوت و رسالت کا دعوٰی قائم ہوتا ہے اور اِس کے بر عکس
جو مسلمان بر سبیلِ تذکرہ بھی کسی نبی یا رسول کے بارے میں عالَمِ غیب کے
جُملہ علومِ غیب حاصل ہونے کا دعوٰی کرتا ہے وہ علمِ خالق و علمِ مخلوق کی
حدُود کو ختم کر کے اللہ کو اُس کے مقام سے اُتار کر رسول کے منصب پر لے
آتا ہے اور اُس رسول کو اُس کے منصبِ نبوت سے ہٹا کے اللہ کے منصبِ الُوہیت
پر فائز کر دیتا ہے حالانکہ وہ اپنے علمِ محدُود کے ساتھ اُس علمِ لامحدُود
کے بارے میں کُچھ بھی نہیں جانتا ہے جس علمِ لامحدُود کا اللہ اور اُس کے
رسول کے درمیان ایک مُستقل بالذات سلسلہ قائم ہوتا ہے جس لامحدُود علم کے
بارے میں وہ اپنے علمِ محدُود کے ساتھ گفتگو کر رہا ہوتا ہے اِس لئے لازم
ہے کہ جب ایک مسلمان اِس موضوع پر کوئی بات کرے تو وہ علمِ رسالت کی اِن
علمی و عملی حدُود و قیُود کا بھی پُورا پُورا خیال رکھے یا پھر وہ اِس
موضوع پر وہ بات ہی نہ کرے جس بات کے بارے میں اُس کو مناسب علم اور مناسب
معلومات حاصل نہ ہوں !!
|