قُرآن اور حیاتِ ماضی و حسابِ حیاتِ ماضی !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَةُالتکویر ، اٰیت 1 تا 29 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذاالشمس کوّرت 1
واذاالنجوم انکدرت 2 واذالجبال سیرت
3 واذاالعشار عطلت 4 واذاالوحوش حشرت 5
واذاالبحار سجرت 6 واذاالنفوس زوجت 7 واذالموءدة
سئلت 8 بائ ذنب قتلت 9 واذاالصحف نشرت 10 واذاالسماء
کشطت 11 واذاالجحیم سعرت 12 واذالجنة ازلفت 13 علمت نفس
مااحضرت 14 فلااقسم بالخنس 15 الجوار الکنس 16 والیل اذآ عسعس
17 والصبح اذاتنفس 18 انه لقول رسول کریم 19 ذی قوة عند ذی العرش
مکین 20 مطاع ثم امین 21 وما صاحبکم بمجنون 22 ولقد راٰه بالافق المبین
23 وماھو علی الغیب بضنین 24 وماھو بقول شیطٰن الرجیم 25 فاین تذھبون 26
ان ھو الا ذکر للعٰلمین 27 لمن شاء منکم ان یستقیم 28 وما تشاءون الا ان یشاء اللہ
رب العٰلمین 29
جب سُورج لپیٹ دیا گیا ، جب ستارے سمیٹ دیئے گۓ ، جب پہاڑ چلا دیئے گۓ ، جب حاملہ اونٹنیاں بے مہار چھوڑ دی گیئں ، جب وحشی جانور جمع کر دیئے گۓ ، جب سمندر بھڑکا دیئے گۓ ، جب جانیں جسموں سے ملا دی گئیں ، جب زندہ دَر گور بچی سے سوال کیا گیا کہ تُو کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی ، جب حسابِ حیات کے صحیفے کھول دیئے گۓ ، جب آسمان کے پردے ہٹا دیۓ گۓ ، جب آگ کی بھٹی بھڑکا دی گئی اور جب جنت قریب کردی گئی تو ہر جان نے جان لیا کہ اُس کا مالِ سفر کیا ہے اور اُس کا مآلِ کیا ہے ، میں تمہیں اُن سمٹ کر چلنے والے سیاروں کے اعمال کا یقین دلاتا ہوں ، میں تمہیں پھیل پھیل اور دَبک دَبک کر چلنے والے سیاروں کے اعمال کا بھی یقین دلاتا ہوں ، میں تمہیں شبِ دیجُور کے جانے اور صُبحِ پُر نُور کے آنے کے یقینی اعمال کی طرح اِس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ یہ اللہ کے اُس عالی مقام اور عالی کلام رسول کا کلام ہے جس کی عالَمِ بالا میں اطاعت کی جاتی ہے اور تُم ہمارے جس داناۓ راز رسول کی معیت میں ہو وہ ہمارے اِس عالَم کے جس عمل کے بارے میں جو کہہ رہا ہے وہی عمل ہمارے اِس عالَم میں ہو رہا ہے کیونکہ اِس نے ہمارے علمِ وحی کے اُس بلند اُفق کو دیکھا ہے اِس لیئے یہ جو کُچھ کہتا ہے وہ اِس کا گمان نہیں ہے بلکہ ہمارا فرمان ہے ، اَب تُم خود ہی سوچو کہ تُم اُس فرمان کو چھوڑ کر کہاں بَہٹک رہے ہو جو فرمان ہر جان و جہان کے مالک نے اِس مقصد کے لیئے نازل کیا ہے کہ جو فرد اور جو جماعت اِس فرمان سے فیض پانا چاہے وہ اِس سے فیض پاۓ لیکن یہ اسی صورت میں مُمکن ہے کہ وہ فرد اور وہ جماعت پہلے اپنی نیت کو اللہ کی مشیت کے مطابق بنائے اور اُس کے بعد اِس سے فیض پائے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اللہ کی ذاتِ عالی جتنی لامحدُود ہے ، اُس کا علمِ عالی جتنا لامحدُود ہے ، اُس کا یہ عالَمِ عالی جتنا لامحدُود ہے اور اُس کے اِس عالَمِ عالی پر گزرے ہوۓ اور گزرنے والے زمان و مکان جتنے لامحدُود ہیں انسان کا دائرہ فکر و خیال اتنا ہی محدُود ہے اِس لیئے انسان کے دائرہِ فکر و خیال کی دُنیا اور اِس دُنیا کے زمان و مکان ایک آدم سے شروع ہو کر ایک آدم کی ایک ہی اولاد پر ختم ہو جاتے ہیں لیکن قُرآنِ کریم کہتا ہے کہ انسان اپنے اِس حال میں رہتے ہوئے اِس عالَم کے مُستقبل میں برپا ہونے والے جس طرح کے چھوٹے یا بڑے انقلابِ عالَم کو اپنے تصور میں لا سکتا ہے اِس طرح کے چھوٹے اور بڑے انقلابِ عالَم اِس عالَم کے ماضی میں بھی برپا ہوتے رہے ہیں اور ماضی کے اُن ہی بڑے بڑے انقلابِ عالَم میں سے ماضی کا ایک بڑا انقلابِ عالَم وہ ہے جو اِس سُورت میں اِس غرض سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان ماضی کے اُس انقلابِ عظیم کو جان کر مُستقبل کے اُس انقلابِ عظیم کا بھی یقین کر لے جس انقلابِ عظیم نے اِس عالَم میں بہر حال اور بہر صورت ایک نہ ایک دن آنا ہی آنا ہے ، اِس سُورت میں جو تین مضامین بیان ہوۓ ہیں اُن تین مضامین میں سے پہلا مضمون ماضی کی اُس محشر کے اَحوال پر مُشتمل ہے جس محشر کا جو اَحوال اِس سُورت کی اٰیت 1 سے لے کر اِس سُورت کی اٰیت 14 میں بیان ہوا ہے ، اِس موقعے پر اِس مضمون کے ضمن میں یہ عرض کر دینا بھی بے جا نہیں ہو گا کہ عہدِ نبوی میں جب زمینِ عرب پر قُرآن کا انقلاب کا رُونما ہوا تھا تو اُس وقت مُشرکینِ عرب کا قومی نشان قمر اور مجوسانِ ایران کا قومی نشان شمس تھا اِس لیئے بعض اہلِ علم نے ماضی کے اِس انقلاب کو عہدِ نبوی کا وہی انقلاب تصور کیا ہے جس انقلاب کے نتیجے میں وہ دونوں اَقوام ایک بہت بڑی سیاسی شکست سے دو چار ہوئی تھیں ، اُن اہلِ علم کی یہ بات اگرچہ واقعاتی اعتبار سے درست ہے لیکن اِس سُورت میں جس انقلاب کا ذکر کیا گیا ہے اُس کا دائرہ اِن دو اقوام کی سیاسی شکست سے کہیں زیادہ وسیع ہے اِس لیئے اِس انقلاب کو ہم نے اِس کے اُس وسیع پس منظر میں سمجھنا زیادہ مناسب سمجھا ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ، اِس سُورت کا دُوسرا مضمون جو اِس سُورت کی اٰیت 15 و 16 اور اٰیت 17 میں بیان ہوا ہے اُس مضمون میں عالَمِ فلک کے اجرامِ فلکی کے اُس توازن کا ذکر کیا گیا ہے جن میں جب تک قُدرت کی طرف سے وہ توازن قائم رکھا جاتاہے تب تک وہ اجرامِ فلکی قائم رہتے ہیں اور جب اُن کا وہ توازن ختم کر دیا جاتا ہے تو اُن کا وجُود فنا ہو جاتا ہے اور اُن کا فنا ہونا ہی اُن کے اُس دائرے میں اُس چھوٹے یا بڑے انقلاب کا باعث ہوتا ہے جس انقلاب کو اُن اجرامِ فلکی کی حدُود میں قائم ہونے والی قیامتِ صُغرٰی یا قامتِ کُبرٰی کہا جاتا ہے ، چنانچہ سائنس کے ایک ہندوستانی عالم خالد سیف اللہ نے اِس سُورت کی اٰیت 15 اور اٰیت 16 میں وارد ہونے والی اِن دو قُرآنی اصطلاحات { خُنس و کُنس } پر { دو اہم قوتوں کا توازن } کے زیرِ عنوان اپنی کتاب { قرآنِ کریم ، سائنس اور کائنات } میں جو تفصیلی بحث کی ہے اگر اُس بحث کو ہم اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ بیان کر سکیں تو اُس بحث کا خلاصہِ کلام یہ ہوگا کہ خُنس سُورج کے گرد گھومنے والے سیاروں کی ایک مرکز ریز Centripal force رفتار کی حامل قُوت ہوتی ہے جو اُن سیاروں کو اُس سمت میں بڑھاتی ہے جس سمت میں سُورج بڑھ رہا ہوتا ہے اور کُنس سیاروں کی ایک مرکز گریز Centrifugal force رفتار کی حامل قُوت ہوتی ہے جو سُورج کی سمت میں بڑھنے والے اُن سیاروں کو اپنی طرف کھینچ کر رکھتی ہے تاکہ وہ سیارے اُس متوازن رفتار کے ساتھ سُورج کا اِس طرح سے تعاقب کریں کہ نہ تو اُن کی رفتار میں اتنی کمی ہوجاۓ کہ وہ سُورج کا مطلوبہ رفتار کے ساتھ تعاقب کرنے میں ناکام ہو جائیں اور نہ ہی اُن کی رفتار میں اتنا اضافہ ہو جاۓ کہ وہ سُورج سے ٹکرا کر قیامت سے پہلے قیامت برپا کرنے کا سبب بن جائیں اور جس روز قُدرت اِن سیاروں سے توازن کی یہ قُوت واپس لے لے گی تو اُس روز سُورج اور سیارے آپس ٹکرا جائیں گے جس کے بعد مادے کے جُملہ عناصر الفا و بیٹا اور گاما وغیرہ شعاعوں میں بدل جائیں گے جس کے بعد کائنات پھر اُسی گولے کی صورت اختیار کر لے گی جس گولے کی شکل میں وہ بگ بینگ سے پہلے موجود تھی اور اِس سُورت میں جو تیسرا مضمون بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تُم لوگ جو ہمارے جس دانائے راز رسول کی معیت میں ہو اُس کی ہر بات سچ ہے کیونکہ اُس کی ہر بات کی بُنیاد ہماری وہ وحی ہے جس کا اُس نے ہمارے بلند اُفق پر بذاتِ خود تجربہ اور بچشمِ خود وہ مشاہدہ کیا ہے جس کا سُورَةُالنجم میں ذکر ہوا ہے اِس لیئے ہمارے عالَم میں ہمیشہ سے وہی کُچھ ہو رہا ہے اور ہمیشہ ہی وہی کُچھ ہوتا رہے گا جو اُس رسول پر نازل ہونے والی اِس کتابِ وحی میں ہم نے بیان کر دیا ہے ، اِس سُورت کی پہلی 14 اٰیات کے اِس بیان میں ہم نے ماضی کا جو اُسلوبِ بیان اختیار کیا ہے اُس کا پہلا سبب ماضی مجہُول کے وہ 14 صیغے ہیں جو ہر اٰیت کے کلمہِ اختتام پر آۓ ہیں اور دُوسرا سبب وہ حرفِ { اذا } بمعنی جب ہے جو ہر اٰیت کے شروع میں اٰیا ہے اور قُرآن میں اِس حرف { اذا } کو لانے کا واحد سبب ماضی کے کسی ایک بُھولے بِسرے ایک واقعے یا ایک سے زائد واقعات کو انسان کی یاد میں لانا مقصود ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461733 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More