جہانِ رَفتہ کے اعمالِ رَفتہ اور جہانِ رواں کے اعمالِ رواں !!

#العلمAlilmn سُورَةُالاِنفطار ، اٰیت 1 تا 19 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذا السماء
انفطرت 1 واذا
الکواکب انتثرت 2 و
اذا البحار فجرت 3 واذا
القبور بعثرت 4 علمت نفس
ما قدمت و اخرت 5 یٰایھا الانسان
ما غرک برب الکریم 6 الذی خلقک فسوٰک
فعدلک 7 فی ائ صورة ماشاء رکبک 8 کلا بل
تکذبون بالدین 9 وان علیکم لحٰفظین 10 کراما
کٰتبین 11 یعلمون ما تفعلون 12 ان الابرار لفی نعیم
13 وان الفجار لفی جحیم 14 یصلونھا یوم الدین 15
وماھم عنھا بغائبین 16 وما ادرٰک ما یوم الدین 17 ثم ما
ادرٰک ما یوم الدین 18 یوم لا تملک نفس لنفس شیئا والامر
یومئذ للہ 19
جب آسمان کو کھول دیا گیا ، جب ستاروں کو پھیلا دیا گیا ، جب سمندروں کو بہا دیا گیا اور جب زمین کے دفینے زمین سے نکال دیئے گئے تو ہر انسان نے جان لیا کہ انسانِ رفتہ کے اعمالِ رفتہ اُس کے جہانِ رَفتہ کے ساتھ رفت گزشت ہو چکے ہیں اور جہانِ کے حاضر انسانِ حاضر کو اعمالِ خیر و شر کا اختیار دے دیا گیا ہے تو پھر اِس انسان کو یہ بھی تو سوچنا چاہیۓ کہ آخر اَب کس چیز نے اُس کو اپنے اُس مہربان رب کا نافرمان بنا دیا ہے جس نے اِس کے عناصر میں اعتدال پیدا کیا ہے اور جس نے اِس کو ایک حسین پیکر میں ڈھال دیا ہے اِس لئے یومِ حساب کی تکذیب کرنے والے انسان کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے تُمہارے جسم و جان پر اپنے وہ معزز نگران مقرر کر دیئے ہیں جو تُمہارے ہر ایک عمل کو جانتے ہیں اور جو تُمہارے ہر ایک عمل کا حساب بھی رکھتے ہیں اور ہم نے تُم سے یہ یقینی وعدہ بھی کیا ہوا ہے کہ تُم میں سے جو لوگ ہمارے فطری اَحکام کے مطابق فطری انداز میں کام کریں گے تو اُن کو آسُودہ حالی ملے گی اور جو لوگ ہمارے فطری اَحکام کے مطابق فطری انداز میں کام نہیں کریں تو وہ اُس آسُودہ حالی سے محروم رہیں گے اور جب اُن بُرے لوگوں کے بُرے اعمال کا بُرا نتیجہ آجاۓ گا تو اُن کو اُس آتشِ جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا جو ابھی سے اپنی اِس خوراک پر نظر جماۓ ہوۓ ہے اور حساب کے دن جب وہ بُرے لوگ اُس جہنم کے پاس پُہنچیں گے تو وہ بُھوکی جہنم اُن کو سموچا نگل جاۓ گی ، اُس دن ظاہر ہونے والی جُملہ کیفیات کو تو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن اُس دن کی ایک نمایاں کیفیت یہ ہوگی کہ اُس دن ہر انسان کا اپنے اعمالِ کار کو دیکھتے ہی ہر اختیار خود بخود سلب ہو جاۓ گا کیونکہ اُس دن انسانی حسابِ حیات کی جزا و سزا کا فیصلہ صرف اللہ کے اختیارِ ذات کے تحت ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآن کی قُرآنی عربی میں { کور یکور } سے بننے والے جُملہ افعال کا معنٰی نظر میں آنے والی چیزوں کو نظر میں آنے سے چُھپانا ہوتا ہے جس کی قُرآن میں پہلی مثال سُورَةُالزُمر کی اٰیت 5 میں اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے کہ { خلق السمٰوٰت والارض بالحق یکور الیل علی النہار و یکور النہار علی الیل } یعنی اللہ تعالٰی ہی وہ خالقِ عالَم ہے جس نے زمین و آسمان کو ایک مقصدِ حق کے تحت پیدا کیا ہے اور جس نے رات کی تاریکی کو دن کی روشنی سے اور دن کی روشنی کو رات کی تاریکی سے چُھپانے کا بھی ایک مقصدِ حق کے تحت اہتمام کیا ہے اور یا پھر اِس کی دُوسری مثال اِس سُورت سے پہلی سُورت کی پہلی اٰیت { اذاالشمس کورت } میں اُس کا سُورج کو چُھپالینے کا ارشاد ہے اور پھر اُس پہلی سُورت کے بعد اِس دُوسری سُورت کی پہلی اٰیت میں آنے والے مُرکب { انفطر ینفطر } سے بننے والے جُملہ افعال کا معنٰی بھی نظر میں نہ آنے والی چیزوں کو نظر میں لانا ہوتا ہے جس کی قُرآن میں آنے والی 20 مثالوں میں سے ایک مثال سُورَةُالمُزمل کی اٰیت 18 میں آنے والے الفاظ { السماء منفطر بهٖ } میں موجُود ہے جن الفاظ میں آسمان کے کھولنے کا ذکر کیا گیا ہے اور دُوسری مثال اِس سُورت کی پہلی اٰیت { اذا السماء انفطرت } میں ہے جس میں آسمان کو کھولنے کی وہی بات کہی گئی ہے جو قُرآن کے دیگر 18 مقامات پر بھی کی گئی اور کہی گئی ہے ، قُرآن کے اُردو ترجمہ کاروں نے اگرچہ ہر جگہ پر اِس لفظ کا معنٰی آسمان کا پَھٹ جانا کیا ہے لیکن اُس ترجمے سے بھی اِس لفظ کا وہی مفہوم برآمد ہوتا ہے جو مفہوم ہم نے اِس سے اخذ کیا ہے کیونکہ جب بیج کا دانہ پَھٹ جاتا ہے تو اُس کے بعد ہی دیکھنے والے کی نظر پر وہ منخنی سی ایک کونپل ظاہر ہوتی ہے جو اُس بیج کے پَھٹنے سے پہلے اُس بیج میں چُھپی ہوئی ہوتی ہے اِس لیئے اِس سُورت سے پہلی سُورت کی پہلی اٰیت میں جہاں سُورج کو لپیٹ دینے اور سمیٹ لینے کا ذکر ہوا تھا اُس سے بظاہر ایک جہان کا ختم ہونا مُراد تھا اور اِس دُوسری سُورت کی پہلی اٰیت میں اُس سُورج کو کھول دینے کا جو ذکر ہوا ہے اُس سے بھی بظاہر ایک جہان کو ختم کرنے کے بعد ایک دُوسرے جہان کو شروع کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جو محض ایک فطری عمل اور ایک فطری ترتیبِ عمل ہی نہیں ہے بلکہ قُرآنِ عظیم کا وہ مُستقل بالذات قانون ہے جس کا سُورَةُالبقرَة کی اٰیت 141 میں اِس طرح ذکر کیا گیا ہے کہ { تلک امة قد خلت لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون } یعنی تُم سے پہلی جو ایک اُمت تھی اُس کے اعمال اُس کے ساتھ گزر چکے ہیں اور اُس کے بعد تُمہارے جو اعمال ہیں وہ تُمہارے ساتھ گزر رہے ہیں اِس لیئے تُم سے صرف تُمہارے اعمال کی باز پُرس کی جاۓ گی اُن کے اعمال کی باز پُرس نہیں کی جاۓ گی اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ اگر زمانہِ بعد کی اُمت کے بارے میں سوال نہیں ہوگا تو زمانہِ قبل کی اُمت سے زمانہِ بعد کی اُمت کے بارے میں بھی کوئی سوال نہیں ہو گا لیکن اِس سُورت سے پہلی سُورت میں جس پہلے جہان کے اَنجام کا اور اُس سُورت کے بعد اِس دُوسری سُورت میں جس دُوسرے جہان کے آغاز کا ذکر کیا گیا ہے ضروری نہیں ہے کہ اِس سے عالَم کا کوئی اور جہان مُراد نہ ہو بلکہ انسان کا یہی جہان مُراد ہو جس جہان میں انسان رہتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اِس سے انسان کا یہ جہان مُراد نہ ہو بلکہ عالَم کا کوئی اور جہان مُراد ہو جس میں کوئی دُوسرے انسان رہتے رہے ہوں کیونکہ اِن سُورتوں کے اِن مضامین کا مقصدِ کلام خالقِ عالَم کے اقتدار و اختیار کی وسعت اور اُس کے تخلیق کیئے ہوۓ اِس عالَم کی وسعت کو ظاہر کرکے انسان کو اِس اَمر کا یقین دلانا ہے کہ اُس کا خالق و مالک وہی اللہ وحدهٗ لاشریک ہے جو اِس سارے جہان کا اور اِس جہان جیسے ہر ایک جہان کا خالق و مالک ہے اور اہلِ زمین نے اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر زمین پر اپنی جن خیالی ہستیوں کو اپنا کار ساز بنایا ہواہے اُن میں سے کوئی ایک ہستی بھی اللہ تعالٰی کی ہر گز شریک نہیں ہے بلکہ اُن ہستیوں میں سے ہر ایک ہستی اللہ تعالٰی کی ایک محتاج مخلوق ہے ، اسی لیئے قُرآن نے اُس عظیم اللہ کے اِس عظیم عالَم اور اِس عظیم عالَم میں آنے والے عظیم انقلابات کا ذکر کرنے کے بعد انسان سے براہِ راست یہ سوال کیا ہے کہ قُرآن نے جب اِس جہان کے اور تیرے اِس جسم و جان کے یہ سارے اَسرار تُجھ پر کھول دیئے ہیں تو پھر یہ کیا اَسرار ہے کہ تُو اپنے اُس پیار کرنے والے مہربان اللہ کو چھوڑ کر دَر بدر بہٹک رہا ہے اور دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے لیکن یاد رکھ کہ جب تیرا لَمحہِ حساب آۓ گا تو تُجھے اُس ایک اللہ کی مدد کے سوا اپنے کسی ایک بھی خیالی خُدا کی کوئی مدد حاصل نہیں ہو سکے گی اور مزید براں یہ بھی کہ عالَم پر آنے والے یہ عالمی انقلابات اور عالَم میں ہونے والے یہ عالمگیر تغیرات اُن قدیم مُسلم و غیر مُسلم عُلماۓ فلسفہ کے اِس اَحمقانہ سوال کو بھی فنا کر دیتے ہیں کہ یہ عالَم قدیم ہے یا حادث ہے کیونکہ عالَم کے یہ تغیرات بذاتِ خود اِس اَمر کی ایک قوی دلیل ہیں کہ یہ عالَم حادث ہے اور اِس حادث عالَم پر وہی ایک ذات قدیم ہے جس نے یہ عالَم تخلیق کیا ہے اور اِس عالَم میں وہ عالمی تغیرات جاری کیئے ہیں جن کا قُرآن نے ذکر کیا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461736 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More