طالبان کے ہاتھوں بچوں کا اغوا اور خودکش بمبار بننا

طالبانائزیشن ایک آ ئیڈیالوجی کا نام ہے اور اس کے ماننے والے وحشی ،درندے ، انتہا پسند،تشدد پسند ، دہشت گرد اور تنگ نظر ، نظریات و افکار پر یقین رکھتے ہیں اور صرف نام کے مسلمان ہیں، جن کے ہاتھ پاکستان کے معصوم اور بے گناہ شہریوں،طلبا و طالبات، اساتذہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے اغوا اور خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ بقول طالبان کے وہ پاکستان مین نام نہاد اسلامی مملکت کے قیام کے لئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسلامی مملکت کے خلاف مسلح جدوجہد اسلامی شریعت کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔طالبان معصوم مسلمانوں اور پاکستانیوں کا دائیں و بائیں ، بے دریغ قتل عام ،خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے ذریعہ کر رہے ہیں۔

طالبان ملک میں خودکش حملوں میں استعمال کرنے کیلئے معصوم بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور انہیں خودکش حملوں کیلئے تیار کیا جاتا ہے اس قسم کا ایک واقعہ پشاور میں پیش آیا جہاں تیسری جماعت کی طالبہ سوہانہ کو پشاور سے اغوا کیا گیا اور اسے لوئر دیر لے جاکر اسلام درہ چیک پوسٹ پر خودکش حملے میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تاہم بچی نے شور مچا کر منصوبہ ناکام بنایا۔ پولیس اور سیکورٹی فورسز نے بچی کو تحویل میں لے کر اسے پہنائی گئی خودکش جیکٹ ناکارہ بنا دی اور بچی کو نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔ متاثرہ بچی نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ تیسری جماعت کی طالبہ ہے گزشتہ روز پشاور سے دو خواتین اور ایک مرد نے اسے بے ہوش کرکے اغوا کیا اور اس کے ساتھ موجود لوگوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کا کہا تھا لیکن جیسے ہی ان لوگوں نے اسے چھوڑ دیا اس نے شور مچا کر اپنی جان بچائی۔

اس خوفناک خبر اور واقعہ کے سامنے آنے کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملک دشمن طاقتیں اور گروہ کس قدر سفاکیت اور درندگی پر اتر آئے ہیں اور کس طرح انسانیت کی تذلیل اور ظلم روا رکھے ہوئے ہیں کہ ا پنے شیطانی منصوبوں کیلئے لوگوں کے لخت جگروں کو استعمال کرتے ہیں۔

اگر ان کا مقصد اسلام کی سربلندی ہوتی تو یہ اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درندگی کی انتہائوں پر پہنچ کر معصوم بچوں کو اغوا کرکے خودکش حملے نہ کرواتے۔ الغرض اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان میں یہ مسلح گروہ اسلام کیلئے نہیں اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کیلئے لڑ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ درندگی کی انتہائوں کو پہنچ کر وہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جس کی اسلام میں تو کیا دنیا کے کسی مذہب اور سماج میں گنجائش نہیں۔

اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہین اور امن اور سلامتی کی بات کرتے ہین۔ ‘ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔ آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔

اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں اور سکول کے بچوں اور بچیوں کو اغوا کر کے انہیں خودکش حملہ آور بناتے ہیں۔

کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘( المائدة، ۳۲-۵

کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)

وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔ تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔

”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”

مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔

” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”

مندرجہ آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)۔

اسلام کسی حالت میں بھی دہشتگردی اور عام شہریوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت اسلام کےانہی سنہری اصولوں پر کاربند ہے۔ دہشت گردی و خود کش حملے اسلام کے بنیادی اصولوں سےانحراف اور رو گردانی ہے۔

بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں ‘ ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔دہشت گردی کی وجہ سے انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو خطرے میں نہیں ڈالاجاسکتا ہے ۔ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)(سورہ اعراف ، آیت ۱۵۱)کی بنیاد پر تمام انسانوں کی جانیں محتر م ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا اہل سنت،مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔

صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین نے کہا ہے کہ اغوا کے نام پر معصوم بچوں کو خودکش حملہ آور بنایا جا رہا ہے اور طالبان کمانڈر خودکش بچوں کی بازار میں بکنے والی جنس کی طرح لین دین کرتے ہیں۔
https://72.13.93.132/index.php?key=Q2F0SUQ9MiNOaWQ9MjA1NjMjTGFuZz11cmR1

طالبان نے سوات کے سکولوں اور مدرسوں سے ، ۱۱ سال عمر کے ۱۵۰۰ طلبا کو خودکش بمبار بنانے کے لئے اغوا کیا۔[ٹائمز روپورٹ2009 / Daily Times January 24 th,2011]طالبان نے دوسرے دہشت گردوں اور گروپوں کو ، ۷ سال عمر کے بچے ،خود کش بمبار بنانے کے لئے ۷۰۰۰ سے لیکر ۱۴۰۰۰ ڈالر میں فروخت کئیے۔

پاکستان کی فوجی کمان نے بیان دیا ہے کہ طالبان بچوں کو اغوا کر کے ان کو خصوصی کیمپوں میں تربیت دے رہے ہیں تاکہ ان بچوں کو خودکش حملوں کے لیے استعمال کریں-

طالبان کی طرف سے بچوں کو خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کا چرچا پہلے بھی ہوا تھا- لیکن شاید ہی کسی کو خیال آ سکتا تھا کہ ایسے جرم کا پیمانہ کس قدر وسیع ہے- پاکستانی فوجی جو وادی سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں، اس جرم کے عینی گواہ ٹھہرے- طالبان کے ایک کیمپ سے کم از کم 200 لڑکے برآمد ہوئے جن کو خودکش حملوں کے لیے تیار کیا گیا تھا-

سینئر صوبائی وزیر بیشر احمد بلور نے صحافیوں کو بتایا کہ سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف 6 سال ہے- وزیر موصوف کے مطابق بچوں کے ساتھ بہلی بات چیت سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا- بشیر احمد بلور نے کہا: "یہ بچے کسی کی بات نہیں سننا چاہتے، ان پر دہشت گردوں کے اصلی مقاصد واضح کرنا نا ممکن ہے"- بچوں پر سخت نفسیاتی دباؤ ڈالا گیا تھا اور انہیں یقین ہے کہ خودکش حملے کے بعد وہ سیدھے جنت میں جائیں گے- ان کی اس حد تک برین واشنگ کی گئی تھی کہ بچے اپنے والدین کو بھی قتل کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے-
https://urdu.ruvr.ru/2009/07/31/1176335.html

پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام شورش زدہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اس وقت طالبان جنگجو مبینہ طور پر کم سے کم چارسو نو عمر لڑکوں کو خودکش بم حملوں کے لیے تربیت دے رہے ہیں جنہیں تربیتی عمل مکمل ہونے کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں بم دھماکوں کے لیے بھیجا جائے گا۔

اس بات کا انکشاف پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب ، خیبر پختونوا ، بلوچستان اور سندھ کے سنگم پر واقع ضلع ڈیرہ غازی خان میں بزرگ صوفی حضرت سخی سرور کے دربار پر چار روز پہلے خودکش بم حملے میں ناکامی کے بعد گرفتار کیے گئے ایک کم سن فدائی حملہ آور نے کیا ہے۔

عمر فدائی نامی اس چودہ سالہ حملہ آور نے بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے پر افسوس اظہار کیا ہے اور اپنے اس جرم عظیم پر معافی مانگی ہے۔وہ چار اپریل کو حضرت سخی سرور کے مزار پر بم دھماکوں کے وقت شدید زخمی ہوگیا تھا اور پولیس نے اسے اسی حالت میں حراست میں لے لیا تھا۔اس وقت وہ ڈیرہ غازی خان کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں پولیس حراست میں زیر علاج ہے۔

اس خودکش بمبارعمر نے مقامی صحافیوں سے جمعہ کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''انہیں بتایا گیا کہ ڈیرہ غازی خان میں لوگ مردوں کو پوجتے ہیں اور کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں جس پر وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ خودکش حملہ کرنے کے لیے دربار سخی سرور پہنچا تھا جہاں اس کے ایک ساتھی اسماعیل نے تو خودکش حملہ کردیا لیکن وہ پکڑا گیا تھا''۔

عمرفدائی کی یہ آن کیمرا گفتگو چار پانچ پاکستانی ٹی چینلز نے نشر کی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن وہ کسی طرح اپنے اسکول ہی سے موت کے سوداگروں کے ہتھے چڑھ گیا جو اسے افغان سرحد کے قریب واقع شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کے نزدیک واقع ایک تربیت گاہ میں لے گئے جہاں اس نے دوماہ تک دیگر کم عمرنوجوانوں کے ہمراہ خودکش بم حملے کے لیے تربیت حاصل کی۔اس کے بہ قول اس وقت وہاں ساڑھے تین سو سے چار سو کے درمیان خودکش حملہ آور زیرتربیت تھے۔

اس نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان میں جنگجوٶں کی تمام تربیت گاہوں کی نگرانی کمانڈر سنگین خان نامی ایک شخص کرتاہے۔اس نے اپنے سابقہ ساتھی تمام فدائیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بے گناہ شہریوں کی جانیں لینے کے لیے خودکش حملے نہ کریں کیونکہ یہ اسلام میں حرام ہیں ۔عمر کا کہنا تھا کہ اسے بے گناہ شہریوں ،بچوں اور خواتین کے قتل پر افسوس ہے اور وہ اس پر معافی مانگتا ہے۔

اس کم سن فدائی نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں مزید بتایا کہ اسے ابتدائی طورپر افغانستان میں غیر مسلموں کے خلاف لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا تھا اور اسے تربیت مکمل ہونے کے بعد وہاں اسمگل کیا جانا تھا.اس کا کہنا تھا کہ ''لیکن وہ مجھے یہاں ڈیرہ غازی خاں لے آئے اور میں نے جب ان سے کہا کہ یہاں کوئی کافر نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگ کافروں سے بھی بدتر ہیں''۔

عمر فدائی نے بتایا کہ ''قاری ظفر نامی ایک جنگجو نے مجھے جہادی زندگی اختیار کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا۔اس نے مجھ سے کہا کہ یہ تمام تعلیم بے کار ہے۔ تم خودکش حملہ آور بن جاٶ اور سیدھے جنت میں جاٶگے''۔
https://www.alarabiya.net/articles/2011/04/08/144743.html

ت - ۱۹ - ۲۰۱۱بالغ ٹرینر کیمرے کے سامنے آکربلند آواز میں اعلان کرتا ہےکہ یہ مسلمان کے بچے ہیں،جنھیں ہتھیاروں کے استعمال کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔طالبان کی جانب سےکمسن بچوں کو جنگی تربیت دینےکا انکشاف ہواہےبرطانوی اخباردی مررکیمطابق دل دہلا دینےوالی ویڈیو سے انکشاف ہواکہ طالبان اپنے مخالفین کوقتل کرنے کیلئے آٹھ سال کے بچوں کو تربیت دےرہے ہیں۔اخبار کیمطابق طالبان کیطرف سے معصوم بچوں کو مغربی مملک کیخلاف جنگ کیلئے بھرتی کیا گیاہے اور انہیں جنگی تربیت دی جارہی ہے،اخبار کہتا ہےکہجنونی کوچ انہیں حقیقی بندوقیں اور اصلی گولیاں استعمال کرنا سکھاتے ہیں،اخبار کیمطابق یہ سات مینٹ کی نئی وڈیو جہادی ویب سائٹس نےسنگین تصاویر کیساتھ نشرکی ہےجس میں دکھایا گیا ہے کہبچے اِتنے چھوٹے ہیں کہ وہ ان ہتھیاروں کے پیچھے چھپ جائیں تونظرنہیں آتے،اخبار لکھتا ہے کہ بالغ ٹرینر کیمرے کے سامنے آکربلند آواز میں اعلان کرتا ہےکہ یہ مسلمان کے بچے ہیں،جنھیں ہتھیاروں کے استعمال کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے
۔ https://www.meezannews.com/category/current-affair/

اسلام جبر کا نہیں امن محبت اور سلامتی کا مذہب ہے اور دہشت گردی مسلمانوں کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا۔ جو لوگ حالیہ دور میں اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر دہشت گردی کر رہے ہیں وہ تو بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ہیں اور اسلام دشمن ہین ،ہمین ان کی چالوں مین نہ آنا چاہیے۔

طالبان،سپاہ صحابہ،لشکر جھنگوی اور القائدہ سے ملکر پاکستان بھر مین دہشت گردی کی کاروائیاں کر ہے ہین۔یہ اسلام اور پاکستان کے دشمن ہین اور ان کو مسلمان تو کجا انسان کہنا بھی درست نہ ہے اور یہ لوگ جماعت سے باہر ہیں۔ ہمیں ان سب کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ بزدل قاتل اور ٹھگ ہیں اور بزدلوں کی طرح نہتے معصوم لوگوں پر اور مسجدوں میں نمازیوں پر آ گ اور بارود برساتے ہیں اور مسجدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہین۔ اس طرح یہ پاکستان کے دشمنوں کی خدمت کر رہے ہین۔ ان کی مذموم کاروائیوں کی وجہ سے کئی عورتوں کا سہاگ لٹ گیا،کئی بچے یتیم ہو گئے اور کیئی بہنیں اپنے بھائیوں سے بچھڑ گئیں اور لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہو گئے۔

اسلام دنیا میں حسن اخلاق ،نیکی اور اچھے کردار کی وجہ سے پھیلا ہے نہ کہ تلوار کے زور پر۔ تاہم اسلام کی تلوار ان لوگوں کی گردنیں کاٹنے میں ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں۔ طالبان اور القائدہ موت کے فرشتے بن کر معصوم انسانوں کا ناحق خون بہانے میں دن رات مصروف ہیں اور غیر مسلموں کو اسلام سے دور رکھنے میں خاصے کامیاب ہیں۔اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے طالبان اسلام کا نام بدنام کر رہےہیں۔

دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔ ۳۵ ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔ کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتین ختم ہوئیں ،بیروزگاری میں اضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارے معاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والے بھی محفوظ نہ ہیں ۔

طالبان بچوں کو اغوا کرکے اور انہیں خودکش حملہ آور بناکر جنگ کا ایندہن بنا رہے اور اس طرح ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہین جو ک مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ ظلم ہے اور ایک ناقابل معافی جرم ہے۔

یہ آگ کل کو ہمارے گھروں تک بھی پہنچ سکتی ہے جس طرح پشاور سے آٹھ سالہ سوہانہ کو اغوا کرکے خودکش جیکٹ پہنائی گئی اسی طرح ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اس لئے قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اندھی جنگ سے ملک و ملت کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اس جنگ کو جیتنے کیلئے ہم سب کو جاگنا ہوگا اور سیکورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنے ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہوگی۔
Amir Nawaz Khan
About the Author: Amir Nawaz Khan Read More Articles by Amir Nawaz Khan: 32 Articles with 29770 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.