مُسافرانِ آسمان اور مُسافرانِ زمین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالطارق ، اٰیت 1 تا 17 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والسماء
والطارق 1 وما
ادرٰک ماالطارق 2
النجم الثاقب 3 ان کل
نفس لما علیھا حافظ 4
فلینظر الانسان ممّ خلق 5
خلق من ماء دافق 6 یخرج من
بین الصلب والترائب 7 انهٗ علٰی
رجعهٖ لقادر 8 یوم تبلی السرائر 9
فمالهٗ من قوة ولا ناصر 10 والسماء
ذات الرجع 11 والارض ذات الصدع 12
انهٗ لقول فصل 13 وما ھو بالھزل 14 انہم
یکیدون کیدا 15 واکید کیدا 16 فمھل الکٰفرین
امھلھم رویدا 17
اے ہمارے رسول ! اہلِ زمین کو پہلے اُن مُسافرانِ آسمان کی طرف متوجہ کریں جو اپنے نگرانوں کی نگرانی میں آسمان کی وسعتوں میں اِس طرح محوِ سفر ہیں کہ شب کے چھاتے ہی وہ سامنے لاۓ جاتے ہیں اور دن کے آتے ہی چُھپا لیئے جاتے ہیں اور اِس کے بعد اہلِ زمین کو اہلِ زمین کے اُس سفرِ حیات پر بھی غور و فکر کی دعوت دیں کہ جب اُن اہلِ زمین کو وجُود میں لانے والے دو آبی ریلے اُن کے وجُود کو اُٹھائے ہوۓ اپنے نگرانوں کی نگرانی میں ایک ساتھ تیزی کے ساتھ ایک دُوسرے کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ اپنی اپنی صُلب اور اپنی اپنی تُراب کے فطری راستوں سے گزرتے ہوئے اپنے مقررہ مقام تک پُہنچ کر ایک دُوسرے میں جذب ہوجاتے ہیں اور اُن کے باہم جذب ہوتے ہی اُن کے جسموں میں مستور زندگی سے ایک نئی زندگی عالَمِ خلق میں ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اللہ ہی ہے جو ہر ایک زندگی کو عالَمِ مستور سے عالَمِ ظہور میں لاتا ہے اور ہر ایک زندگی کو عالَمِ ظہور سے عالَمِ مستور میں لے جاتا ہے ، عالَمِ آسمان و عالَمِ زمین کے یہ مُشاہدات شاہد ہیں کہ عالَم آسمان اور عالَمِ زمین کے ہر ایک انسان پر فیصلے کے اُس دن نے آنا ہے جس دن ہر انسان نے اپنے خالق کے سامنے جانا ہے اور اپنے اِس سفرِ حیات کا حساب دینا ہے اگرچہ شیطان کی کمان میں آنے والے انسان اُس دن کا انکار کرنے اور اُس دن کا انکار کرانے کے لیئے اپنی ساری تدابیر کو رُو بہ عمل لانا چاہتے ہیں لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں اُن کی کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہو سکے گی تاہم ایک مُہلت ہے جو وعدے کے مطابق ایک مُدت تک اُن کو ملی ہوئی ہے لیکن اُس مُہلت نے بھی اُس دن کے آنے پر ختم ہوجانا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا پہلا وضاحت طلب لفظ اسمِ واحد { الطارق } ہے جو معنوی اعتبار سے اگرچہ ایک واحد ستارہ ہے لیکن مقصدی اعتبار سے یہ واحد ستارہ اُن تمام ستاروں کی جنسِ ستارہ کا ایک استعارہ ہے جو ہر آتی رات کو آسمان پر ظاہر ہوتے ہیں اور ہر جاتی رات کے بعد آسمان سے غائب ہو جاتے ہیں ، قُرآن میں ستاروں کی اِس بحث کو زیرِ بحث لانے کا پہلا قُرآنی مقصد انسان کو یہ بات باور کرانا ہے کہ ایک چیز کا نظر آنا ایک بات ہے اور ایک چیز کا نظر نہ آنا ایک دُوسری بات ہے لیکن اُس چیز کا نظر آتے وقت اور نظر نہ آتے وقت موجُود ہونا ایک تسیری بات ہے اور یہاں پر یہی تیسری بات مقصود بالذات ہے کہ جس طرح آسمان میں یہ سارے ستارے آسمان میں موجُود ہونے کے باوجُود بھی دن میں تُم کو نظر نہیں آتے اسی طرح یومِ قیامت بھی وہ موجُود حقیقت ہے جو اِس دُنیا میں تُم کو نظر نہیں آتی مگر اُس کا اِس دُنیا میں نظر نہ آنا اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اِس عالَمِ میں کہیں موجُود ہی نہیں ہے بلکہ اُس یومِ قیامت کا موجُود ہونا تو تُمہارے آنے والے اُس کَل کی طرح ہے ایک حقیقت ہے جو حقیقت میں تو موجُود ہے مگر تُمہاری نگاہ میں موجُود نہیں ہے لیکن تُم اُس کو اپنے ہر روز کے تجربے اور اپنے ہر روز کے مشاہدے سے جانتے ہو کہ تُمہارے اِس آج کے بعد تُمہارے اُس کَل نے تُم پر ضرور آنا ہے ، قُرآن کی اِس علمی بحث میں دُوسرا پیغام یہ ہے کہ جس چیز کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تمہیں شک ہوتا ہے تو تُم اُس چیز کے بارے میں اُس انسان کی بات پر یقین کرتے ہو جو اُس چیز کے بارے میں تُم سے زیادہ جانتا ہے اور اگر تُمہاری اِس عقل کو تُمہاری اپنی ہی یہ دلیل اپیل بھی کرتی ہے تو پھر تُمہاری اِس عقل کو یہ دلیل بھی تسلیم کرلینی چاہیۓ کہ اللہ عالمُ الغیب یومِ قیامت کے بارے میں تُم کو جو خبر دے رہا ہے تو اُس کی یہ خبر ہر اُس انسان کی دی ہوئی خبر سے زیادہ قابلِ یقین ہے جس کی خبر پر تُم ہمیشہ سے یقین کرتے آئے ہو لہٰذا تمہیں اللہ کی دی ہوئی اِس خبر کا ہر خبر سے بڑھ کر یقین کرنا چاہیۓ کہ یومِ قیامت نے آنا ہے کیونکہ اُس کے آنے کی تُم کو کسی انسان نے خبر نہیں دی ہے بلکہ اللہ تعالٰی نے بذاتِ خود ہی یہ خبر دی ہے اور قُرآن کی اِس علمی بحث میں جو تیسرا مقصدی پیغام ہے وہ اپنی مقصدیت کے اعتبار سب سے پہلا پیغام ہے جو یہ ہے کہ اِس عالَم کی ہر چیز اللہ تعالٰی کی نگرانی میں حرکت و عمل کر رہی ہے اور آسمان کے سارے ستارے اور سیارے بھی اللہ کی نگرانی میں حرکت و عمل کر رہے ہیں ، اِس سُورت میں آنے والا جو دُوسرا وضاحت طلب لفظ ہے وہ اسمِ واحد { صُلب } ہے جس کی جمع { اَصلاب } ہے اور اہلِ لُغت نے اِس کے جو تین معنی بیان کیئے ہیں اُن میں سے پہلا معنٰی گوشت بُھوننا ہے ، دُوسرا معنٰی کسی کو سولی دینا ہے ، تیسرا معنٰی کسی کو صلیب پر چڑھانا ہے اور چوتھا معنٰی ہڈیوں کا گودھا نکالنا ہے لیکن اِس صُلب کا ایک زور زبردستی کا معنٰی مرد کی پُشت کی ہڈی بھی کیا جاتا ہے اور اِس معنی کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اِس سُورت کی اِس اٰیت میں جہاں پر لفظِ { صُلب } آیا ہے اُس کا حرفِ { با } مجرور ہے اور جب یہ حرفِ { با } مجرور آتا ہے تو اِس کا معنٰی مرد کی ریڑھ کی ہڈی ہو جاتا ہے اور ہم نے اِس دلیل کے بارے میں صرف یہ کہنا ہے کہ یہ حرفِ { با } جو مجرور ہے وہ اپنے حروفِ اصلی کے اعتبار سے مجرور نہیں ہے بلکہ اپنے ماقبل میں آنے والے حرفِ جار { مِن } کی وجہ سے مجرور ہے جس کا اِس کے مصدری معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اِس سُورت میں آنے والا تیسرا وضاحت طلب لفظ { ترائب } ہے جو اسمِ واحد { ترب } کی جمع ہے جس کا معنٰی مٹی ہے اور اِس لفظ کو قُرآن نے کئی جگہ پر اسی معنی میں استعمال کیا ہے اور انسان نے مٹی میں بننے والی انسانی قبر کے لیئے { تُربت } کا جو لفظ لیا ہے وہ بھی اسی سے لیا ہے لیکن عُلماۓ تفسیر نے اِس کا معنٰی بھی عورت کے سینے کی ہڈی کیا ہے اور اِس وضعی معنی کے اعتبار سے اُن کی یہ تان یہاں آکر ٹوٹی ہے کہ جب اَفرادِ مرد و زن جنسی جذب و انجذاب کے عمل سے گزرتے ہیں تو اُن کے جسموں سے خارج ہونے والا آبی ریلا مرد کی ریڑھ کی ہڈی اور عورت کے سینے کی ہڈی سے نکل کر باہر آتا ہے اور چونکہ اِن عُلمائے تفسیر کا یہ بیانیہ جدید سائنسی علوم سے کوئی بھی مطابقت نہیں رکھتا ہے اِس لیئے اِس حوالے سے اِس پر جو بحث مباحثے ہوۓ ہیں ہمیں اُن بحث مباحثوں سے اگرچہ کوئی دل چسپی نہیں ہے تاہم قُرآن نے اِس پر بذاتِ خود جو کُچھ کہا ہے وہ ہماری دل چسپی کا مرکز ہے لیکن اِس موضوع پر مزید بات کرنے سے پہلے ہم یہ بات بھی واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اِس بحث سے قُرآن کا مقصد صرف اِس اَمر کو واضح کرنا ہے کہ جس طرح آسمان کے ستارے جو رات کو نظر آتے ہیں وہ دن میں نظر نہ آنے کے باوجُود بھی آسمان میں موجُود ہوتے ہیں اسی طرح تُم جو اپنی اِس تخلیق کے بعد نظر آتے ہو تو تُم بھی اپنی اِس تخلیق سے پہلے ایک نظر نہ آنے والے مقام پر موجُود ہوتے ہو جس کی دلیل یہ ہے کہ تُم جو اپنے باپ کی صُلب سے اپنی ماں کے رحم تک جاتے ہو تو ایک زندہ و مُتحرک ہستی کے طور پر جاتے ہو حالانکہ تُم زندہ و مُتحرک ہونے کے باوجُود بھی کسی کو نظر نہیں آتے ہو ، اِس وضاحت کے بعد ہم قُرآن کے اِس حوالے سے جو بات کہنا چاہتے ہیں وہ بات یہ ہے کہ قُرآن نے سُورَةُالنساء کی اٰیت 59 میں مرد و زن کے نکاح کے حُکمِ امتناع میں { من اَصلابکم } کا جو قانون بیان کیا ہے اُس قانون سے مُراد مرد و زن کے اُن نسبی و صُلبی رشتوں کو ظاہر کرنا ہے ہیں جن نسبی و صُلبی رشتوں میں اُن مرد و زن کے وہ نسبی و صُلبی رشتے شامل ہوتے ہیں جن سے اُن کے اُس نئے نسبی سلسلے میں اُن کے اخلاق و کردار ، اُن کی عادات و اطوار اور اُن کی نسبی و صُلبی نفسیات کے اثرات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اُن دونوں مرد و زن کا اپنا اپنا ایک نسبی و نسلی اور خاندانی سلسلہ ہوتا ہے اسی لیئے ہم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں اِس مقصد کو اُجاگر کرنے کے لیۓ یہ مقصدی مفہوم اختیار کیا ہے کہ جب اُن اہلِ زمین کو وجُود میں لانے والے دو آبی ریلے اُن کے وجُود کو اُٹھاۓ ہوۓ اپنے نگران کی نگرانی میں ایک ساتھ اور ایک تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو وہ اپنی اپنی صُلب اور اپنی اپنی تراب کے اُن فطری راستوں سے گزرتے ہوۓ اپنے مقررہ مقام تک پُہنچ کر ایک دُوسرے میں جذب ہوجاتے ہیں اور اُس وقت اُن کے باہم جذب ہوتے ہی اُن کے جسموں میں مستور رہنے والی اُس زندگی سے ایک نئی زندگی اِس عالَمِ مشہور میں ظاہر ہو جاتی ہے جس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح مرد کا خلیاتی آبی ریلا عورت کے جسم کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے اسی طرح عورت کا بیضاتی ریلا بھی مرد کے اُس خلیاتی آبی ریلے کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے اور جب ایک مقامِ اتصال پر اُس خلیے اور بیضے کا وصال ہو جاتا ہے تو وہیں سے وہ نئی زندگی وجُود میں آجاتی ہے جس نئی زندگی کے لیئے اُنہوں نے اُس وصال کا اہتمام کیا ہوتا ہے اِس لیئے جن عُلمائے تفسیر نے مرد و زن کے اُس صُلبی و نسبی کے اتصال کے عمل کو ترک کر کے اُن کے جسم کی ہڈیوں کو موضوعِ سُخن بنانے کی ابتدائی غلطی کی ہے اُن کی وہی ابتدائی غلطی اُن کی اُس انتہائی غلطی کا باعث بنی ہے جس ابتدائی اور انتہائی غلطی سے اُس بے نتیجہ بحث نے جنم لیا ہے جس کا انسان کے خیالات کے ساتھ تو ضرور ایک تعلق موجُود ہے لیکن قُرآن کی تفسیرِ اٰیات کے ساتھ اُس کا کوئی بھی تعلق موجُود نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558516 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More