آسمان میں زمین کے نگران حفاظتی قلعے !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالبرُوج ، اٰیت 1 تا 22 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیت !!
والسماء
ذات البروج 1 و
الیوم الموعود 2 و
شاھد و مشھود 3 قتل
اصحٰب الاخدود 4 النار ذات
الوقود 5 اذھم علیھا قعود 6 و
ھم علٰی ما یفعلون بالمؤمنین شھود
7 وما نقموا منھم الا ان یؤمنوا باللہ
العزیز الحمید 8 الذی لهٗ ملک السمٰوٰت و
الارض واللہ علٰی کل شئی شھید 9 ان الذین
فتنوا المؤمنین والمؤمنٰت ثم لم یتوبوا فلھم
عذاب جھنم ولہم عذاب الحریق 10 ان الذین
اٰمنوا وعملوا الصٰلحٰت لہم جنٰت تجری من تحتہا
الانھٰر ذٰلک الفوزالکبیر 11 ان بطش ربک لشدید 12
انه ھو یبدئ و یعید 13 وھوالغفورالودود 14 ذوالعرش
المجید 15 فعال لما یرید 16 ھل اتٰک حدیث الجنود 17
فرعون و ثمود 18 بل الذین کفروا فی تکذیب 19 واللہ من
ورآئھم محیط 20 بل ھو قراٰٖن مجید 21 فی لوح محفوظ 22
آسمان میں زمین کی نگرانی کے قلعے نگران ہیں ، وعدے کا وہ دن بھی نگران ہے جو اِس زمین کی ہلاکت کا دن ہے ، زمین پر زمین کا وہ رسولِ بر حق بھی نگران ہے جس کو اہلِ زمین کی ہدایت پر مامور کیا گیا ہے اور اللہ کی ذات بھی حق کے اُن دشمنوں پر نگران ہے جو اہلِ حق کو گرانے کے لیئے خیالی خندقیں بنائے ہوۓ ہیں اور اُن خیالی خندقوں میں اپنے فتنے کی آگ بھی جلائے ہوۓ ہیں ، وہ اپنی اُس آگ پر اپنا ایک حلقہِ تفریح بھی بناۓ ہوۓ ہیں کہ وہ اہلِ حق پر ہونے والے اپنے اُن مظالم کو ایک دل لگی سمجھتے ہیں لیکن وہ اہلِ حق کو جلانے کے بجائے جلد ہی اپنی اپنی جہنم میں جا کر اپنی اپنی جلائی ہوئی اُس آگ میں جلنے والے ہیں کیونکہ وہ اہلِ ایمان کے ساتھ صرف اِس بنا پر یہ عداوت رکھتے ہیں کہ وہ اُس اللہ کی ذات پر ایمان لاۓ ہیں جو اُن لا محدُود قُوتوں کا مالک ہے جن لامحدُود قُوتوں کی بنا پر اُس کو زمین و آسمان پر وہ دائمی غلبہ و اقتدار حاصل ہے جس کے اُس دائمی غلبہ و اقتدار کے یہ لوگ کُھلے مُنکر ہیں لیکن ہمارے نظامِ تحقیق کی ہر ایک تحقیق میں اِس اَمر کی اَب تصدیق ہو چکی ہے کہ زمین پر حق کے یہی وہ منکر اہلِ زمین ہیں جنہوں نے زمین پر زمین کے حق پرست مردوں اور زمین کی حق پرست عورتوں کی جان عذاب میں ڈال رکھی ہے اِس لیئے اِن کو اُس جہنم میں جانا ہے جس جہنم کے ہر گوشے میں آگ کا ایک عذاب ہی عذاب ہے اور ہمارے اِس نظامِ تحقیق کی ہر ایک تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ جن اہلِ زمین نے حق کو قبول کیا ہے اُن کو ہماری اُس پُر راحت جنت میں جانا ہے جس کے ہر ایک گوشے میں آب و انہار اور اَشجار و اَثمار کی راحتیں ہی راحتیں ہیں کیونکہ حق کے دشمنوں کے لیئے اُس خالق کی سختی بھی زیادہ ہے اور حق کے دوستوں کے لیئے اُس کی نرمی بھی بہت زیادہ ہے ، اُس خالق نے اپنی ہر مخلوق کی تخلیق کا آغاز بھی خود کیا ہے اور تخلیق کے بعد ہر مخلوق کا اَنجام بھی اُس نے خود ہی کر نا ہے اور مخلوق کے اُس خالق کو اپنی اِس مخلوق کو جزا و سزا دینے کا یہ حق بھی اِس بنا پر حاصل ہے کہ ہر مخلوق کی تخلیق کے بعد اُس مخلوق کی واپسی کا وہ فطری عمل شروع ہو جاتا ہے جس فطری عمل کا مَنطقی نتیجہ ایک جزا یا پھر ایک سزا ہی ہوتا ہے لیکن مخلوق کو سزا دینا اُس کا مقصد نہیں ہے کیونکہ وہ خالقِ عالی مرتبت اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے لیکن جب اُس کی مخلوق حد سے بے حد ہو جاتی ہے تو وہ اُس کو سزا بھی دیتا ہے اور جب وہ کوئی سزا دیتا ہے تو اُس کے ارادے میں کوئی بھی شئی حائل نہیں ہو سکتی جس کی ایک مثال قومِ فرعون و ثمُود کے وہ سر کش لشکر ہیں جنہوں نے خالق کی اِس مخلوق پر عرصہِ حیات تنگ کیا تھا تو اُس خالق نے اُن لشکروں کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیا تھا کیونکہ مخلوق کے جو لشکر اُس سے سرکشی کرتے ہیں تو وہ سرکشی کرتے ہی اُس کے حلقہِ سزا میں داخل ہو جاتے ہیں اور جب وہ مُجرم خُدا کے حلقہِ سزا میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ مُجرم قُرآن کی اُس سزا کے مُستحق ہوجاتے ہیں جو سزا لوحِ محفوظ میں محفوظ کیئے ہوۓ قُرآنِ اَزل کے اوراقِ اَزل میں اَزل سے محفوظ ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت سے پہلی چند قریبی سُورتوں کے چند پہلے مضامین کی طرح اِس سُورت کا پہلا مضمون بھی زمین پر برپا ہونے والے اُس یومِ انقلاب کے بارے میں ہے جس یومِ انقلاب کا قُرآن نے مُتعدد مقامات پر دینِ قُرآن کے بُنیادی عقیدے کے طور پر یومِ قیامت و یومِ محشر اور یومِ حساب وغیرہ کے ناموں سے تعارف کرایا ہے اور قُرآن نے جس طرح بہت سے دیگر مقامات پر اُس یومِ انقلاب کا ذکر کیا ہے اسی طرح اِس سُورت کے آغاز میں بھی اُس یومِ انقلاب کا ذکر کیا ہے اور قُرآن نے جس طرح اُس انقلاب کے ہر قابلِ ذکر مقام پر اُس انقلاب کے برپا ہونے پر کُچھ عقلی و نظری قرائن پیش کیئے ہیں اسی طرح اِس سُورت کے اِس مقام پر بھی وہ چار عقلی و بصری قرائن پیش کیئے ہیں جن میں سے پہلا بصری قرینہ آسمان کے وہ آسمانی لفظِ { برُوج } ہے جو اسمِ واحد برج کی جمع ہے اور اِس جمع سے مُراد حفاظتی قلعے کی دیوار میں بنے ہوئی وہ کُھلی کھڑکیاں ہوتی ہیں جن سے اُس قلعے کے باہر ہونے والی نقل و حرکت کا ہمہ وقت جائزہ لیا جاسکتا ہے اور کسی بیرونی خطرے کا دفاع بھی کیا جاسکتا ہے اور قُرآن کہتا ہے اللہ نے اپنے اِس آسمان میں اِس طرح کے بہت سے وہ حفاظتی قلعے بنائے ہوۓ ہیں جو اِس اَمر کے شاہد ہیں کہ جب زمین پر اللہ نے وہ یومِ انقلاب برپا کرنا ہو گا تو اہلِ زمین کے لیئے آسمان میں بنائے گۓ وہ سارے حفاظتی قلعے اور وہ سارے نگرانی کے برج ہٹا دیئے جائیں گے جس کے نتیجے میں فلک شمس و قمر اور ثوابت و سیار ایک دُوسرے کے ساتھ ٹکرا کر اِس زمین پر وہ ہلاکت لے آئیں گے جس کے بعد زمین پر جو نئی زندگی قائم ہوگی اُسی نئی زندگی کے اُس قیام کا نام یومِ قامت ہو گا ، اِس انقلاب کا دُوسرا قرینہ لفظِ { یومِ موعود } ہے جس کا معنٰی وعدے کا دن ہے اور وعدے کا یہ دن بذاتِ خود اِس اَمر کا شاہد ہے کہ جب شمس و قمر اور ثوابت و سیار کو ٹکرانے کی اجازت مل جائے گی تو اُس یومِ موعود کا وہ شاہد بھی خود بخود ہی سامنے آجاۓ گا جس کا معروف نام قیامت ہے ، اُس انقلاب کا تیسرا قرینہ لفظِ { شاہد } ہے جس سے مُراد اُس انقلاب کے ایک شاہد کے طور پر اِس زمین پر ہمارے رسول محمد علیہ السلام کا اِس اَمر کے لیئے ما مور ہونا ہے کہ وہ اہلِ زمین کی زبان میں اہلِ زمین کو اِس اَمر سے آگاہ کریں کہ قیامت کا وہ انقلاب انسانی عمل کا ایک یقینی رَدِ عمل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کرے گا تو اُس پر اُس کے اِس مُثبت عمل کا رَدِ عمل بھی وہ مُثبت رَدِ عمل ہو گا جس کا انعام ایک دائمی جنت کی دائمی زندگی ہوگا اور ہر وہ انسان جو اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کے خلاف عمل کرے گا تو اُس پر اُس کے اِس مَنفی عمل کا رَدِ عمل بھی وہ مَنفی رَدِ عمل ہو گا جس کی سزا بھی دائمی جہنم کی ایک دائمی زندگی ہوگی ، اِس انقلاب کا چوتھا قرینہ لفظِ { مشہود } ہے جس سے اللہ کی ذاتِ عالی صفات کی شہادتِ ذات کے سوا کوئی اور مفہوم مُراد ہو ہی نہیں سکتا اور اللہ تعالٰی کے اِس مفہومِ شہادت سے بڑھ کر بھی کوئی اور شئی ہر گز نہیں ہو سکتی ، اِس اٰیت کے سلسلہِ کلام میں جو لفظِ { الاُخدود } آیا ہے اُس سے مُراد اہلِ زمین کا وہ مَنفی کردار ہے جس مَنفی کردار کے مطابق وہ اپنے خیال و عمل سے اہلِ حق کو گرانے کے لیئے وہ گڑھے اور وہ خندیقیں کھودتے ہیں جن میں وہ اپنے فتنے کی آگ جلا کر اُس آگ میں اہلِ ایمان کو گرانا چاہتے ہیں اور اُن کے یہ مَنفی خیال و اعمال بھی اِس اَمر کے شاہد و متقاضی ہیں کہ وہ انقلاب ضرور بالضرور آئے جو اِن کو اُس اَنجام تک پُہنچاۓ جس اَنجام تک وہ پُہنچنا چاہتے ہیں ، قُرآن نے اِن اسلام دشمن اَفراد کے لیئے { اصحٰب الاُخدود } کا مُرکب استعمال کیا ہے جس کا معنٰی یعنی گڑھے کھودنا ہے اِس لیئے اہلِ روایت نے اِس مُرکب کی آڑ میں بیٹھ کر مُختلف زمانوں کے حوالے سے اِس مضمون کی وہ تین چار کہانیاں بھی وضع کی ہوئی ہیں کہ فلاں فلاں زمانے کے لوگوں نے اہلِ ایمان کو زندہ جلانے کے لیئے ایک بڑی خندق بنا کر اُس میں ایک آگ جلائی تھی اور اُس آگ میں کئی ہزار اہلِ ایمان کو ڈال کر زندہ جلایا تھا اور خود اُس خندق کے کنارے پر بیٹھ کر اُن اہلِ ایمان کے زندہ جلنے اور مرنے کا تماشا بھی دیکھتے رہے تھے ، مولانا مودودی مرحوم نے اِس موضوع کے پہلے تین قصوں کو رَد کرنے کے بعد اِس موضوع کے اُس چوتھے قصے کو تاریخی طور پر ایک درست قصہ قرار دیا ہے جس کے مطابق اہلِ یہُود نے 20 ہزار پیروانِ مسیح کو اِس جُرم کی پاداش میں ایک بڑے گڑھے میں ڈال کر زندہ جلا دیا تھا کہ اُنہوں نے اہلِ یہود کی دعوت پر یہودی مذہب قبول کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن مولانا مرحوم کی نقل کی ہوئی یہ روایت اولاً تو قُرآن کے بیان پر اِس لیۓ منطبق نہیں ہوتی کہ قُرآن کے اِس بیان میں جن گڑھوں کا ذکر ہوا ہے وہ گڑھے اہلِ کفر اہلِ ایمان کو جلانے کے لیئے کھودا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ یہ گڑھے کھودنا اُن اہلِ کفر کا کوئی حقیقی عمل نہیں تھا بلکہ اُن کے ظالمانہ ارادوں کا ایک استعارہ ہے ، ثانیاً یہ روایت اِس لیئے بھی قُرآن کے اِس مضمون پر منطبق نہیں ہوتی کہ قُرآن اہل کتاب کے کسی گروہ کو بھی اہلِ ایمان نہیں کہتا ، ثالثاً یہ روایت اِس لیئے بھی قُرآن کے اِس مضمون پر منطبق نہیں ہوتی کہ اہلِ یہود کسی کو بھی یہودیت قبول کرنے کی دعوت نہیں دیتے کیونکہ اُن کے نزدیک یہودی صرف وہی انسان ہوتا ہے جو ایک یہودی انسان کے گھر میں پیدا ہوتا ہے اور یہ روایت قُرآن کے اِس مضمون پر اِس لیئے بھی منطبق نہیں ہوتی کہ اِس روایت میں انسانوں کو زندہ جلانے والے اُس ایک گڑھے کا ذکر ہے جس میں ڈال کر پیروانِ مُوسٰی نے پیروانِ مسیح کو جلایا تھا جب کہ قُرآن نے اُن متعدد گڑھوں کا ذکر کیا ہے جو متعدد گڑھے اہلِ کفر اہلِ ایمان کے لیئے کھودتے رہتے تھے ، اِس سُورت کی آخری اٰیات کا آخری مضمون اللہ تعالٰی کی لوحِ محفوظ کے بارے میں ہے اور اِس لوحِ محفوظ کے بارے میں قُرآن نے خود ہی یہ وضاحت کردی ہے کہ اِس سے مُراد خود قُرآن ہے جس میں فطرت کے وہ ناقابلِ تغیر اصول اور ضابطے درج ہیں جن اصولوں اور ضابطوں میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 566659 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More