313 کے عدد سے نکل کر ان کی تعداد تین گنا ہو چکی تھی،
گویا 1000 کا یہ لشکر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سر براہی و اطاعت میں
3000 کے مقابلے میں نکلا تھا، یہ ابتدائی جنگوں میں دوسرا بڑا غزوہ تھا، جس
میں کشمکش ابھی صرف بت پرستوں تک ہی محدود تھی۔۔۔یہود ابھی ،دیکھو اور
انتظار کرو کی روش پر گامزن تھے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، چنانچہ جب احد
کا نتیجہ بھی ان کی امیدیں بھر نہ لایا تو دو ہی سال بعد ان کے غیظ غضب نے
انتقام کی آگ بھڑکا کر پورے عرب کو اس گروہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔۔
اس غزوے کے شرکاء کی تعداد گھٹ کر 700 رہ گئی جب 300 کے ٹولے کی من مانی
خواہشات کی تکمیل نہ ہوئی، اس وقت اتنی بد دلی پھیلی کہ بنو حارثہ بھی
پلٹنے کا سوچنے لگے،مگر مخلص صحابہ کے سمجھانے کا خاطر خواہ اثر ہوا، یوں
لشکر کی تعداد میں مزید کمی نہ ہوئی۔
قصہ مختصر یہ کہ 3 ہجری میں ہونے والے اس غزوے میں 'بدر' کی نسبت تعداد تو
بڑھ گئی تھی، تاہم منافقین کا ٹولہ بھی مفاد پرستی کی خاطر اپنی جڑیں پھیلا
چکا تھا،جس کی چھانٹی رب العزت نے میدان احد میں کر دی۔۔۔
لیکن باقی رہ جانے والے 700 افراد میں سے بھی کثیر عنصر کی اخلاقی تربیت کی
ابھی ضرورت تھی لہٰذا رب العالمین نے ان کی اخلاقی کمزوریاں ان کو کھول
کھول کر بتائیں،اس وقت جب درے پر متعین مجاہدین رسول خدا کی تنبیہ کو بھلا
کر اپنی پوزیشنیں چھوڑ کر کئی ایک غلطیوں کے مرتکب ہوئے، جی ہاں۔۔۔ ان سے
امیر کی نافرمانی کا جرم سرزد ہوا۔۔۔ حرص مال والی ذہنیت سامنے آئی۔۔۔ مشن
کی بجائے مال غنیمت کے حصول پر ارتکاز۔۔۔ فرار ہوتے دشمن کے قتال اور قیدی
بنانے سے غفلت ۔۔۔۔ صفوں میں انتشار اور کھلبلی۔۔۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ
وسلم کی شہادت کی افواہ پر بددلی،اور پھر ایک گروہ کا ہمت ہار کر پلٹ
جانا۔۔۔
چونکہ مال کی طلب و حرص اور مال غنیمت کے حصول میں برتری ہی عظیم لغزشوں کا
سبب بنی ، جس نے جنگ کا پانسہ کفار کے حق میں پلٹ گیا، یقیناً اللہ تعالی
کی مدد ہی تھی کہ مسلمانوں کی 'ادھ جیتی جنگ' کو موقع پا لینے کے باوجود
کفار بھی اپنے حق میں کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔۔۔ تاہم خوش کن پہلو یہ تھا
کہ مال غنیمت کے بارے میں احکام ان کمزوریوں کے ظہور کے بعد تفصیلاً دے دیے
گئے، سود کی ممانعت کر کے حرص جاہ کی اصلاح کر دی گئی، مو منین و منافقین
کی چھانٹی ہو گئی۔۔۔
آج جس اصلاح کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ سود سے متعلق ہے تا کہ مسلمان یہود
کے پنجے سے نکل سکیں۔ آج جب کہ عبداللہ بن ابی کا کثیر ٹولہ حق پرستوں کے
قلیل گروہ سے بارہا ممیز ہو چکا ہے۔تا ہم منافقین کی کثرت چرب زبانی اور
عددی کثرت کے سبب غلبہ پائے ہوئے ہے۔۔۔ رہے وہ لوگ جن کی چھانٹی کی گئی
ہے،غالب اس لئے نہیں کہ انہیں مزید تربیت کی ضرورت ہے۔۔۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد از ھدیتنا من لدنک رحمتہ انک انت الوہاب۔اٰمین
|