#العلمAlilm سُورَةُالاعلٰی ، اٰیت 1 تا 19 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
سبح اسم
ربک الاعلٰی 1 الذی
خلق فسوٰی 2 والذی قدر
فھدٰی 3 والذی اخرج المرعٰی 4
فجعلهٗ غثاء ان احوٰی 5 سنقرءک فلا
تنسٰی 6 الا ماشاء اللہ انهٗ یعلم الجھر و
ما یخفٰی 7 ونیسرک للیسرٰی 8 فذکر ان نفعت
الذکرٰی 9 سیذکر من یخشٰی 10 ویتجنبہا الاشقٰی
11 الذی یصلی النار الکبرٰی 12 ثم لایموت فیھا ولا
یحیٰی 13 قد افلح من تزکٰی 14 وذکر اسم ربهٖ فصلٰی
15 بل تؤثرون الحیٰوة الدنیا 16 والاٰخرة خیر و ابقٰی 17
ان ھٰذا لفی الصحف الاولٰی 18 صحف ابرٰھیم و موسٰی 19
اے ہمارے رسول ! آپ اپنے اِس جہان میں اپنے اُس اللہ کے اعلٰی نام کے ساتھ
اپنے اُس اللہ کا اعلٰی نظام قائم کریں جس نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اُس
کو ذہنی و جسمانی توازن عطا کیا ہے اور جس نے انسان کی ذہنی و جسمانی
صلاحیت کے پیمانے مقرر کر کے اُس کو وہ روشن راہ دکھادی ہے جس پر چلتے ہوئے
وہ اپنی منزلِ مُراد تک پُہنچ سکتا ہے ، یہ وہی اللہ ہے جس نے اپنی اِس
زمین سے تُمہارے لیئے اور تُمہارے جانداروں کے لیئے سامانِ خورد و نوش
نکالنے کا اہتمام کیا ہے اور جو اپنے اِس عمل کی اَنجام دہی کے لیئے کبھی
زمین پر بہار لاتا ہے اور کبھی زمین پر خزاں لاکر اِس کے سبزہ و گُل کو خس
و خاشاک کی طرح اُڑا کر لے جاتا ہے اور ہم نے آپ پر اپنے نظامِ عمل کی کتاب
نازل کی ہے ہم اِس کے ضابطے آپ کو اِس طرح پڑھاکر یاد کرادیں گے کہ آپ اِن
کو کبھی نہیں بُھولیں گے سواۓ اِس کے کہ ہم بذاتِ خود ہی کسی خاص لَمحے میں
کسی خاص مصلحت کے تحت اور کسی خاص وقت تک اِس کی کوئی بات آپ کے ذہن سے
نکال دیں تاکہ آپ ہمارے بندوں کو ہماری ہر بات ہمارے مقررہ وقت پر سنائیں ،
ہم اپنے اِس نظام کے ابلاغ کے لیئے تبلیغ کی وہ تمام سہولتیں آپ کو فراہم
کریں گے جن کی جس وقت آپ کو ضرورت ہو گی کیونکہ ہم آپ کی زبان سے کہے ہوئے
اَحوال سے ہی آگاہ نہیں ہوتے بلکہ آپ دل میں آنے والے ہر ایک خیال سے بھی
آگاہ ہوتے ہیں اِس لیئے جو انسان آپ کی زبان سے ہمارا جو فرمان سُن کر اُس
کی اتباع کرے گا وہ ہماری نفع بخشی کی جنت پاۓ گا اور جو انسان اِس فرمان
سے انحراف کرے گا وہ اُس کے اُس انحراف کی اُس جہنم میں ڈال دیا جائے گا جس
میں اُس پر ہر لَمحے میں موت کی تلخی مُسلط ہوگی زندگی کی کوئی راحت اُس کے
قریب نہیں آئے گی لہٰذا ہمارے نظامِ تحیق کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق
ہو چکی ہے کہ جو انسان رُوح و دل کی پاکیزگی لے کر ہمارے پاس آۓ گا وہی
آخرت کی اُس سختی سے نجات پاۓ گا اِس لیئے آپ ہر انسان کو آگاہ کردیں کہ وہ
ہمارے اسی نظامِ حیات کی اتباع کرتا رہے جو ہم نے اپنی اِس کتاب میں درج
کیا ہے اور جو لوگ دُنیا کی حرص و ہوس میں مُبتلا ہوکر حیاتِ آخرت سے آزاد
ہونا چاہیں گے وہ ضرور ہماری گرفت میں آئیں گے اور یہ وہ اَزلی و اَبدی سچ
ہے جو اِس سے پہلے ہم نے ماضی بعید کے تمام آسمانی صحیفوں کے بعد ماضی قریب
میں ابراہیم و مُوسٰی پر نازل ہونے والے تمام آسمانی صحیفوں میں بھی اسی
طرح بیان کیا ہے جس طرح اپنے اِس آخری آسمانی صحیفے میں بیان کیا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ کلام اہلِ حیات کے لیۓ اللہ تعالٰی کا وہ آسمانی نظامِ
حیات ہے جو اِس سُورت کے نتیجہِ کلام کے مطابق اللہ تعالٰی نے اہلِ زمین کے
لیئے ماضی بعید میں اپنے تمام اَنبیاۓ کرام کے بعد ماضی قریب میں بھی اپنے
نبی ابراہیم و مُوسٰی کو دیا تھا اور اُس ماضی بعید و ماضی قریب کے بعد اَب
زمانہِ حال میں بھی وہی آسمانی نظام اللہ تعالٰی نے اپنے آخری نبی سیدنا
محمد علیہ السلام کو بھی اس دلیل کے ساتھ دیا ہے کہ ماضی کے تمام زمان و
مکان میں چونکہ اللہ تعالٰی کا یہی اَزلی نظامِ حیات اہلِ زمین کے لیئے
قابلِ عمل رہا ہے اِس لیئے مُسقبل کے تمام زمان و مکان میں بھی اللہ تعالٰی
کا یہی اَبدی نظامِ حیات انسانی حیات کے لیئے قابلِ عمل رہے گا اور اسی بنا
پر اِس سُورت کا آغازِ کلام ہی اللہ نے اپنے رسول کو دی گئی اِس ہدایت سے
کیا ہے کہ آپ ہمارے اِس جہان میں اپنے اللہ کے اعلٰی نام کے ساتھ اپنے اللہ
کے اُس اعلٰی نظامِ حیات کو قائم کرنے کے لیئے سرگرمِ عمل ہو جائیں جو ہر
زمان و مکان کے ہر انسان کے لیئے اُس فاطرِ عالَم کا مقرر کیا گیا ایک فطری
نظامِ حیات ہے ، اللہ نے اپنے رسول کو اِس نظام کو عملی شکل میں مُتشکل
کرنے کے اِس حُکم کے بعد انسان کے تخلیقی تناسب کا جس خصوصیت کے ساتھ کیا
ہے اُس تخلیقی تناسب کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اُس نے انسان کو پیدا ہی اپنے
اِس نظام کا تابع بنانے کے لیئے کیا ہے اور اسی مقصد کے لیئے اُس نے انسان
کی ذہنی و جسمانی صلاحیت کے وہ پیمانے مقرر کیئے جن پیمانوں کا لازمی تقاضا
یہ ہے کہ وہ اُس نظام کی اتباع کرے ، انسان کا ذہنی تناسب تو یہ ہے کہ اللہ
نے اُس کو اُس عقل و شعور کا حامل بنایا ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان
ایک خطِ تمیز قائم کر کے حق کو حق کے طور پر قبول اور باطل کو باطل جان کر
رَد کر سکتا ہے اور اُس کے جسمانی تناسب کا اندازہ اِس ایک مثال سے لگایا
جا سکتا ہے کہ اُس انسان کی تجسیم کے لیئے اُس کے باپ کے جسم سے جو عرقِ
حیات کشید کیا جاتا ہے اُس عرقِ حیات میں 25 کروڑ قسم کے بے وہ ترتیب خلیئے
اُس بے ترتیب کوڈ کی شکل میں ہوتے جو 46 کروموسوم کی تیز رفتار سواریوں پر
سوار ہوکر اپنی منزلِ تجسیم و تخلیق کی طرف بڑھتا ہے اور اُس کی ماں کے جسم
سے جو عرقِ حیات کشید کیا جاتا ہے اُس کے انڈے میں جو 60 ہزار قسم کے بے
ترتیب خلیئے ہوتے ہیں وہ 23 کروموسوم کی سواریوں پر سوار ہو کر اپنے مقرر
کیئے گئے ہدف کی طرف لپکتے ہیں اور مرد و زن کے ان جینی کوڈز کو استقرارِ
حمل کے لیئے اپنے اُن موافق کوڈز کے ساتھ صرف ایک گھنٹے کے دوران ہی آپس
میں ملنا ہوتا ہے اور استقرار حمل کے بعد جب اِن دونوں کے صُلبی اَجزاۓ
حیات رحمِ مادر میں جمع ہو جاتے ہیں تو اُن کے اجتماعی خلیوں کی تعداد 30
اَرب کے لگ بھگ ہو جاتی ہے تو اِن میں سے 256 خلیوں سے بننے والے ایک کوڈ
سے اُس جنین کی آنکھ کی پُتلی و رنگِ پُتلی کے علاوہ اُس کے کان کی نرم ہڈی
کا کوڈ بنتا ہے اور اِس جنین کے بننے والے گردوں کا کوڈ 221 خلیوں پر
مُشتمل ہوتا ہے اُس کے اور اُس کی آنکھ کے کوڈ کے درمیان اتنا باریک سا
فاصلہ ہوتا ہے کہ اگر اُس باریک فاصلے کے درمیان صرف ایک سنٹی میٹر کا بھی
فاصلہ پیدا ہو جائے تو اُس جنین کان اُس کے گردے کے قریب چلا جاۓ گا اور
اُس کے پشاب کی نالی اُس کان کے ساتھ مُنسلک ہو جاۓ گی اور اِس احتیاط کے
بعد اگر اِن سارے خطرات سے بچ کر 30 اَرب خلیئے اپنے اپنے ٹھیک کوڈ سے مل
جائیں گے تو وہ جنین ایک صحیح و سالم انسان بن کر دُنیا میں آۓ گا ، یہ ہے
انسان کی وہ تجسیمی و تخلیق صلاحیت جس کا حامل انسان کو اللہ نے بنایا ہے
اور اِس کی اِس صلاحیت کے ایک لازمی تقاضے کے طور پر اِس کو اپنے نظامِ
حیات کا تابع بنایا ہے اور قُدرت کا یہی وہ پیمانہِ تدبیر ہے جس سے انسان
اپنی وہ تقدیر بناتا ہے جو اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور انسان کے صرف عمل
میں آتی ہے ، اِس تمہیدِ کلام کے بعد اِس سُورت میں اِس نظامِ حیات کے قیام
کی جو عقلی و عملی وجہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ اللہ ہی اِس عالَم
و اہلِ عالَم کا خالق ہے اِس لیئے اللہ ہی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اِس
عالَم و اہلِ عالَم کے لیئے وہ نظامِ حیات وضع کرے جو اِس عالَم کے لیئے
ایک مناسب و قابلِ عمل نظامِ حیات ہو اور اِس کے قابلِ عمل ہونے کی اللہ نے
یہ دلیل دی ہے کہ اللہ کے علمِ لازوال کے مطابق ماضی کے ہر زمان و مکان کے
اہلِ حیات کے لیۓ اللہ کا یہی نظامِ حیات قابلِ عمل رہا ہے اِس لیئے اللہ
کے علمِ لازوال کے مطابق مُستقبل میں بھی اہلِ حیات کے لیئے اللہ کا یہی
نظامِ حیات قابل عمل رہے گا ، اِس دلیل کے بعد اللہ نے اپنے رسول علیہ
السلام کو یہ تسلی دی ہے کہ ہم نے اپنے جس نظامِ حیات کو نافذالعمل بنانے
کا آپ کو حُکم دیا ہے اُس نظامِ حیات کے یہ اصول اور ضابطے جس وقت تک آپ کو
سنائے جا رہے ہیں اُس وقت تک آپ اِن اصولوں اور ضابطوں کو صرف سُنتے رہیں
اور اِس کی بات کی ہر گز بھی کوئی فکر نہ کریں کہ اِس وسیع نظام کے یہ سارے
اصول اور ضابطے آپ کس طرح طرح یاد رکھ سکیں گے اور آپ اِن کو کس نوکِ زبان
بنا سکیں گے کیونکہ اِس نظام کے یہ سارے اصول اور ضابطے آپ کو یاد کرانا
اور بر وقت آپ کی زبان سے ادا کرانا ہماری ذمہ داری ہے اِس لیئے آپ یقین
رکھیں کہ اِس وحی کی تکمیل کے بعد ہم اِس نظام کا ایک ایک اصول اور ایک ایک
ضابطہ آپ کو اِس طرح یاد کرادیں گے کہ آپ کبھی بھی اِس کی کوئی بات نہیں
بُھول پائیں گے سواۓ اِس کے کہ اگر ہم بذات خود وقت کے کسی خاص لَمحے میں
وقت کی کسی خاص مصلحت کے تحت اور وقت کے کسی لَمحے تک کوئی بات آپ کے ذہن
سے نکال دیں ، اِس خاص صورتِ حال کے سوا اِس نظامِ حیات کی ہر ایک بات ہم
بذاتِ خود آپ کو یادکرائیں گے اور بذات خود ہی آپ کی زبان سے اُس کو ادا
بھی کرائیں گے ، وحی کی اِس سماعت و تلاوت اور کتابت کی 23 سالہ مُدت میں
پہلی بار آپ کو یہ تسلی سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 114 میں کرائی گئی تھی تو
دُوسری بار سُورَةُ القیامة کی اٰیت 16 تا 18 میں کرائی گئ تھی اور اَب
تیسری بار اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بھی کرائی گئی ہے تاکہ وحی کی سماعت
و تلاوت اور کتاب کے اِس عرصے میں آپ وحی کی سماعت و تلاوت اور کتابت پر ہی
اپنی توجہ مبذول کیئے رہیں اور اِس عرصے میں کبھی بھی کو یہ خیال پریشان نہ
کرے کہ اِس نظامِ حیات کا عملی نفاذ کس طرح سے مُمکن ہو سکے گا اِسی لیئے
تسلی و تشفی کے اِس تیسرے مقام پر آپ کو اِس اَمر کا بھی یقین دلا دیا گیا
ہے کہ وحی کی تکمیل کے بعد جب اِس وحی کی تعمیل کا مرحلہ آۓ گا تو ہم اپنے
اِس نظام کے ابلاغ اور تبلیغ کے لیئے آپ کو وہ تمام سولیات بھی بہم
پُہنچائیں گے جن کی جس وقت آپ کو ضرورت ہوگی کیونکہ جو بات آپ ہم کو زبان
سے کہتے ہیں تو ہم آپ کی اُسی بات پر آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے بلکہ ہم تو
آپ کے دل سے گزرنے والے خیالات پر بھی پُوری پُوری توجہ دیتے ہیں تاکہ ہم
آپ کی زبانی استدعا سے پہلے ہی وہ سب کُچھ آپ کو عطا کر دیں جس کی آپ کو
ضرورت ہو ، اللہ تعالٰی کی یہی وہ مدد تھی جس کی بنا پر چند برس میں ہی
مدینے میں قُرآن کی وہ مثالی حکومت قائم ہو گئی تھی جس کی نظیر چشم فلک نھ
اُس سے پہلے بھی کبھی نہیں دیکھی تھی اور اُس کے بعد بھی کبھی نہیں دیکھی
اور اِس سلسلہِ کلام میں اِس سلسلہِ کلام کی آخری بات یہ کہی گئی ہے کہ اِس
نظامِ حیات کی آپ نے انسان کو صرف دعوت ہی دینی ہے کسی پر اِس کو زور
زبردستی کے ساتھ مُسلط نہیں کرنا کیونکہ اگر زور زبردستی مقصود ہوتی تو
اللہ اپنے سارے جہان میں خود ہی اِس نظام کو جاری کر دیتا ہے لیکن اُس کو
انسان کے ارادہ و عمل کے ساتھ اِس کا قبول کرنا یا قبول نہ کرنا مطلوب ہے
اِس لیئے اُس نے اِس نظام کے رَد و قبول کو اِس وعدے کے ساتھ انسان کے
ارادہ و اختیار پر چھوڑ دیا ہے کہ جو انسان اِس نظامِ حیات کو قبول کرے گا
اُس کی موت کے بعد اُس کی حیات خوش حالی و خوش خیالی کی حیات ہو گی اور جو
انسان اِس کو قبول نہیں کرے گا اُس کی موت کے بعد اُس کی حیات ایک بدحالی
اور ایک وحشت خیالی کی حیات ہو گی ، مناسب ہو گا کہ ہر جگہ کی طرح اِس جگہ
پر بھی ہم اِس اَمر کی وضاحت کردیں کہ سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 114 و
سُورَةُالقیامة کی اٰیات 16 تا 18 اور اِس سُورت کی اِن اٰیات کی اہلِ
روایت و تفسیر نے یہ احمقانہ تفسیر کی ہے کہ رسُول اللہ وحی کے درمیان وحی
کو یاد کرنے کی غرض سے وحی کی تکمیل سے پہلے ہی جلدی جلدی اپنی زبان چلایا
کرتے تھے جس پر اللہ نے آپ کو یہ ہدایت کی تھی کہ آپ ہمارے الفاظ کی ادائگی
سے پہلے ہی اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں بلکہ ہمارے الفاظ مُکمل ہونے کا
انتظار کیا کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُن کے اخذ کردہ اِس گستاخانہ مفہوم
کا اِن اٰیات سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے !!
|