پاکستان جانے سے میری زندگی برباد ہوگئی مگر یہاں تو٬ لاوارث انڈین جاسوس جنہیں خود اپنی حکومت قبول نہیں کر رہی

image
 
ڈینئیل مسیح کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک انڈین جاسوس تھے جن کو پاکستان میں خدمات سرانجام دینے اور وہاں گرفتاری کے بعد تشدد برداشت کرنے کے باوجود نہ تو انڈین حکومت کی جانب سے معاوضہ ملا اور نہ ہی اُن کی خدمات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا۔
 
انڈیا کے سرحدی علاقے کے رہائشی ڈینیئل مسیح کے مطابق انھوں نے ماضی میں آٹھ مرتبہ پاکستان جا کر خفیہ معلومات اکھٹی کیں۔ تاہم انڈین حکومت نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے کے لیے بی بی سی کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
 
ڈینیئل مسیح کا دعویٰ ہے کہ جب وہ آٹھویں مرتبہ انڈیا کی سرحد عبور کر کے پاکستان پہنچے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا مگر انھوں نے پاکستانی حکام کو بتایا کہ وہ محض ایک سمگلر ہیں، لیکن یہ بہانہ ان کے کام نہ آیا اور ان کو جاسوسی کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوئی۔
 
پاکستان کی متعدد جیلوں میں چار سال تک قید رہنے کے بعد بالآخر وہ رہا ہوئے تو اپنی نظروں میں ڈینیئل مسیح ایک قابل فخر جاسوس کے طور پر وطن لوٹ رہے تھے۔ لیکن ان کے دعوے کے مطابق جس انڈین خفیہ ایجنسی نے انھیں پاکستان بھیجا تھا، اُسی نے واپسی پر اُن سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔
 
ڈینیئل مسیح اب سائیکل رکشہ چلاتے ہیں۔ ان کی بیوی دھاریوال صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسیری کے دوران ان کی والدہ کو گمنام پتے سے 500 روپے ماہانہ موصول ہوا کرتے تھے مگر یہ سلسلہ اُن کی رہائی کے بعد اچانک ختم ہو گیا۔
 
برسوں بعد بھی انھیں اپنی ’جاسوسی‘ اور معمولی رقم کے عوض اٹھائے خطرات کے عوض حکومت کی جانب سے معاوضے کا انتظار ہے۔
 
image
 
ڈینیئل اکیلے نہیں ہیں۔
 
وہ بتاتے ہیں اُن کا سرحدی گاؤں انڈیا میں ’جاسوسوں کے گاؤں‘ کے نام سے مشہور ہے اور یہاں سے کئی لوگ انڈیا کے لیے جاسوسی کرنے پاکستان گئے جن میں سے متعدد ’جاسوس‘ معاوضے سے محروم ہیں۔
 
انڈین ماہرین کے مطابق انڈیا کے سرحدی اضلاع میں لوگوں کا خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنا اور جاسوسی کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
 
یہ دعویٰ کرنے والے مبینہ جاسوسوں میں سے بہت سے اب فوت ہو چکے ہیں اور زیادہ تر میڈیا سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن مسیح بے تکلفی سے اپنی آپ بیتی سناتے ہیں۔
 
ڈینیئل کا گاؤں کسی بھی عام انڈین گاؤں کی طرح ہے۔۔ پرانی اور ادھوری عمارتیں، تنگ گلیاں اور ان میں سرسراتی ہوئی موٹر سائکلیں، ادھر ادھر بیٹھے بے روزگار نوجوان۔
 
ان کے مطابق ان کے مطالبات بہت معمولی ہیں: معاوضہ اور ’ملک کے لیے خدمات‘ کا سرکاری اعتراف۔
 
یاد رہے کہ حال ہی میں انڈین سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک ایسے شخص کو 10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا جن کا دعویٰ تھا کہ انھیں 1970 کی دہائی میں انڈیا کی ایک خفیہ ایجنسی نے جاسوسی کی غرض سے پاکستان بھیجا تھا جہاں وہ پکڑے گئے اور انھیں جاسوسی کے الزام میں 14 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔
 
ڈینیئل کا جاسوسی کا سفر
ڈینیئل کا جاسوسی کا سفر سنہ 1992 کی ایک شام شروع ہوا۔ وہ ایک جاننے والے کے ساتھ شراب پی رہے تھے جب اس شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ایک انڈین خفیہ ایجنسی کے لیے پاکستان جانا چاہیں گے؟ ڈینیل نے ہاں کر دی۔
 
اس وقت ان کے معاشی حالات ابتر تھے اور انھیں پاکستان کے ہر دورے کے عوض چند ہزار روپے کا وعدہ ایک پرکشش سودا محسوس ہوا تھا۔
 
ڈینیئل کے مطابق اُس شخص نے اُن کا تعارف خفیہ ایجینسی کے ایک ہینڈلر سے کروایا جس نے ڈینئیل کو شراب کی پیشکش کی اور ان کے بقول ’سبز باغ‘ دکھائے۔ اس کے بعد ان کو بنیادی تربیت دی گئی اور چند دنوں بعد ہی بالآخر وہ لمحہ آیا جب ان کی خدمات ’مشن‘ کے لیے طلب کی گئیں۔
 
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے ہینڈلرز انھیں گاڑی میں بٹھا کر سرحد پر لے گئے۔ ’اس کے بعد دریائے راوی آتا ہے۔ وہاں انھوں نے مجھے ایک کشتی میں بٹھا دیا۔‘
 
image
 
پاکستان کی سرحد پر حفاظتی دستوں کا گشت ختم ہونے کے بعد موقع ملتے ہی وہ سرحد عبور کر گئے۔ ’دوسری مرتبہ میں اکیلا گیا۔ ایسے ہی آتے جاتے رہے۔ یہی کوئی آٹھ بار پاکستان گیا۔‘
 
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں ایک جاننے والے کے گھر قیام کرتے تھے جو خود بھی انڈیا کے لیے کام کرتا تھا اور ڈینئیل کے ہینڈلرز کی طرف سے سونپے جانے والے کام مکمل کرنے میں مدد کرتا تھا۔
 
’ہمیں جو بھی کام ملتا تھا وہ ہم پورا کر آتے تھے۔ جیسے کوئی ریلوے ٹائم ٹیبل، کسی پُل کی تصویر یا کچھ فوج کے سائن وغیرہ لے کر آنا ہوتے تھے۔‘
 
واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ابھی انٹرنیٹ عام نہیں ہوا تھا اور پیغام رسانی کے لیے جدید ذرائع دستیاب نہیں تھے۔
 
جب وہ پاکستان سے اپنا کام انجام دے کر واپس انڈیا کی طرف آتے تھے تو اپنے ہینڈلرز کو خبردار کرنے کے لیے ان کے پاس پہلے سے طے شدہ ایک کوڈ ہوتا تھا جس کی مدد سے وہ رات کو سرحد عبور کرتے تھے۔
 
’یا تو ہم دور سے سگریٹ جلاتے تاکہ ہینڈلرز کو معلوم ہو جائے کہ ہمارا آدمی ہے۔ یا پھر ہم آواز دیتے اور وہ پوچھتے ’کون‘؟ تو ہم کہتے ’کلاکار‘۔ یہ کوڈ تھا ہمارا۔‘
 
ان کا کہنا ہے کہ یہ کام خطرات سے بھرپور تھا۔ ایک بار سرحد پار کرتے ہوئے وہ تقریباً پکڑے جانے والے تھے۔ وہ گندم کے ایک کھیت سے گزر رہے تھے جب اُنھوں نے پاکستانی رینجرز کو قریب آتے دیکھا۔ معاملہ بگڑ سکتا تھا لیکن پاکستانی رینجرز کی ایک غلطی ان کے کام آ گئی۔
 
ان کے مطابق رینجرز اونچی آواز میں گانا گا رہے تھے جس کی وجہ سے ڈینیئل کو ان کی موجودگی کا احساس ہو گیا اور وہ ان کی نظروں میں آنے سے پہلے چھپنے میں کامیاب ہو گئے۔
 
image
 
وہ کہتے ہیں ’ہم نے دور سے انھیں دیکھ لیا کیوں کہ وہ گانا گا رہے تھے۔ میں کھیت میں بیٹھ گیا اور وہ میرے پاس سے گزر گئے۔ انھیں کچھ پتا نہیں چلا۔‘
 
لیکن قسمت نے آخری بار ان کا ساتھ نہیں دیا۔ آٹھویں بار سرحد پار کرنے کی کوشش میں جب وہ گرفتار ہوئے تو ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بہانہ بنایا کہ وہ شراب کے سمگلر ہیں، جاسوس نہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ان پر تشدد کیا گیا لیکن وہ نہیں ٹوٹے۔ تاہم انھیں جاسوسی کے الزام میں سزا سنائی گئی۔
 
انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاسوسی
انڈیا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے سرحد پار معلومات حاصل کرنے کے لیے جاسوس بھیجا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگرچہ ٹیکنالوجی اور رابطوں کے طریقہ کار میں جدت نے اس انحصار کو کسی حد تک کم کر دیا ہے لیکن جسمانی طور پر جاسوسوں کی موجودگی کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے۔
 
دوسری جانب روایتی حریف انڈیا اور پاکستان کے درمیان مشترکہ ثقافت، زبان اور دیگر عوامل جاسوسی کے اس عمل میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
 
چندی گڑھ میں مقیم وکیل رنجن لکھن پال نے انڈیا اور پاکستان کے درجنوں مبینہ جاسوسوں کی رہائی کے لیے انڈین عدالتوں میں مقدمات لڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے یہاں جاسوس بھیجنا عام بات ہے۔‘
 
image
 
وہ کہتے ہیں ’پاکستان سے بھی لوگ آتے ہیں اور انڈیا سے بھی جاتے ہیں وہاں، اور اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ پکڑے جاتے ہیں، 20-20 سال، 30-30 سال جیل میں رہتے ہیں پھر ان کو اپنے ملک بھیج دیا جاتا ہے۔‘
 
وہ کہتے ہیں ’ایسے ہی کام چلتا ہے دونوں ممالک میں۔‘
 
’سربجیت مر گیا تو بہت پیسہ دیا گیا‘
سربجیت سنگھ، ایک مبینہ انڈین جاسوس تھے جو 2013 میں پاکستان کی جیل میں وفات پا گئے تھے۔ حکومت نے ان کے اہلخانہ کو مناسب معاوضہ دیا۔
 
ڈینئیل کو گلہ ہے کہ ’سربجیت مر گیا تو بہت پیسہ دیا گیا، مالی مدد کی گئی۔ ہمیں ایک روپیہ بھی نہیں دیا سوائے 15 ہزار کے۔‘
 
ڈینیئل مسیح کے پڑوسی سنیل پال سنگھ کے والد نے کارگل جنگ کے دوران جاسوس کے طور پر کام کیا تھا۔
 
image
 
سنیل کا کہنا ہے کہ ’میرے والد ستپال سنگھ نے 14 سال تک خفیہ اداروں کے لیے کام کیا تھا۔ وہ آخری بار جب پاکستان گئے تو 1999 کی کارگل جنگ جاری تھی۔ جنگ میں انھیں فوری پاکستان کا چکر لگانا پڑا۔ اور اسی دوران بارڈر پر پکڑے گئے۔‘
 
چند ہی دنوں بعد ان کے والد کی لاش آئی۔
 
جب بارڈر پر انھیں ان کے والد کی لاش دی گئی تو اس پر انڈین پرچم لپٹا ہوا تھا۔ ’اس پر خون کے نشان تھے۔ وہ نشان اس پرچم پر ابھی بھی ویسے ہی ہیں۔ جب تک حکومت سے مدد نہیں ملے گی تب تک میں اسے ایسے ہی رکھوں گا۔ وہ میرے والد صاحب کی آخری نشانی ہے۔‘
 
وہ بتاتے ہیں کہ جب ان کے والد زندہ تھے تب وردی میں ملبوس افراد ان کے گھر پر تحفے لے کر آتے تھے۔ ’ایک بار بہن کی شادی کے لیے جہیز بھی لے کر آئے۔‘
 
وہ افراد ان کے والد سے بند کمرے میں بات کرتے تھے۔ ’والد کی ہلاکت کے بعد کوئی نہیں آیا۔‘
 
image
 
سنیل اس وقت سکول میں طالب علم تھے لیکن انھیں پڑھائی ترک کرنا پڑی۔ حکومت سے کسی قسم کا معاوضہ حاصل کرنے کی ان کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔
 
وہ تمام ایجنسیوں کے دفاتر گئے لیکن کسی نے بھی ان کے والد کو جاسوس تسلیم نہیں کیا۔ دہلی، ممبئی یا امرتسر میں حکام کی توجہ حاصل کرنے کی ان کی کوششیں بھی ناکام رہیں۔
 
سنیل پال کہتے ہیں ’اس کے بعد ماں اور دونوں بہنوں کو شہر جا کر صفائی اور برتن دھونے کا کام کرنا پڑا۔‘
 
قریبی سرحدی ضلع فیروز پور سے تعلق رکھنے والے گورو بھاسکر سابق جاسوسوں کے لیے ایک ایڈوکیسی گروپ چلاتے ہیں۔
 
ان کے والد جو ایک شاعر تھے خود 1970 کی دہائی میں جاسوسی کے الزام میں پاکستان میں جیل میں بند تھے لیکن شملہ معاہدے اور ساتھی شاعر، ہری ونش رائے بچن، کی اپیل کے تحت رہا ہوئے۔
 
ان کا کہنا ہے کہ ایسے جاسوسوں کے پاس ثبوت کے طور پر دکھانے کے لیے کوئی کاغذ نہیں ہوتا ہے۔ ’جن لوگوں کے ذریعے یہ بھرتی کیے گئے وہ یا تو ٹرانسفر ہو چکے ہیں یا دنیا چھوڑ چکے ہیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں ’ان کا وارث کوئی نہیں ہے۔ ان کا مائی باپ کوئی نہیں رہا اس تنظیم میں، جس کے لیے انھوں نے کام کرتے ہوئے ملک کی خدمت کی۔‘
 
دیگر جاسوسوں کے مطالبات کو دہراتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے گھر سونے چاندی سے بھر دو۔ میں تو صرف انسانیت کی بات کرتا ہوں کہ جو زندہ بچے ہیں یا ان کی فیملی کو انسانیت کی بنیاد پر کوئی نوکری دلوا دو تاکہ انھیں دو وقت کی روٹی مل جائے۔‘
 
ڈینیل جاسوسوں کی مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’جوانی کی زندگی جو میں نے ادھر گزاری، اس کا آج تک معاوضہ نہیں ملا مجھے۔‘
 
’ادھر جانے سے زندگی برباد ہوتی ہے، جیسے کہ میری ہوئی ہے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: