کوئی لال حویلی میں رہتا ہے تو کوئی نائن زيرو میں، سیاست دانوں کے مشہور گھر اور ان میں چھپے راز

image
 
عام طور پر انسان کی شناخت دو چیزوں سے ہوتی ہے ایک اس کے نام سے اور دوسری شناخت اس کے گھر سے ہوتی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کے نام تو عوام میں ان کے کاموں کی وجہ سے مشہور ہو ہی جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر بھی اکثر عوام میں کسی نہ کسی خصوصیت کی وجہ سے شہرت پا لیتے ہیں اب وہ نواز شریف کے خانداں کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ہوں یا پھر آصف علی زرداری کا سرے محل ہو ہر ایک جگہ ان کے نام کی وجہ سے مشہور ہو گئی-
 
پاکستان میں موجود سیاست دانوں کی رہائش گاہیں
ویسے تو ہمارے سیاست دان پاکستان میں اپنا سرمایہ رکھنے کے قائل نہیں ہیں مگر چونکہ انہوں نے پاکستان میں سیاست کرنی ہوتی ہے اس وجہ سے وہ کم از کم ایک گھر پاکستان میں ضرور رکھتے ہیں جو ان کے نام کے سبب مشہور ہوتا ہے- آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ رہائش گاہوں کے بارے میں بتائيں گے-
 
بینظیر بھٹو کا گھر 70 کلفٹن
70 کلفٹن جس عمارت کو خوشیوں اور غموں کی انتہا کے سبب پاکستان کی سیاست میں بہت اہم مقام حاصل ہے یہ عمارت 1967 سے لے کر 1988 تک پاکستانی سیاست کی مرکز رہی۔ یہ پاکستان کے سابقہ وزير اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی رہائش گاہ تھی- یہ عمارت کراچی کے پوش ترین علاقے کلفٹن کے مرکز میں واقع ہے اس عمارت نے اگر بھٹو صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دور میں سرکاری پروٹوکول دیکھا تو 1979 میں ان کی پھانسی کے بعد ان کی بیوی نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے اپنی نظر بندی کا وقت بھی اسی عمارت میں گزارا ۔ یہ عمارت اس کے بعد مرتضیٰ بھٹو کی وطن واپسی کے بعد ان کی رہائش گاہ قرار پائی اس وقت میں جب کہ بینظیر بھٹو وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان تھیں تو اسی گھر سے چند گز کے فاصلے پر مرتضی بھٹو کو خاک اور خون میں نہلا دیا گیا تھا اور قتل کے بعد ان کی لاش بھی اسی عمارت میں لائی گئی اس وقت یہ عمارت مرتضی بھٹو کی فیملی کے زير استعمال ہے-
image
 
شیخ رشید کی لال حویلی
راولپنڈی کے مرکز میں واقع لال حویلی کی تاریخ سو سال پرانی ہے اس عمارت کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ہندو راجا دھن راج سہگل نے ایک مسلمان رقاصہ بدھن بائی کی محبت میں تعمیر کی تھی- بدھن بائی سے امیر و کبیر دھن راج کی ملاقات سیالکوٹ کی ایک شادی کی تقریب میں ہوئی اور وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئے- ان دونوں کی محبت کے چرچے زبان زدعام ہوئے مگر ان دونوں نے ایک دوسرے کے لیے اپنے مذہب کو نہ چھوڑا اس وجہ سے اس حویلی میں مسلمانوں اور ہندوؤن دونوں مذاہب کے تہوار بہت اہتمام سے منائے جاتے تھے- اس وقت اس حویلی کا اگلا پانچ مرلے کا حصہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ شیخ رشید کی ملکیت ہے جب کہ اس کا پچھلا حصہ ایک ٹرسٹ کے حوالے ہے- اس حویلی کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں پر جنوں کا سایہ ہے کیونکہ کچھ مافوق الفطرت واقعات بھی دیکھے گئے ہیں مگر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اب ان کو دیکھ کر تمام جن یہاں سے بھاگ گئے ہیں-
image
 
متحدہ قومی مومنٹ کا مرکز نائن زیرو
ایک زمانے میں کراچی کی سیاست کا مرکز سمجھی جانے والی صرف 120 گز پر محیط یہ عمارت کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں واقع ہے۔ یہ جگہ متحدہ قومی مومنٹ کے ہیڈ کوارٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے قائد الطاف حسین کی رہائش گاہ بھی تھی- کراچی میں کب ہڑتال ہونی ہے کب کراچی کو بند ہو جانا ہے۔ یہ تمام فیصلے اسی عمارت سے آتے تھے ایک طویل وقت تک پاکستان کی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اس عمارت میں حاضری لگانا بھی ہر وزیر اعظم کی ذمہ داری ہوتی تھی- مگر اب متحدہ کے قائد کی جلاوطنی کے بعد یہ عمارت اپنی مرکزیت کھو بیٹھی ہے اور حالیہ دنوں میں لگنے والی آگ کے بعد اس عمارت کی حالت ایک کھنڈر سے زيادہ نہیں ہے-
image
 
عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ
بنی گالہ اسلام آباد کے اندر واقع ایک علاقہ ہے جو راول جھیل کے مشرق میں واقع ہے۔ اس جگـہ کے رہائشی علاقہ ہونے کی حیثیت کافی متنازعہ ہے اور ماضی میں چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس سو مو ٹو ایکشن لے کر اس علاقے کو خالی کروانے کا بھی حکم دیا تھا کیوں کہ یہ بغیر کسی اجازت اور منصوبہ بندی کے تعمیر کیا گیا تھا- مگر عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اس علاقے کو ریگولائزڈ کر دیا گیا ہے۔ کافی وسیع رقبے پر موجود عمران خان کی یہ رہائش گاہ میں تعمیراتی رقبہ کافی کم ہے جب کہ باقی جگہ پر کھلے لان ہیں- یہ جگہ اس وقت ملک کی سیاست کا سب سے اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور اسے پاکستان تحریک انصاف کے چئرمین کی رہائش گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے مرکز کی حیثیت بھی حاصل ہے-
image
 
شریف خاندان کا جاتی امرا
شریف خاندان کی رہائش گاہ جاتی امرا لاہور کے قریب واقع ایک وسیع علاقہ ہے جس کا نام امرتسر کے ایک قدیم قصبہ جاتی امرا کے نام پر رکھا گیا ہے کیوں کہ نواز شریف کے والد کی پیدائش جاتی امرا امرتسر میں ہوئی تھی تو اسی حوالے سے ان کی اس رہائش گاہ کا نام بھی جاتی امرا رکھا گیا- 1700 ایکڑ پرجاتی امرا کی زمین پر جو رائے ونڈ محل تعمیر ہے وہ بنی گالہ سے سات گنا بڑا ہے جسکی سجاوٹ کے لیے مختلف مجسمے موجود ہیں جو کہ شیر کی شکل کے ہیں جو مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان بھی ہے۔
جاتی امرا میں موجود رائے ونڈ محل اپنی سجاوٹ اور شان و شوکت کے سبب ایک محل کا نظارہ پیش کرتا ہے-
image
YOU MAY ALSO LIKE: