تحفے میں ملنے والا کتا مسئلہ بن گیا... امریکہ کا ’توشہ خانہ‘٬ صدر کو ملنے والے تحائف کہاں جاتے ہیں؟

image
 
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی الیکشن کمیشن سے توشہ خانہ سے متعلق ریفرنس میں نااہلی کے بعد ایک بار پھر پاکستان میں سربراہانِ مملکت سے ملنے والے تحائف اور توشہ خانے سے متعلق قواعد زیرِ بحث ہیں۔
 
سربراہانِ مملکت کو ملنے والے تحائف سے متعلق مختلف ممالک میں قواعد و ضوابط بھی پائے جاتے ہیں اور کبھی کبھی ان ضابطوں پرعمل درآمد متعلقہ محکموں کے لیے دردِ سر ثابت ہوتا ہے۔
 
یہ صدر جارج ڈبلیو بش کے دور کی بات ہے کہ ان کے عملے نے نیشنل آرکائیو کے شعبے کو کہا کہ وہ ضابطے کے مطابق صدر کو ملنے والے ایک تحفے کو اپنی تحویل میں لے لیں۔
 
نیشنل آرکائیو کے اہل کار نے پوچھا کہ وہ تحفہ کیا ہے؟ جس پر عملے کی رکن کا جواب تھا ’ایک کتا،‘ آرکائیو کے اہلکار نے دوبارہ سوال کیا یہ کوئی مجسمہ ہے؟ اہل کار نے نے جواب دیا کہ نہیں یہ ایک پیارا سا کتا ہے۔ جس پر آرکائیو کے اہل کار نے جواب دیا کہ کتا پیارا ہے یا نہیں ہم صدر کو ملنے والے کسی ’زندہ‘ تحفے کو تحویل میں نہیں لے سکتے۔
 
صدر بش کو بلغاریہ کے صدر سے تحفے میں ملنے والا یہ کتا وائٹ ہاؤس اور نیشنل آرکائیو دونوں ہی کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ اس کی وجہ ہے کہ امریکہ میں صدر کسی غیر ملکی سربراہ مملکت سے لیا گیا تحفہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ یہ تحفہ اس کی ذاتی ملکیت تصور نہیں ہوتا۔
 
چھوٹے موٹے تحفے اگر وہ اپنے پاس رکھنا بھی چاہیں تو قواعد کے مطابق اس کی قیمت متعین ہے۔ باقی تمام اشیا نیشنل آرکائیو کی تحویل میں چلی جاتی ہیں۔ یہاں سے یہ اشیا بعدازاں، امریکی روایت کے مطابق صدر کی سبک دوشی کے بعد ان کے زیر استعمال رہنے والی اشیا، کتابوں، تحائف، دستایزات وغیرہ پر مشتمل ان کے نام سے موسوم لائبریری میں رکھ دی جاتی ہیں۔
 
صدر بش کے خاندان کو ملنے والے کتے کے اس تحفے کو سرکاری مال خانے میں تو رکھا نہیں جاسکتا تھا اس لیے بالآخر اسے صدر کے خاندان ہی کو اپنے پاس رکھنا پڑا تاہم امریکہ میں صدر اور سرکاری عہدے داران کے لیے تحائف لینے کے کڑے قواعد بنائے گئے ہیں۔
 
image
 
تحائف کا کیا ہوتا ہے؟
اگرچہ سربراہانِ مملکت خیر سگالی کے اظہار کے لیے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ تاہم امریکہ کے آئین میں کسی حکومتی اہل کار کو کسی غیر ملکی سربراہِ مملکت سے کانگریس کی منظوری کے بغیر تحفہ قبول کرنے کی ممانعت ہے۔
 
البتہ 1928 میں جب عالمی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا تو پہلے تحائف کے لین دین سے متعلق امریکہ میں باقاعدہ پروٹوکول ڈویژن بنایا گیا۔
 
سفارت کاری کے آداب کے تحت تحائف کے لین دین اور ان کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 1966 میں ’فارن گفٹ اینڈ ڈیکوریشن ایکٹ‘ بنایا گیا جس میں صدر کو غیر ملکی سربراہان مملکت سے ملنے والے تحائف کے قواعد بنائے گئے۔
 
اس قانون سازی کے مطابق صدر کو ملنے والے تمام تحائف امریکہ کی حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں تاہم صدر اور خاتون اول ’معمولی قیمت‘ کے تحائف اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
 
اشیا کی اس قیمت کا تعین جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن کی جانب سے کیا جاتا ہے اور ہر تین سال بعد اس پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔ 2020 میں جاری کی گئی قیمت کے مطابق 415 ڈالر تک کا کوئی بھی تحفہ صدر یا خاتون اول اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
 
لیکن اگر صدر یا ان کا خاندان اس مقررہ قیمت سے زائد کا کوئی تحفہ رکھنا چاہیں تو انہیں اس شے کی امریکہ میں مارکیٹ ویلیو کے مطابق قیمت ادا کرنا ہوتی ہے اور اس کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
 
اس کے علاوہ تمام تحائف نیشنل آرکائیو کی تحویل میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں سے صدر کی سبکدوشی کے بعد یہ ان سے موسوم لائبریری کا حصہ بن جاتے ہیں۔
 
Partner Content: VOA Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: