ماہنامہ" سیارہ" لاہور کے تازہ شمارے پر ایک نظر

اسلامی ادب کی بنیاد بننے والے اس کثیر الامقاصد رسالے کے بانی اور روح رواں نعیم صدیقی اور پروفیسر حفیظ الرحمن احسن تھے

ماہنامہ "سیارہ"لاہور سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب میں برادرم خلیل الرحمن کا رقعہ لے کر پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کے ادارے ایوان ادب پہنچا ۔پروفیسر حفیظ الرحمن احسن ایک مہذب ، نیک سیرت ، خدا ترس اور انسان دوست انسان تھے ۔یہ1984ء کا زمانہ تھا ،بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن جس ادارے کے روح رواں تھے، اس ادارے کے تحت سیکنڈری سطح کی تین شہرہ آفاق کتابیں شائع ہوتی تھیں۔ ان میں سب سے مشہور کتاب "تحسین اردو" تھی جو سال اول اور سال دوم کے طلبہ و طالبات کے درسی نصاب کا احاطہ کرتی تھی ۔اس کتاب کے مصنفین میں پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کے علاوہ پروفیسر آسی ضیائی اور پروفیسر طاہر شادانی شامل تھے ۔جبکہ سیاسیات اور معاشیات کی کتابیں بھی اسی ادارے کے زیر اہتمام شائع ہوتی تھیں جو بالترتیب پروفیسر امین جاوید اور عبدالحمید ڈار نے لکھی تھیں ۔ ان کتابوں کی ملک گیر سطح پر تشہیر اور فروخت کے لیے تمام ہائر سکینڈئری سکول اور ڈگری کالجز کے اساتذہ کرام سے رابطہ قائم کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے شعبہ اردو ، سیاسیات اور معاشیات کے اساتذہ کرام کو ایوان ادب کی جانب سے خطوط بھیجوائے جاتے تھے ۔چونکہ یہ کام ایوان ادب کے پروپرائٹر پروفیسر حفیظ الرحمن احسن کرتے تھے ،اس لیے انہوں اپنی سہولت کے مجھے بطور اردو سٹینو گرافر تین سو روپے ماہوار تنخواہ پر جزووقتی ملازم رکھ لیا ۔میں جس زمانے کی بات کررہا ہوں اس وقت پاکستان میں اردو کا کمپیوٹر ابھی متعارف نہیں ہوا تھا۔ کتابوں اور رسالوں کے لیے کتابت کی جاتی تھی جبکہ خطوط اپنے ہاتھ سے لکھنے پڑتے تھے ۔ اس لیے حفیظ صاحب نے اردو کا ایک ٹائپ رائٹر خریدا جس پر میں خطوط ٹائپ کیا کرتا تھا ۔

کچھ عرصہ تک معاملات یونہی چلتے رہے پھر حفیظ صاحب مجھے اپنے ساتھ لے کر گنپت روڈ انارکلی سے ملحقہ کثیر منزلہ عمارت میں چلے جاتے۔ جہاں ماہنامہ سیارہ کا مرکزی دفتر تھا ۔ جہاں برصغیر پاک وہند کے ادیب اور شاعر اپنے مضامین ، نظمیں اور غزلیں بذریعہ ڈاک سیارہ کے دفتر بھجواتے ۔سیارہ کے دفتر میں کتابت کے لیے ایک صاحب( جن کا نام قاسم محمودتھا )بیٹھتے تھے ۔جو سارا دن سیارہ کے مضامین وغیرہ کتابت کرتے ۔مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہاں مولانائے مودودی ؒ کے درسوں کی کیسٹوں کی تیاری بھی ہوتی ہے جسے بعد میں ملک گیر سطح پر ڈیمانڈ کے مطابق بجھوا دیا جاتا ہے ۔اس کام کی نگرانی کے لیے ایک بزرگ چراغ دین صاحب مامور تھے جبکہ ان کی مدد کے لیے ایک نوجوان ملازم ( محمد سلیم )بھی رکھا ہوا تھا ۔

کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا جب ایوان ادب میں زیادہ کام نہ ہونے کی بنا پر حفیظ صاحب (جو روزانہ گھر سے ایک دو بجے موٹرسائیکل پر اردو بازار تشریف لاتے تھے) النور چیمبرز چلے جاتے اور جاتے ہوئے ایوان ادب کے منیجر یوسف صاحب کو تاکید کرجاتے کہ جیسے ہی لودھی صاحب پہنچیں، انہیں سیارہ کے دفتر بھجوا دیں ۔احکامات ملتے ہی میں بھی سیارہ کے دفتر پہنچ جاتا ۔سیارہ کے لیے جو مضامین بھجوائے جاتے تھے مضامین بھیجنے والوں کوجواب بھی دیئے جاتے ، کچھ عرصہ تو ڈکیٹیشن کا سلسلہ چلتا رہا ۔بعد میں براہ راست حفیظ صاحب بولتے اور میں ساتھ ساتھ ٹائپ کرتا جاتا ۔

یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت سیارہ کی ضخامت چار پانچ سو (اے فور )صفحات پر مشتمل ہوتی ۔جس کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہوتی ۔درحقیقت یہ ادبی رسالہ تبلیغی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر شائع کیا جاتا تھا بلکہ اس کے پڑھنے والے بھی ایک خاص مسلک کے لوگ ہی ہوا کرتے تھے ۔چند ایک قابل ذکر لوگوں کو تو میں خود بھی حفیظ صاحب کے حکم پر سیارہ پہنچنے جاتا تھا ۔اس رسالے کی خوبیوں میں یہ بات شامل تھی کہ اس میں کسی بھی ادیب کی تصویر شائع نہیں ہوتی ،بلکہ جتنی بھی غرلیں ، نظمیں اور مضامین شامل اشاعت ہوتے ان میں جنسیت کا دور دور تک بھی شائبہ نہیں ہوتا تھا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ رسالہ خالصتاجماعت اسلامی کے لوگوں کے مزاج کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا اور شائع کیا جاتا تھا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ بھاری بھرکم رسالے کی اشاعت پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا تھا چند اداروں کے اشتہارات مل تو جاتے تھے اور ان کی پے منٹ بھی بروقت مل جاتی لیکن باقی اخراجات حفیظ صاحب ایوان ادب کی آمدنی میں سے پورے کرتے ۔میں 1985ء سے 1996ء تک حفیظ صاحب کے ساتھ منسلک رہا ۔تین سو روپے ماہانہ تنخواہ سے آغاز ہوا اور بارہ سو روپے ماہوار تک میری تنخواہ بڑھتے بڑھتے پہنچ گئی ۔ان بارہ سالوں میں ، میں نے دیکھا کہ حفیظ صاحب ایک دریا کی مانند سخی انسان تھے۔ بیشمار لوگ ان کی فیاضی سے فیض یاب ہوتے تھے ۔میں نے انہیں غریبوں کو پیسے دیتے اور جھجکتے ہوئے نہیں دیکھا ۔

ایک چھوٹی سی مثال میں یہاں بیان کرنا چاہتاہوں ۔ میں جن ایام میں ملازم ہوا تھا ابھی مجھے ایوان ادب پر آتے ہوئے چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے اپنا مکان خریدنے کے لیے پانچ ہزاررو پے کی ضرورت پڑ گئی۔کئی دن تک میں جھجکتا رہا کہ میری تنخواہ تو تین سو روپے ہے اور میں پانچ ہزار روپے بطور قرض کا کیسے تقاضا کروں ۔چونکہ کسی اور جگہ سے اتنے پیسے ملنے کی امید بھی نہیں تھی اس لیے ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے حفیظ صاحب سے پانچ ہزار کا تقاضا کرہی دیا اور کافی دیر تک ردعمل کا انتظار کرتے ہوئے سر جھکائے بیٹھا رہا ۔میں اس وقت حیران ہوا جب حفیظ صاحب نے مزید سوال و جواب کرنے کی بجائے فرمایا آپ مکان کا سودا کرلیں پانچ ہزار آپ کو مل جائیں گے ۔1984ء کے زمانے میں پانچ ہزار آج کے پانچ لاکھ کے برابرہونگے ۔ حفیظ صاحب نے رضا مندی کا اظہار کرکے خود مجھے بھی حیران کردیا اس کے بعد میرے دل حفیظ صاحب کا احترام اور بھی بڑھ گیا ۔حالانکہ قرض کی رقم تو میں نے آہستہ آہستہ ادا کردی لیکن میں حفیظ صاحب کی عظمت کا گرویدہ ہوگیا ۔

برادرم ظفراقبال ( ماہنامہ سیارہ ) کے دیرینہ خدمت گا ر ہیں،انہوں نے میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ حفیظ صاحب 2015ء تک ماہنامہ سیارہ کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں جب ان کی صحت نے پریشان کردیا تو وہ اپنے گھر تک محدود ہوکر رہ گئے ۔ظفراقبال کے بقول اب اس عظیم ادبی مجلے کی ادارت جناب خالد علیم صاحب نے سنبھال لی ہے ۔ جبکہ نائب مدیر کے فرائض وحید اختر واحد اور مدیر انتظامی کی ذمہ داری جناب سلمان فاروق کے کندھوں پر آ پڑی ہے جو اپنے عظیم والد کی میراث کو ہر حال میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں ۔بیشک نیک سیرت اولاد سے یہی توقع کی جاسکتی ہے ۔

اس وقت میرے سامنے ماہنامہ سیارہ لاہور کا مئی ،جون ،جولائی 2022ء دور ثالث ۔سلسلہ نمبر تین کا شمارہ موجود ہے ۔یہ تازہ ترین شمارہ 192صفحات پر مشتمل ہے ۔جس پر بیاد حفیظ الرحمن احسن لکھا ہوا ہے جبکہ مطالعہ خصوصی جلیل عالی شخصیت و فن اور دیگر نگارشات نظم و نثر پر مشتمل ہے ۔ مجلس مشاورت میں ڈاکٹر تحسین فراقی ، سلیم منصور خالد ، نوید صادق ، ڈاکٹر رفاقت علی شاہد ، پروفیسر ظفر حجازی ، سید حامد یزدانی ،توقیر عباس اور عمران ظہورغازی شامل ہیں ۔سیارہ لاہور کے اس شمارے میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، عمر فاروق ، عمرفاروق اور شاعر علی شاعر کے مقالات شامل ہیں ۔رباعیات فراست رضوی جبکہ غزلیں ممتاز اطہر ، ناصرعلی ،خورشید ، عزیز فیصل ، وحید اختر واحد ، خالد علیم ، علی اصغر عباس ،حامد یزدانی وغیرہ کی شامل اشاعت ہیں ۔

شاعر و نقاد جلیل عالی ۔ مطالعہ خصوصی کے عنوان کے تحت انور مسعود اور عمر عزیز کی نظمیں اور خالد علیم کی رباعیات شامل ہیں ۔ تجزیات اور مطالعات کے عنوان کے تحت جیلانی کامران ، علیم ناصری ، حبیب الرحمن مشتاق ، شبیر احمد قادری ، شہزاد اظہر، ادریس آزاد ، پروین طاہر، توقیر عباس ، ڈاکٹر مظہر اقبال ،ڈاکٹر حمید تنولی ، ڈاکٹر محمد نوید ازہر ، نوید صادق ، ڈاکٹر بابر اعوان ،ساجد رحیم،رحمان حفیظ اور افضل خان کے مضامین شامل ہیں ۔شخصیت کے حوالے سے نجیبہ عارف ، سعید راجہ ، منورعزیز، محبوب حسین عامر کے مضامین شامل ہیں ۔رفتگان کے عنوان کے تحت پروفیسر حفیظ الرحمن احسن مرحوم اور پروفیسر زاہر حسین کی یاد میں ۔حافظ محمد ادریس اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے مضامین شامل اشاعت ہیں ۔حامد یزدانی ، آسناتھ کنول اور ڈاکٹر فرید پراچہ کے افسانے بھی اسی شمارے کا حصہ ہیں ۔

حبیب الرحمان مشتاق اپنے مضمون" محترم جلیل عالی میری نظر میں " میں لکھتے ہیں کہ میں شعری دانش کی پگڈنڈیوں پر اپنی دھن کو رخت کیے بے ساختہ رواں دواں ہوں۔ میرے شوق کو ستارہ بنا رہے ہیں ۔اس سفر کی کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں ۔اس بارے میں مجھے ابھی تک کوئی ادراک نہیں۔یہ یقین کا سفر بھی ہے اور گمان کا سفر بھی ۔اس سفر میں ایک ہم سفر بھی ہے جو مجھے اس وقت شعوری طاقت اور حوصلے سے نوازتا ہے ۔جب میرا حوصلہ جواب دینے کی کوشش کرتا ہے تو میرا ہمسفرمیرا ہاتھ پکڑتا ہے پھر مجھے آگے بڑھنے کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتا ہے ۔جو دوران سفر موجود نہ ہوتے ہوئے بھی موجود ہوتا ہے۔اس ہم سفر کا نام محترم جلیل عالی ہے ۔میں عالی صاحب کی محبتوں اور احسانوں کا بوجھ اپنے دوش ناتواں پر اٹھائے پھرتا ہوں اور ان محبتوں اور احسانات کے بوجھ میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔عجیب انسان ہیں یہ عالی صاحب بھی ۔جو انمول محبتیں مفت میں بانٹ رہے ہیں میرا دل اگر تا حیات ان کی پابوسی کرتا رہے تو بھی ان کی محبتوں اور احسانوں کا حق شاید ادا نہ کر پاؤں۔

اسی شمارے میں ماہنامہ سیارہ لاہور کے سابقہ مدیر پروفیسر حفیظ الرحمن احسن مرحوم کے حوالے سے حافظ محمد ادریس صاحب کا ایک مضمون بھی شامل ہے ۔وہ لکھتے ہیں حفیظ الرحمن احسن صاحب سے نصف صدی سے زاید مدت کا تعلق تھا ۔ان کے بارے میں بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہیں ۔ قلعہ گوجر سنگھ کے قریب ہی ایک چھوٹی سی مبارک مسجد، عبدالکریم روڈ پر ہوا کرتی تھی جہاں اتوار کی صبح مولانامودودی ؒ کا درس قرآن اور درس حدیث ہوا کرتا تھا۔ مجھے بھی پانچ چھ دوستوں کے ساتھ اس درس میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک صبح درس شروع ہونے سے قبل اس نفیس باریش نوجوان نے (جو صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے )،ایک بڑے سے ٹیپ ریکارڈر کو سیٹ کرکے ریکارڈنگ کے لیے تیار کرلیا یہی میرے لیے نیا چہرہ تھا ۔سیاہ داڑھی ، آنکھوں پر چشمہ اور چہرے پر سنجیدگی ،بات کرتے ہوئے سامنے کے سفید دانت نظر آتے ، خاموش ہوتے تو لگتا کہ اوپر کا ہونٹ پوری طرح بند ہونے کے باوجود قدرے کھلا ہوا ہے ۔معلوم ہوا کہ موصوف کا نام حفیظ الرحمن احسن ہے اور کسی کالج میں تدریس کا فریضہ ادا کرتے ہیں ۔اس موقع پر دیکھا ہوا منظر یوں آنکھوں کے سامنے تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو ۔ حالانکہ اسے کم و بیش 54سال بیت گئے ہیں ۔

حفیظ الرحمن احسن 9اکتوبر 1934ء کو پسرور میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد میاں عبدالعزیز قصبے کی معروف شخصیات میں شمار ہوتے تھے ۔آپ نے ابتدائی تعلیم پسرور شہر کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی- میٹرک کے بعد مرے کالج سیالکوٹ داخلہ لے لیا ۔ ۔ایک ذہین اور سنجیدہ طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہت محنتی انسان تھے ۔ہر امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کرتے ۔میٹرک کے بعد کالج میں داخلے کے لیے سیالکوٹ گئے اور مرے کالج میں اپنی تعلیم کے تمام مراحل مکمل کیے ۔ دور طالب علمی میں ہی سے آپ لکھنے پڑھنے اور شعر و ادب میں دلچسپی لینے لگے۔اکثر مشاعروں میں اپنا کلام سنایا کرتے تھے ۔انہوں نے نظم و نثر میں کافی سرمایہ چھوڑا ۔حالانکہ آپ خود ایک اشاعتی ادارے کے روح رواں تھے ۔
...................
قصہ مختصر پروفیسر حفیظ الرحمن احسن شعر و ادب کی دنیا کی قدآور شخصیت تھے ، انہوں نے بھرپور زندگی گزاری اور بیشمار لوگ ان کے سر چشمہ فیض سے مستفید ہوتے رہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خالد علیم اور ان کے دیگر رفقائے کار نے ماہنامہ "سیارہ"کو تسلسل سے شائع کرکے نیکی کے ایک ایسے چراغ میں تیل بھرنے کی جستجو کی ہے جس کی روشنی نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر پاک وہند کے ہر گوشے کو روشن کرتی رہے گی ۔ میں وحید اختر واحد کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کی رفاقت اور محنت "سیارہ"کو اشاعت کے قابل بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ میرا سب سے بڑا کریڈٹ پروفیسر حفیظ الرحمن احسن مرحوم کے فرزند جناب سلمان فاروق کے لیے ہے جنہوں بجھتے ہوئے چراغ میں اپنی محدود آمدنی میں سے تیل خرید کر ڈالا اور اسلامی ادب کی بنیاد بننے والے اس رسالے کو جاری و ساری رکھنے میں عملی مدد فراہم کی ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785416 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.