فسادِ عالَم کا سبب انسان کا ایک ہی عمل ہے !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالشمس ، اٰیت 1 تا 15 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والشمس
وضحٰہا 1 ولقمر اذا
تلٰھا 2 والنھار اذا جلّٰھا 3
والیل و مایغشٰہا 4 والسماء
و ما بنٰھا 5 والارض و ما طحٰہا 6
ونفس و ما سوٰھا 7 فالھمہٰا فجورھا و
تقوٰھا 8 قد افلح من زکٰھا 9 و قد خاب من
دسٰہا 10 کذبت ثمود بطغوٰھا 11 اذ انبعث اشقٰہا
12 فقال لھم رسول اللہ وسقیٰہا 13 فکذبوه فعقروھا
فدمدم علیھم ربھم بذنبھم فسوٰھا 14 ولا یخاف عقبہا 15
یقین جانو کہ جب سُورج کو ہم نے شُعلہ بردار بنایا تو وہ شُعلہ بردار بن گیا اور جب چاند کو اُس سُورج کے تعاقب میں لگایا تو چاند اُس کے تعاقب میں لگ گیا ، پھر جب دن نے عالَم کو روشن کرنا شروع یا تو ہم نے مخلوق کو اُس کی طویل روشنی اور طویل حرارت سے بچانے کے لیئے اُس پر رات کی ایک چادر ڈال دی مخلوق کام کے بعد آرام بھی کر سکے اور اُس وقت ہم نے آسمان کو آسمان کے جن اَجزا پر قائم کیا تو آسمان بھی اُن اَجزا پر ٹھہر گیا اور ہم نے زمین کو اپنے جس طریقے سے ہموار کیا تو زمین بھی ہمارے اُس طریقے پر ہموار ہو گئی لیکن جب ہم نے انسانِ کی جان کو آراستہ کیا تو اُس کی قُوتِ فیصلہ کو آزمانے کے لیۓ اُس کے خمیر میں اپنی اطاعت کے فرمان کے ساتھ اُس سے گریز کا رُجحان بھی اُس میں ڈال دیا ، پھر جس جان نے ہمارے فرمان کا اعتراف کیا تو وہ جان سدا سدا کے لیۓ بامُراد ہوگئی اور جس جان نے ہمارے فرمان سے انحراف کیا تو وہ جان سدا سدا کے لیئے نامُراد ہو گئی جس کی بہت سی تاریخی مثالوں میں سے ایک مثال قومِ ثمود کی وہ بغاوت ہے جس کے ایک باغی فرد نے اپنے نبی کے ذریعے ملنے والے ہمارے فرمان کے مطابق اُس مہمان اُونٹنی کے پانی پینے کے مقررہ دن پر اُس اُونٹنی کی حفاظت کرنے کے بجاۓ اُس اُونٹنی کو ہلاک کر دیا اور پھر اُس قوم کی اُس حُکم عدولی کے بعد ہم نے اُس قوم پر پہلے ایک ہولناک موت کی ابتدا کی اور پھر اُس ہولناک موت کو اُس کی انتہا پر پُہنچا کر اُس قوم کی بستی کو زمین کے برابر کردیا تاکہ زمین پر بے قابو ہونے والا انسان ہمارے قابو میں آجاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اِس سُورت میں پہلے آفتاب و ماہتاب ، لیل و نہار اور زمین و آسمان کی صُورت میں بنائی گئی اُن چھ بڑی مخلوقاتِ عالَم کا ذکر کیا گیا ہے جن مخلوقات کو اللہ نے ابتدائے آفرینش میں جس کام کا جو حُکم دے دیا تھا وہ مخلوقات ابتداۓ آفرینش میں ہی اُس حُکم کی اِس طرح پابند ہو گئیں تھیں کہ اُن میں سے کسی مخلوق نے بھی اللہ تعالٰی کے اُس حُکم سے سرتابی نہیں کی ، عقل و شعور سے عاری رکھی جانے والی اُن چھ مخلوقات کے بعد اِس سُورت کی ساتویں اور آٹھویں اٰیت میں قُرآن نے اُس صاحبِ عقل و شعور مخلوق انسان کا ذکر کیا ہے جس کے صاحبِ عقل و شعور ہونے کی بنا پر اُس کی جان میں اطاعت کے جذبے کے ساتھ بغاوت کا رُجحان بھی رکھ دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے اِس جوہرِ عقل و شعور کے نُور سے بذاتِ خود دیکھے کہ اُس کے سامنے اُس کے لیئے وہ راہِ ہدایت کیا ہے جس پر اُس نے ہمیشہ چلنا ہے اور اِس کے سامنے وہ راہِ ضلالت کون سی ہے جس پر اُس نے کبھی نہیں چلنا ہے ، اِس کے بعد اِس سُورت کی اٰیت نو اور اٰیت دس میں یہ بتایا گیا ہے کی اگر انسان اللہ کے اَحکامِ نازلہ کی روشنی میں اپنی عقل و شعور سے اپنے لیئے راہِ ہدایت کا انتخاب کرے گا تو آفتاب و ماہتاب ، لیل و نہار اور زمین و آسمان کی وہ چھ غیر ذوی العقول مخلوقات اِس کی دسترس میں دے دی جائیں گی اور اگر انسان عقل و شعور سے کام نہیں لے گا اور وہ اللہ کے اَحکامِ نازلہ سے مدد لے کر راہِ ہدایت کا انتخاب نہیں کرے گا تو اِس کی ہستی کو اس طرح سے اُن چھ مخلوقات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاۓ گا کہ آفتاب چاہے اُس پر اپنی گرم گیری لاتا رہے اور ماہتاب چاہے اُس کو اپنی پُر سکون روشنی سے بچاتا رہے ، شب چاہے تو اُس پر بیخوابی کا عذاب لاتی رہے اور دن چاہے تو اُس پر آگ برساتا رہے ، آسمان چاہے تو اُس کو رولتا رہے اور زمین چاہے تو اُس کو رولاتی رہے لیکن اگر انسان چاہے تو اللہ کی اِس وحی کے علم سے اِس عالَم کی ہر ایک مخلوق کو نہ صرف شکست دے کر اُس کی دسترس سے نکل سکتا ہے بلکہ وہ وحی کی اِس لازوال اور بے مثال قُوت سے اِس عالَمِ خلق کی ہر ایک چھوٹی بڑی مخلوق کو اپنی دسترس میں بھی لا سکتا ہے لیکن انسان کے اِس عمل کی واحد کامیاب صورت انسان کا اُس آسمانی وحی پر ایمان لانا اور اُس وحی سے ملنے والے ہر ایک خُدائی فرمان پر عمل کرنا ہے اِس لیئے ہر وہ انسان جو اِس وحی کے نُور سے اپنا تزکیہ رُوح و جان کرے گا وہ عالَمِ دُنیا میں اللہ کی عنایاتِ حیات اور عالَمِ آخرت میں نجاتِ حیات کا حق دار ہو جاۓ گا اور ہر وہ انسان جو اِس لازوال وحی سے اپنا تزکیہِ رُوح و جان نہیں کرے گا تو وہ اِس عارضی عالَمِ حیات میں حیات کی رحمت اور اُس دائمی عالَمِِ حیات میں نجات کی راحت سے محروم کر دیا جائے گا ، قُرآن نے اپنی اِس سُورت کی اِن اٰیات میں پیش کی گئی اپنی اِس بات کو سمجھانے کے لئے انسانی تاریخ سے قومِ ثمُود کی مثال پیش کی ہے جس کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ قومِ ثمُود کے مِنجُملہ مُجرمانہ اعمال میں سے ایک بڑا قومی جُرم یہ بھی تھا کہ اُس قوم کے بڑوں نے اُس زمانے کے اہلِ زمین کی اُن مُتعدد زرعی زمینوں اور ہری بھری چراگاہوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا تھا جن سے اُس قوم کے وہ بڑے خود تو ہر قسم کا فائدہ اُٹھاتے تھے لیکن قرب و جوار کی غریب بستیوں کے غریب و نا دار انسان کو اپنی اُن مقبوضہ زمینوں اور چراہوں کے قریب بھی نہیں پَھٹکنے دیتے تھے لیکن جب اُس علاقے کے با اثر لوگ اُن سے عام لوگوں کو اُن زمینوں اور چراگاہوں سے دُور رکھنے کا سوال اُٹھاتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ یہ تو ایک بالکُل ہی جھوٹی بات ہے جو اُن کے ذمے لگادی گئی ہے ، ہم کسی کو بھی اِن زمینوں اور چراگاہوں سے نہیں روکتے چنانچہ اُن کے ساتھ بہت سی حیل و حجت کے بعد اللہ تعالٰی نے اُس قوم کے نبی صالح علیہ السلام کو حُکم دیا کہ اِس بستی میں ایک مہمان اُونٹنی آنے والی ہے اِس لیئے اِس قبضہ مافیا کو حُکم دیں کہ اگر وہ اپنے اِس دعوے میں سچے ہیں تو پھر اِس اُونٹنی کے لیئے پانی پینے کا ایک دن مقرر کردیا جاۓ ، اگر اِن لوگوں نے اُس اُونٹنی کے پانی پینے کے دن اُس اُونٹنی کے ساتھ کوئی تعرض نہ کیا تو اُس کے بعد ابتدائی طور پر بستی کے دُوسرے لوگوں کے جانوروں کے لیئے بھی اِن زمینوں کے اِن آبی چشموں سے پانی پلانے کی ایک راہ نکل آۓ گی ، اگر ان لوگوں نے اِس معاہدے کا پاس لحاظ نہ کیا تو پھر اِن پر عذاب نازل ہو گا لیکن اِس معاہدے کے بعد اُن ظالم لوگوں کے ایما پر اُن کے ایک سنگ دل شخص نے اُس اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اُس کو ہلاک کردیا جس کے بعد اُن پر وہ عذاب نازل ہوا جس عذاب کا قُرآن نے مُتعدد دیگر مقامات کے علاوہ اِس سُورت کی آخری اٰیات میں بھی ذکر کیا ہے اور اِس سُورت کے اِس آخری مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کی آزمائش کے لیئے انسان کو جو آزاد ارادہ و اختیار دیا ہے انسان اپنے اُس آذاد ارادے اور اختیار سے سب سے پہلے جو ناجائز فائدہ اُٹھاتا ہے وہ دُوسرے انسانوں کے مال و جائداد پر قبضہ کرنا ہوتا ہے اِس لیئے جب کسی قوم کے شہ زور اَفراد اپنے اِس آزاد ارادے اور اختیار سے انسانی معاشرے کے کم زور انسانوں کے حقوق تلف کرنے پر تُل جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی ایک مُدت تک اُن کو ڈھیل دینے کے بعد اُس پُوری قوم کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیتا ہے کیونکہ انسان کا انسان کی حق تلفی کرنا وہ واحد سنگین جُرم ہے جس جُرم سے عالَم کے اَمن میں وہ سنگین عالمی فساد پیدا ہوجاتا ہے کہ جس کا ازالہ صرف اُس مُفسد قوم کی اجتماعی موت ہی سے مُمکن ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461729 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More