ترقی کا جو سفر ہم اور ہمارے جیسے لوگوں نے دیکھا وہ شائد
ہی ہماری پچھلی نسلوں نے دیکھا ہوں ہمارے باپ دادا اور ہم تقریبا ایک جیسے
سکولوں سے پڑھ کرنکلے ایک جیسا ماحول تھااور پھر ہم نے اپنی زندگی میں ترقی
کا طوفان دیکھاپہلے ایک شہر کا دوسرے شہر والوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا حال
احوال کا واحد زریعہ خط و کتاب تھی اور اب دنیا سمٹ کر گلوبل ویلج بن چکی
ہے بچوں کا انداز تعلیم بدل گیا انٹرنیٹ نے انقلاب برپا کردیا قدریں بدل دی
اور ہماری کھانے پینے کی عادتیں بدل دی اور ہمیں ایک دوسرے سے بیگانہ
کردیابچپن کا زمانہ یاد کریں تو رشتوں کا احساس تھا والد کا پورا گاؤں
دادا،دادی ،تایا ،چاچا اور پھوپھو سے بھرا ہوتا تھا اسی طرح ماں کا گاؤں
نانا ،نانی ،خالہ اور ماموں سے بھرا ہوتا تھا گاؤں کے کسی بھی گھر میں داخل
ہوجائیں اپنوں سے بڑھ کر پیار ،محبت اور خلوس ملتا تھا رشتے اور اشیاء
ملاوٹ سے پاک تھے دیسی لوگ تھے اور دیسی چیزیں استعمال کیا کرتے تھے قیام
پاکستان سے قبل برصغیر کے لوگ صدیوں سے انگریز راج آنے تک ملاوٹ کے مفہوم
سے نا آشنا تھے گھروں میں دیسی گھی، گڑ، شکر، لسی، دودھ، مکھن، دیسی مرغیاں،
دیسی انڈے، بکرے، دنبے وغیرہ کا گوشت استعمال کیا جاتا تھا نہانے کے لیے
کالا صابن ہوتا تھا برتن دھونے کے لیے مٹی، ریت اور کالا صابن استعمال ہوتا
تھاشوگر ،بلڈ پریشر اور کینسر جیسی موذی مرض کا نام نشان نہیں ہوتا تھاہر
گھر خوشیوں سے بھرا ہوتا تھاایک دوسرے کے دکھ اور سکھ کے سبھی ساتھی ہوتے
تھے گاؤں کے کسی ایک گھر میں شادی ہو تو پورا گاؤں سامان اکٹھا کرنے پر لگ
جاتا اگر کوئی غمی ہے تب بھی پورا گاؤں ایک دوسرے سے بڑھ کر دکھی خاندان کے
ساتھ کھڑا ہوتا تھاہم اخلاق اور اخلاص سے بھر پور شاہانہ زندگی گذار رہے
تھے کہ پھر برصغیر پر انگریز قابض ہوا تو مصنوعات کا رواج چل نکلا مصنوعات
کیا تھیں ''مصنوعی'' چیزیں انسانی تخلیق جسکا مقصد صرف پیسہ کمانا تھا
اورجو آج پوری دنیا کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ان عالمی جعل سازوں نے ''ولایتی''
تصورمتعارف کرایا دیسی گھی کے مقابلے میں ولائتی گھی آگیا جو کہ اپنی اصل
میں صابن ہے کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کا تحفہ انہی کی کرم نوازی
ہے دیسی مشروبات (ستو، لسی، دودھ) وغیرہ کے مقابلے میں ولائتی کیمیکل ملے
مشروبات کولڈ ڈرکس وغیرہ بھی انہی کا تحفہ ہے برصغیر میں چائے بھی انگریز
نے متعارف کروائی یہ اب ہمارے لئے ایک نشہ بن چکی ہے کہ جس کے بغیر زندگی
گزارنی مشکل ہو گئی ہے گڑ اورشکر کے مقابلے میں گنے کے رس میں مضر صحت
کیمیکل کی ملاوٹ سے چینی بنا کر عوام کو اس طرف لگا دیا گیا جسکے بعد
تقریبا ہر گھر میں کوئی نہ کوئی شوگر کا مریض بن گیادودھ خالص ہوتا تھا اور
دودھ سے بنی تمام اشیاء بھی مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں
نے جعلی دودھ متعارف کرایا کیمیکل ملا دودھ ساری دنیا کو بیچنے کا سہرا
انہی کمپنی کے سر ہے اسی طرح اوربہت ساری کمپنیوں کی پروڈکٹ جن کو دودھ کہا
جاتا ہے ان میں دودھ نام کی سرے سے کوئی چیز نہیں ہوتی شکر ہے عدالت نے
پابندی لگائی اور اب ٹی وائٹنر وغیرہ لکھنے لگے ہیں پہلے بیماریاں کم ہوتی
تھی اگر کوئی بیمار ہو تو اسکاعلاج معالجہ طبیب ہی کرتے تھے جس سے انسان
واقعی تندرست بھی ہو جاتا تھا جسکے بعدعالمی جعل سازوں نے انگریزی کیمیکل
ملی ادویات متعارف کرائیں جن سے انسان روز بروز نت نئی بیماریوں کا شکار ہو
رہا ہے جب سے انگریزی ادویات کا دور دورہ ہوا ہے شاید ہی کوئی انسان روئے
کائنات پر صحت مند بچا ہو مقصد کیا تھا صرف اور صرف پیسہ کمانا آج بیماریوں
کا یہ عالم ہے کہ ہر گھر میں ہزاروں کی ادویات جا رہی ہیں اور صحت مند پھر
بھی کوئی نہیں ہو رہا آج مضر صحت کیمیکلز سے کیا کیا بنا کر بیچا جارہا ہے
اور ہم بڑے شوق سے کھا رہے ہیں دودھ، مکھن، گھی، آئس کریم، خشک دودھ، کیچپ،
چینی، رنگ برنگی فوڈ آئٹمز، مشروبات، ڈبے والے جوس، کاسمیٹکس، میڈیسن،
پھلوں کو پکانے کیلیے رنگ برنگے کیمیکل اور جانے کیا کیا ہم مصنوعی اشیا ء
استعمال کررہے ہیں اور تو اور انہوں نے ہمیں مصنوعات کی آڑ میں خوب لوٹنا
بھی شروع کردیا اور جو سب سے خطرناک بات ہمارے لیے ہے وہ یہ کہ انہوں نے
وحدت امت مسلمہ کو وطنیت کے زہر سے بدل کر اسکی جنس ہی بدل دی ہماری اصل
تعلیم کی بجائے لارڈ میکالے کا طریقہ تعلیم نافذ کرکے ہمیں تین میں نہ تیرہ
میں کردیا ہم اس وقت آدھے تیتر ہیں اور آدھے بٹیر انگریزی بولنے والوں کو
اپنی مادری زبان نہیں آتی اور مادری زبان بولنے والوں کو انگریزی نہیں آتی
قومی زبان اردو ہے مگر سرکاری خط وکتابت انگریزی میں عدالتوں میں انپڑھ کا
کیس انگلش بول کر لڑا جاتا ہے اور فریقین بغیر کچھ سمجھے سر ہلانے میں
مصروف ہوتے ہیں ہم دیسی لوگ دیسی چیزیں استعمال کرنے والوں کو عالمی قوتوں
نے بڑی خوبصورتی سے ہمیں دو رنگی میں جھونک کر ہم ہی پر ملاوٹ کا الزام بھی
لگایا دیا اورجو سرمائے کی آڑ میں روزمرہ استعمال کی ہر چیز میں مضر صحت
کیمیکلز کا دھڑا دھڑ استعمال کرکے ہماری صحت سے کھیل رہے ہیں ہم ان مصنوعی
اشیاء کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب کوئی خالص دیسی چیز کھانے کو ملے بھی
تو اسے ہمارا معدہ قبول نہیں کرتا شہری لوگ دیہات میں جاکر خالص دودھ یا گڑ
شکر استعمال کرلیں تو پیٹ خراب ہوجاتا ہے ان مصنوعات نے جہاں ہماری صحت کو
متاثر کیا وہیں پر ہمارے رشتوں میں جو خالص اور سچا پیار ہواکرتا تھا اسے
بھی متاثر کردیا چھوٹے بڑے کی تمیز ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری اخلاقیات
کو بھی ختم کردیا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہمیں دوسروں کی گردن
پر بھی پاؤں رکھ کر نکلنا پڑے تو دریغ نہیں کرتے ہمارے بزرگ دیسی لوگ تھے
دیسی چیزیں استعمال کرکے بیماریوں سے دور اور اپنوں کے قریب ہوتے تھے اور
جب سے ہم دیسی لوگوں نے ولائتی چیزوں کا استعمال شروع کیا تب سے ہم مفاد
پرست بن چکے ہیں ۔
|